فاروق سلہریا
مندرجہ بالا تصویر میں نے گذشتہ جمعے کے روز چیرنگ کراس، مال روڈ لاہور پر لی۔ جب طلبہ یکجہتی مارچ ختم ہوا تو وہاں دو پھل فروش پھل اور مسمی کا شربت بیچنے کے لئے جمع تھے۔
بعض لوگ جوس خرید رہے تھے۔ دیگر مسمی خرید کر کھانے لگے۔ ماضی کی نسبت ایک بہتری یہ ضرور دیکھنے میں آئی کہ جوس ڈسپوز ایبل گلاسوں میں بیچا جا رہا تھا۔ ویسے لاہور کے محنت کش علاقوں میں جائیں یا ملک بھر کے قصبوں میں عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے گلاس کی بجائے روایتی طور پر شیشے کا گلاس استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے ساتھ رکھی بالٹی میں ’غسل ‘دے لیا جاتا ہے۔
صرف جوس ہی نہیں، پھل، فروٹ چاٹ، سموسے پکوڑے، نان چنے یا اس طرح کے دیگر کھانے خوانچہ فروش، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف، انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں بیچ رہے ہوتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ کرونا وبا بھی پاکستان میں اکثریت کو حفظان صحت کے بنیادی اصول نہیں سکھا سکی۔ اسے موجودہ حکمران طبقے کی زبردست نالائقی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ مولوی حضرات بھی اس حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ منبر پر بیٹھ کر صفائی نصف ایمان کا درس دینے والے مولوی کو خود صفائی اور ہائی جین (Hygiene) کا فرق پتہ نہیں ہوتا۔ یہ مولوی ہر طرح کا بگاڑ تو ضرور پیدا کر سکتے ہیں مگر معاشرے میں سدھار پیدا کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔
نہ صرف یہ حکمران طبقہ عوام کے کلچرل معیار اور بنیادی شعور کو تعمیر کرنے میں بری طرح ناکام ہے بلکہ حفظان صحت کے اصولوں کی ملک بھر میں نفی ریاست کی زبردست ناکامی کا بھی اظہار ہے جو اتنی بنیادی سی بات پر بھی عمل نہیں کروا سکتی کہ کھانا بیچنے والے ہائی جین کا خیال رکھیں۔
طرح طرح کی موذی اور جان لیوا بیماریوں کی جڑ ایسی جگہ سے کھانا کھانا اور پانی پینا ہے جہاں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔
ہماری قارئین سے درخواست ہے کہ اس مسئلے ہر زیادہ سے زیادہ شعور پھیلائیں۔
ریاست کو چاہئے کہ سٹریٹ فوڈ بیچنے والوں کے لئے کچھ قاعدے قوانین وضع کرے، ان کی تشہیر کرے، ان پر عمل درآمد کرائے۔ شہری بھی حفظان صحت کے اصولوں بارے اپنے علم میں اضافہ کریں۔ تعلیمی اداروں، ٹریڈ یونینز، سوشلسٹ سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو بھی یہ شعور پھیلانا چاہئے۔
آج سے سو سال قبل سویڈن میں محنت کشوں کی اکثریت غربت میں رہتی تھی اور کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا معمول کی بات نہ تھی۔ اس کے نتیجے میں بے شمار بیماریاں جنم لیتیں اور بے شمار اموات ہوتیں۔ اپنے آغاز پر ہی سویڈن کی سوشلسٹ تحریک اور ٹریڈ یونین نے اپنے ذمے ایک اہم فریضہ یہ لیا کہ مزدور کو ہائی جین بارے تربیت دے۔
پاکستان میں بھی محنت کش طبقے کے کلچرل معیار کو بہتر کرنا سوشلسٹ اور مزدور تحریک کا ایک اہم فریضہ ہے۔ اسے ادا کرنے کے لئے انقلاب کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ جس حد تک ہو سکے یہ فریضہ سر انجام دیں۔ اسی کا نام ہے: ایوری ڈے سوشلزم!یعنی روزمرہ کا سوشلزم۔
ہمارا ”روزمرہ کے مسائل“ کا سلسلہ بالکل مختصر مضامین پر مشتمل ہو گا جس میں آپ بھی کسی سماجی مسئلے اور اس کی وجوہات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحریریں یا آرا ہمیں یہاں ارسال کریں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔