لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایک نئے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنے زیادہ لوگ سازشی نظریات پر یقین کرتے ہیں وہ تنقید سوچ سے متعلق ٹیسٹ میں اتنے ہی برے نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سازشی تھیورسٹ ذہین نہیں ہوتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کسی بھی صورتحال کا معروضی تجزیہ اور جائزہ لینے کی مہارت نہیں ہوتی ہے۔
تاہم ان لوگوں کو یہ مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں اور کسی حد تک اس تاریخ پہلو سے باہر لایا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ کام ضرور ہے۔
سازشی نظریات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا کی آمد کی وجہ سے ان کی رسائی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
پیرس نانٹیرے یونیورسٹی میں نفسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور نئی تحقیق کے شریک مصنف انتھونی لینٹین نے وضاحت کی ہے کہ ”ساشی نظریات کسی بھی ایک اہم واقعہ کی حتمی وجہ کی وضاحت کرنے کیلئے ایک مخفی اتحاد کو مبینہ طور پر بد نیتی پر مبنی اور طاقتور افراد یا تنظیموں پر خفیہ طور پر ان واقعات کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے الزامات عائد کر نے جیسا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک نائین الیون کے واقعات میں امریکی حکومت کی مشکوک شخصیات کی شمولیت کی سازشی تھیوری، پیڈوفائلز کے عالمی شیطانی نیٹ ورک کا سازشی نظریہ اور پھر یقینا کورونا وائرس کے وبائی مرض کے حوالے سے سازشی نظریات اسی طریقہ سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔
’دی نیو ڈیلی‘ کے مطابق فرانسیسی محققین نے دو مطالعات میں 338 انڈر گریجویٹ طلبہ کی تنقیدی سوچ کی مہارت کا اندازہ لگایا، یہ کام ایک فرانسیسی آلے کے استعمال کے ذریعے کیا گیا ہے۔ محققین نے طلبہ کے سازشی نظریات کی طرف رجحانات اور ان کی تنقیدی سوچ کی مہارتوں کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج کے مطابق تنقیدی سوچ کی مہارت میں کمی اور سازشی نظریات پر یقین کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔
تحقیق کے مطابق تجزیاتی سوچ سکھانا سازشی نظریات کو اپنانے کے سلسلہ کو کم یا مکمل طو رپرمحفوظ کر سکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 10 اور 12 سال کے بچوں کو تجزیاتی سوچ کامیابی سے سکھائی جا سکتی ہے۔
انا اور شخصیت سوچ میں تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں۔ منفرد اور خاص دکھنے کی خواہش سازشی نظریات کی ترغیب کا کام کرتی ہے۔