سوچ بچار

سرکاری حب الوطنی کے اشتہار…

ربیعہ باجوہ

گورنر ہاؤس لاہور کے باہر مال روڈ لاہور پر جا بجا آویزاں مندرجہ ذیل بینر پاکستانی جمہوریت کو تصویری شکل میں بیان کرتے ہیں۔

یہ بینر کسی ادارے کی ”پبلک امیج بلڈنگ“ کی ستر سالہ جاری مہم کا حصہ ہیں یا کسی انفرادی عقیدت کا اظہار‘ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ وجہ کچھ بھی ہو‘ ایسے اشتہار عمومی طور پر ریاستی بیانیے کے عکاس ہیں۔ ان کے ذریعے عوام کو اچھی طرح ذہن نشین کروایاجاتا ہے کہ عوام ریاست کے لئے ہیں نہ کہ ریاست عوام کے لئے۔

اس طرح کی اشتہاری مہم سے یہ یاد دہانی بھی کروائی جاتی ہے کہ ریاست کے بیانیے کو من و عن تسلیم کرنا ہے، عام لوگ امورِ مملکت چلانے کے اہل نہیں اور نہ ہی کوئی وزیرِاعظم ریاستی سر پرستی کے بغیر ملک کی ذمہ داریاں ادا کر سکتا ہے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ اس قسم کے اشتہاروں پر نہ صرف عوام بلکہ حکومت کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ تصویری مہم مکمل طور پر آئینِ پاکستان کی روح کے منافی ہے۔ آئین تو یہ کہتا ہے کہ وزیرِاعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے اور ریاستی ادارے حکومت کے ماتحت ہیں۔

اس قسم کے بینر اور اشتہار نہ صرف طاقت کا اظہار ہوتے ہیں بلکہ جبر ی عقیدت میں اضافے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہی وہ عقیدت ہے جو افراد کو سوال اٹھانے اور جواب دہی کے حق سے محروم کرتی ہے۔ اسی عقیدت نے قوم کو برسوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے اور لوگ ایک دائرے میں محوِ سفر ہیں۔ یہی عقیدت ذہنی غلامی پر منتج ہوتی ہے۔

دوسری جانب اس بینر سے جبر اور دھونس کی ایک داستان بھی منسلک ہے جس کی تاریخ فوجی آمریتوں کی شکل میں ملتی ہے۔ اس داستان کے سیاہ ترین باب کی گواہی شاہی قلعے کے در و دیوار بھی دیتے ہیں۔ حالیہ ادوار میں چلنے والی انسانی حقوق کی تحریکوں میں انجمن مزار عین اوکاڑہ اورعطا آباد جھیل کے متاثرین کی تحریک اسی داستان کا نیا باب ہیں۔

گورنر ہاؤس کے عین سامنے اس قسم کے بینر نہ صرف جمہوری حکومت کے ”جمہوری“ ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ مال دوڑ پر ان کی موجودگی اور بہت سے حوالوں سے بھی معنی خیز ہے۔ اسی مال روڈ پر پنجاب اسمبلی بھی موجود ہے۔ ایسے اشتہار منتخب نمائندوں کو پاکستان میں جمہوریت کے اصل مطلب کی یاد دہانی کا کام بھی دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ بھی مال روڈ پر واقع ہے۔ جب ہائی کورٹ آنے جانے والے معزز جج صاحبان کی نظر سے یہ بینر گزرتے ہوں گے تو جانے وہ کیا سوچتے ہوں گے۔

پاکستان کی سیاست میں یہ بینر ایک ایسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں جو الیکشن کمیشن میں تو رجسٹر نہیں مگر ا س کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت خفیہ طور پر ہر الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور غیر اعلانیہ نتائج کے مطابق اسے کبھی شکست بھی نہیں ہوئی۔ مروجہ سیاسی نظام میں و ہ جس طرح کی بے پناہ طاقت رکھتی ہے وہ کسی سیاسی جماعت کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

اس تصویر کی البتہ ایک خوبی بھی ہے۔ اس کے پیغام میں کسی قسم کی منافقت یا جھوٹ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ دھڑلے سے سچ بولا گیا ہے اورانتہائی عمدگی کے ساتھ پاکستان کے سیاسی سفر کی ستر سالہ تاریخ کو تصویری شکل میں بیان کیا گیا ہے۔

Rabbiya Bajwa
+ posts

ربیعہ باجوہ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی فنانس سیکرٹری رہی ہیں اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔