فن و ثقافت

پشتو شاعری کاسفر، اجتماعی آزادی سے انفرادی حقوق تک!

قیصرعباس

خیبرپختونخواہ کے قبائلی علاقے میں آج ایک احتجاجی جلسہ ہو رہا ہے۔ نوجوان، خواتین، بزرگ اور بچے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہیں۔لوگ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔نوجوان مقررین اپنے لوگوں کے استحصال، قبائلیوں کے حقوق کی پامالی ا ور پشتونوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی دوران ایک نوجوان شاعر اور گلوکار کو کلام سنانے کی دعوت دی جاتی ہے اور میدان لوگوں کی تالیوں کے درمیان ایک ولولہ انگریز نظم سے گونج اٹھتاہے:

یہ کیسی آزادی ہے؟
انقلاب انقلاب
امن کی فاختہ بھی اسیر ہے
ہمارے بیٹے
جبرکے زندانوں میں قید ہیں
تمہارے فیصلوں کی زد میں
ناشاد ہیں برباد ہیں
زندہ درگور ہیں
پابہ زنجیر ہیں، نالہ نارسا!
آہ بھی پا بہ زنجیر ہے
یہ کیسی آزادی ہے؟

یہ شوکت عزیزہیں جو اپنے کلام اور گلوکاری کی وجہ سے عا م لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں۔ ان کا ترانہ ”یہ کیسی آزادی ہے؟“ زبان زدِ عام بن چکاہے۔

بحیثیت قوم آزادی کا تصور ہمیشہ سے پشتوشاعری کا ایک اہم حصہ رہا ہے مگر اس کے معانی ہر دور میں معروضی حقیقتوں کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ اس مقالے میں پشتوشاعری کے اجتماعی شعور سے آج کے انفرادی حقوق تک کے ارتقائی سفر کاتجزیہ کیا گیا ہے۔

جدید ریاستوں میں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی آزادیوں کی ضمانت خود ریاست دیتی ہے۔ لیکن شہریوں سے بھی قانون کی پاسداری کی امید جاتی ہے۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادار وں نے شہریوں کے حقوق کی نوعیت وضع کی ہے جن میں آزادیِ رائے، ایک فرد ایک ووٹ، مذہبی آزادی، بنیادی تعلیم، اقتصادی حقوق، صنفی مساوات، پر امن حتجاج اور دوسرے حقوق شامل ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہو نے والی اکثر ریاستوں میں جمہوی نظام یاتومعطل رہا یا براہ راست آمریت مسلط کر دی گئی۔ تیسری صورت میں ان کو اپنی حکومت کے انتخاب کا حق تو دیا گیا لیکن جمہوری روایات کے درپردہ آمرانہ طرز حکومت ہی قائم رہی اور آزادی کا تصور صرف ایک خام خیال بن کر رہ گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ عوام کی بے چینی اورا نفرادی آزادیوں کی حفاظت کی تحریکوں کی صورت میں نکلا۔ کچھ ریاستوں میں استحصال زدہ طبقات نے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہدریاستی حدود میں رہ کر حاصل کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان میں سے کچھ تحریکیں ریاست سے الگ ہونے کا مطالبہ بھی کرنے لگیں۔ جدیددنیا کی تاریخ ان دو اقسام کی تحریکوں سے بھری پڑی ہے جہاں ا قلیتوں یا پسے ہوئے طبقات نے ملک کی اندرونی حدود میں رہ کر آزادی (Autonomy) کی تحریک چلائی یا مکمل آزادی (Sovereignty) کا مطالبہ کیا۔برصغیرپاک وہند میں ہی اس کی مثال موجود ہے جہاں کشمیر کے کچھ حلقے ہندوستان یا پاکستان میں رہ کرحقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کچھ مکمل آزادی کے حق میں ہیں۔

بٹوارے سے پہلے ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے پختون قبائل انگریزی سامراج سے مکمل آزادی کی تحریک کا بھرپور حصہ تھے۔ خان عبدالغفار خان جنہیں باچا خان کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے، نے برصغیر کے بٹوارے سے پیشتر انگریز سامراج سے مکمل آزادی کے لئے تحریک چلائی جو قیام پاکستان کے بعد پشتونوں کے حقوق کی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔

خیال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد یہ صورتِ حال بدل جائے گی اور نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ دیگرصوبوں میں بھی ان کی زبان اور ثقافت کو فروغ ملے گا۔ بدقسمتی سے بہتر سال بعد بھی صورت ِحال کچھ زیادہ نہیں بدلی اور صوبائی خودمختاری دینے کی بجائے مرکز نے ان کے حقوق کی پامالی کی پالیسی جاری رکھی۔ ملک میں جب شدت پسندی اور مذہبی بنیادوں پر تشدد نے زور پکڑا تو اس کا سب سے زیادہ اثر خیبر پختون خواہ پر پڑا۔ گزشتہ کچھ برسوں میں سابق فاٹاکے قبائلی علاقوں میں، جنہیں اب خیبر پختونخواہ کا حصہ بنایا جاچکاہے، بڑے پیمانے پر عام باشندوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی کے بعد ان کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

صدیوں پر پھیلی تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی اور قبائلی اقدار کی حفاظت ہمیشہ سے پشتو ثقافت کی پہچان رہی ہے۔ ان اقدار کی حفاظت کے لئے مغلیہ دور سے انگریزسامراج اور پھر آزادی کے بعد بھی حکمرانوں کی زیادتیوں کے خلاف سرحد کے قبا ئلیوں کی مزاحمت جاری ہے۔ جن کااظہار ادبی اور سماجی حلقوں میں بھی کیا جاتا رہاہے۔

میجر ریورٹی(Major Reverty) نے پشتو شاعری کے انگریزی ترجمے کیے ہیں۔ جن میں پشتو کے سولہویں سے انیسویں صدی کے شعراکو شامل کیا گیا ہے۔ ان اولین شاعروں میں مرزاخان انصاری، عبدالرحمن (رحمن بابا)، خوشحال خان خٹک، اشرف خان خٹک، عبدالقادرخان خٹک، احمدشاہ ابدالی (افغان فرماں روا جنہیں بانی افغانستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے)، کاظم خان شیدا اور خواجہ محمد بنگش شامل ہیں۔

آج جن شعرا کو پشتو شا عری کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے ان میں رحمن بابا، خوشحال خان خٹک، غنی خان، امیرحمزہ شنواری، سمندر خان سمندر، حسینہ گل اور دیگر شعرا شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انفرادی رنگوں میں تصورِآزادی پیش کیا ہے۔

رحمن بابا (1653-1711ء) امن دوستی، عشق، انسانی بھائی چارے اور صوفیانہ کلام کے لئے مشہورہیں۔ ان کی غزلیں آسان زبان میں فلسفے کی گہرائیاں تلاش کرتی ہیں اوران گہرائیوں میں سیدھے سادھے انداز میں انسانی اخلاقیات اور روحانیت کا درس دیتی ہیں۔ ریورٹی ان کے کلام کی خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”ان کی شاعری میں سادگی کا عنصرموجود ہے لیکن ان کا طرزِ اظہار ایک آتشی قوت بھی لیے ہوئے ہے جو اس دور کی فارسی شاعری میں بہت کم نظرآتی ہے۔“

خو د رحمن بابا کے الفاظ میں ان کی شاعری کاجادو آج بھی سر چڑھ کے بولتا ہے:

ہر لحظہ رحمن کی دھن پر
پشاور کے جوان ہنستے، گاتے اور رقص کرتے
نظرآتے ہیں!

ان کا یہ خوبصورت شعرزندگی کی بے ما ئیگی اور گزرتے ہوئے وقت کے احساس کوایک نئے اور اچھوتے انداز میں بیان کرتاہے جسے اردو کے مشہور شاعر جاوید اختر نے بھی اپنی ایک نظم کے مرکزی خیال کے طور پر استعمال کیاہے:

زندگی میرے سامنے سے گزر رہی ہے
لیکن میں تو وہیں ساکت کھڑ اہوں
جہاں پہلے تھا!

خوشحال خان خٹک (1613-1689ء) جن کو پشتو کا سب سے عظیم شاعر کہا جاتا ہے رحمن بابا کے ہم عصرتھے مگر عمر میں ان سے بڑے تھے۔ ان کا شمار ان اولین شعرا میں ہوتاہے جنہوں نے پختون قبائل کو قومی آزادی اور اتحاد کا پیغام دیا۔ ایک باغی سپاہی، قبائلی رہنما اور شاعر کی حیثیت سے وہ تمام عمر ہندوستان کے مغل شہنشاہ کے خلاف پشتون قوم کی اجتماعی آزادی کی جنگ میں مصروف رہے اور قوم کو اتحاد اور آزادی کے تحفظ کا درس دیتے رہے۔ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

افغان ہر لحاظ سے مغلوں سے بہتر ہیں
لیکن ان میں اتحاد کی کمی ہے
رحم آتا ہے ان کی کمزوریوں پر

ڈاکٹر اسماعیل گوہر کے مطابق جنہوں نے خوشحال خان کی رباعیات کا ترجمہ کیا ہے:

”ان کی نظم کا دامن وسیع ہے تو غزل کی تنگ دامنی کا بھی کوئی احساس لاحق نہیں ہے۔ ان کی غزل میں مضامین کے تنوع نے پشتو غزل کو فکر و فن کی بلندیاں عطا کیں۔ ان کے طرز ِاحساس اورطرز ِاظہار نے غزل میں ندرت، جدت اور بے ساختگی کی ایسی نئی فضا تخلیق کی جس کی پشتو شاعری میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ داخلی احساسات اورخارجی حالات و واقعات کے بیان میں خوشحال خان خٹک کے ندرت اظہار اور شاعرانہ اظہارکے سلیقے نے پشتو غزل کو فارسی غزل کے ہم پلہ کر دیا۔“

خوشحال خان نے آزادی کے جس تصور کو پشتو ن قبائل کا ایک اجتماعی شعوربناکر اسے شاعری کاجزو بھی قرار دیا وہ بعد کے تمام شعرا کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوا۔

سمندر خان سمندر (1901-1990ء) اپنی طویل نظموں کے لئے مشہورہیں اور شاعری کے کئی مجموعوں کے علاوہ ترجموں اور علم ِعروض پر کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
انہوں نے آزادی کے اسی تخیل کو انفرادی آزادی کی بجائے پختون قبائل کی قومیت کا ایک استعارہ بناکر اپنی نظم کاحصہ بنایا:

پختونو!
اگر مشکلات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو
تو اٹھو!
اپنی تلوار، نیزہ اور پرچم بلندکرو!
اپنی طاقت اور زعم کو نئی راہ دکھاؤ
او ر دنیا کے رنجیدہ دلوں کا سہارا بنو!

شروع ہی سے فارسی کے زیر اثر غزل‘ پشتو شاعری کا ساختیاتی اسلوب قرارپا ئی جسے موسیقی کے ذریعے سماجی تقریبات کا حصہ بنایاگیا۔ ڈاکٹر قابل خان آفریدی نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں پشتو شاعری کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کا سہرا حمزہ خان شنواری کے سر باندھا ہے۔ امیر حمزہ شنواری (1907-1992ء) اسی عہد کے ہم سفر تھے جس نے ہندوستان میں بٹوارے اور اس کے بعد کی سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کو دیکھا اور محسوس کیا۔ وہ پشتو غزل کے لئے مشہور تھے لیکن انہوں نے نظم اور نثردونوں میں طبع آزمائی کی۔ وہ پشتو ثقافت اور ادب کی ترقی کی جدوجہد میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اپنی ایک غزل میں حمزہ خان قوم کی آزادی اور قومیت کے تصورکو اس انداز میں آ گے لے کر بڑھتے ہیں:

میں چلوں گا!
بہادر پشتونوں کے ساتھ
قوم کے سورج، میں ہمیشہ تیرے ساتھ چلوں گا
ٖٖصبح کی شبنم کی طرح‘ جو کرنوں کے ساتھ در آتی ہے
میں چلوں گا!
ان کے ساتھ بھی جو قوم کی ہواؤں کو
تھمنے کا مشورہ دیتے ہیں
میں جنگل کا دھواں نہیں کہ اڑ جاؤں
میں دوزخ نہیں، بہشت کا پیغام
لے کر چلوں گا!
میں وہ سورج نہیں جو واپس نہ آئے
ابھرتے ہو ئے دن کی طرح
میں چلوں گا!

سرحدی گاندھی خان عبدالغفارخان کے دانشور سپوت غنی خان (1914-1996ء) جدید دور کے اہم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مزاحمتی شاعری کے ذریعے بٹوارے کے بعدملک کے حکمرانوں کے جبر و تشدد کے خلاف آواز بلند کی۔ آزادی کے ایک سال بعدہی انہیں باغیانہ شاعری اور سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں چھ سال کے لئے پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ اگرچہ وہ ایک منجھے ہوئے رومانوی غزل نگاربھی تھے لیکن ان کی شاعری کا مزاحمتی عنصر ان کے کلام کی معراج سمجھا جاتاہے۔ طاقت اور اقتدار کے بے دریغ استعمال، سیا سی رہنماؤں اور شہنشا ہیت کو انہوں نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک نظم میں مطلق العنان بادشاہوں کوظلم و ستم کا استعارہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اگرتم انصاف نہیں کرسکتے تو اقتدار سے دست برداری ہی تمہارے لئے ایک بہترراستہ ہے۔“ صاحب اقتدار اور غربت زدہ لوگوں کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے کلام کے آخری حصے میں سوال کرتے ہیں:

ایسی زندگی جس کامقصددوسرں کو ہلاک کرنا
یا خود ہلاک ہوجانا
اس باغ کی طرح ہے
جس کو بلبل سے محروم کردیا گیا ہو

ان کے کلام میں طاقت کے نشے میں چور حکمرا ن طنز کے نشتروں کا نشانہ بنتے نظر آتے ہیں۔ غنی خان اپنی ایک نظم میں سیاسی رہنماؤں کے کردار کو ایک ایسے ذی روح سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی تخلیق سانپ، سگ اور خطرناک حیوانوں کے خمیر سے کی گئی ہو۔ صاحبانِ اقتدار سے نفرت کی یہ شدت شاید ان پر اور ان کی قوم پرکی گئی سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کا نتیجہ تھی۔

صد یوں کا سفر طے کرنے کے بعد غزل اور نظم جیسے روایتی پیرائیہ اظہار کے علاوہ جدید پشتو شاعری اب جدید نظم میں بھی قدم رکھ چکی ہے۔جن میں تازہ عنوانات اور ساختیاتی تجربات شاعری کا حصہ بن رہے ہیں۔ جدید پشتو شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شیرعالم شنواری کہتے ہیں کہ:

”مراد شنواری نے جدید پشتو شاعری میں آزاد نظم کو متعارف کرایا ہے اورجن نئے شعرانے پشتو شاعری کوکچھ نئے سما جی ا ور سیاسی عنوانات دئے ان میں خدائی خدمتگار تحریک کے فضل محمد مخفی، غنی خان اور عبدل اکبر خان اکبرکے نام اہم ہیں۔ ان کے علاوہ جدیدشعرا میں قلندر مہمند، اجمل خٹک، سیف الرحمن سلیم، اشرف مفتون یوسف خان اور عبد الرحمن مجذوب جیسے ترقی پسند شعرابھی شامل ہیں۔“

خو شحال خان سے شروع ہونے والا اجتماعی اور قومی تصورِآزادی اکیسویں صدی تک آتے آتے لوگوں کا انفرادی دکھ بن جاتا ہے جہاں نسائی درد بھی شاعری کا حصہ بن گیاہے۔

حسینہ گل (پیدائش 1966ء) کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے جواپنی شاعری میں مابعد جدیدیت کے رومانوی، سماجی اور صنفی احساسات کی علم بردارہیں۔ وہ اپنے سماج سے غیر منصفانہ سلوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صنفی ناانصافیوں کو بھی شدت سے محسوس کرتی ہیں۔ ریڈیو براڈکاسٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والی اس شاعرہ نے اپنے اردگرد کے سماجی رویوں اور ان کے تضادات کوبڑی بے باکی سے افشا ں کیاہے:

اگرچہ میرے ہاتھ بندھے ہیں
میرے ہونٹوں پر تالے لگے ہیں
میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے
مگر میں ایک آزاد دانشور ہوں
مری سوچ آزاد ہے!
میں اپنی شاعری میں
نغموں میں
اورترانوں میں
تمام پابندیوں کی نفی کرتی ہوں!
میں ایک آزاد پنچھی ہوں
اور یہی میری زندگی کا حاصل ہے
اگرتمیں یہ پسند نہیں
تو آؤ اور مجھے اسیرکرو!
میں ایک آزادسوچ رکھتی ہوں
اور مجھے اس پر فخر ہے۔

رومانوی، رزمیہ اور صوفیانہ جہتوں کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہو ئے پشتو شاعری نے ہر دور میں مزاحمتی رنگ اپنایا ہے۔ اجتماعی آزادی کا پیغام لیے صد یوں پرانا یہ رنگ اب اکیسویں صدی میں انفرادی حقوق، انصاف، طبقاتی استحصال کی مخالفت اور نسانی حقوق کی ایک نئی جدوجہد میں داخل ہو رہا ہے۔شوکت عزیز کا گیت ”یہ کیسی آزادی ہے؟“ پشتو شاعری کی صدیوں پر پھیلی اسی وراثت کا امین ہے ا ور یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر بھی یہ ہزاروں دلوں کی آواز بن کر گونج رہا ہے:

خانہ بربادی ہے!
یہ کیسی آزادی ہے؟
ڈوبتاجارہاہے زندگی کاسفینہ
یہ کیسی آزادی ہے؟
انقلاب انقلاب‘ آئے کوئی انقلاب!
یہ کیسی آزادی ہے؟
کہاں ہیں انسانی حقوق ہمارے؟

(اس مقالے میں شامل پشتو کلام کا اردو ترجمہ مصنف نے انگریزی تراجم سے کیا ہے)

کتابیات

1۔ جینز انیولسڈسن (Jens Enevoldsen)۔ (1993ء) دی نائٹنگل آف پشاور: سلیکشنز فرام رحمن بابا۔ انٹرلنک فاؤنڈیشن، پشاور۔
2۔ڈاکٹر اسماعیل گوہر۔ (2017ء) خوشحال خان خٹک، منتخب رباعیات مع اردو ترجمہ۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد۔
3۔افتخارعارف، وقاص خواجہ۔ (2011ء) ماڈرن پوئیٹری آف پاکستان۔ڈالکی پریس، لندن۔
4۔قابل خان آفریدی۔ (1998ء) لٹریری ہیریٹج آف خیبر، پاسٹ اینڈ پریزینٹ، اے ریسرچ پروجکٹ پریزینٹیڈ ٹو
پشاور یونیوسٹی۔
5۔لیری گڈسن (Larry Goodson)۔ (1998ء) فریگ مینٹیشن آف کلچر ان افغانستان۔ الف، جرنل آف کمپیریٹوپوئیٹکس، نمبر 18۔
6۔میجر ایچ جی ریورٹی(Major H. G. Reverty)۔ (1867 ء) پوئٹری آف دی افغانز، لٹریری ٹرانسلیشنز فروم دی سکسٹینھ ٹو نائینٹینھ سینچری۔ ولیم اینڈ نورگیٹ، لندن۔
7۔ڈاکٹر حیدرلاشاری۔ (2012ء) سفیرانسانیت، باچاخان، سوانح۔باچاخان ریسرچ سینٹر، پشاور۔
8۔شیرعالم شنواری۔ (2005ء) مراد شنواری اینڈ فری ورس ان پشتو۔ www.khyber.org

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔