لاہور (جدوجہد رپورٹ) پنجاب یونیورسٹی لاہور کی طالبہ سے زیادتی کی کوشش اور ویڈیو بنانے کے الزام میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کے ناظم اور اسکے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں نامزد ملزمات عندلیب اور اسکے ساتھی اویس کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ عندلیب کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ جینڈر سٹیڈیز میں جمعیت کا ناظم ہے، جبکہ اویس کا تعلق بھی جمعیت سے ہی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق طالبہ کو ملزمان نے گن پوائنٹ پر کیمپس پل سے اغوا کیا، نامعلوم مقام پر لے جا کر زیادتی کی کوشش کی اور طالبہ کو نیم برہنہ کر کے ویڈیوز بھی بنائیں۔ ملزمان ویڈیوز کو استعمال کر کے طالبہ کو بلیک میل بھی کرتے رہے۔ طالبہ کو دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ اگر اس نے ملزمان سے ملاقات نہ کی تو اسکی ویڈیوز وائرل کر دی جائیں گی۔
’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ طالبہ کے بھائی نے بتایا کہ ملزمان طالبہ کو ایک ماہ سے بلیک میل کر رہے تھے، طالبہ ڈر کے مارے خاموش تھی، تاہم اس کے اہل خانہ کی جانب سے شکایت درج کروائی گئی ہے۔
مسلم ٹاؤن تھانہ پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف اغوا، ہراسگی، جنسی زیادتی کی کوشش اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ پنجاب یونیورسٹی سے باہر پیش آیا، تاہم متاثرہ طالبہ اور دونوں ملزمان پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبہ نمرہ اکرم نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”پنجاب یونیورسٹی میں اس واقعہ کے بعد کی صورتحال اگر دیکھی جائے تو 3 روز قبل جمعہ کو مجھے اور میرے ساتھی طالبات کو ایک کیفے میں بیٹھنے سے روکا گیا۔ ہم شام 6 بجے کیفے میں آ کر بیٹھے تھے، ہماری کلاسیں ساڑھے 6 بجے تک چلتی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”وکٹم بلیمنگ کا سلسلہ براہ راست نہ بھی ہو تو بالواسطہ طور پر یہ طالبات کو بتایا جا رہا ہے کہ انہیں کیمپس کے احاطہ میں بھی کلاس کے اندر ہی رہنا چاہیے اور کلاس سے نکل کر سیدھا گھر جانا چاہیے یعنی آپ لوگ باہر نکلا ہی نہ کریں تاکہ کوئی آپ کو ہراساں نہ کر سکے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ جو یہ درندگی کر رہے ہیں، انہیں کوئی روک نہیں رہا، اس طرح کی حرکتوں سے انہیں روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس طالبات کو ہی کیمپس کے احاطہ میں بھی بیٹھنے سے روکا جا رہا ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”جمعیت کے لوگوں کی مثال ’اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت‘ والی ہی ہے، یہ لوگوں کو تو اسلام کا درس دیتے ہیں، لیکن خود جو حرکتیں یہ کرتے ہیں، جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں، وہ ایک طالبہ بیان ہی نہیں کر سکتی۔ ان کی حرکتیں یہ واضح کر رہی ہیں کہ ان کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے۔“
پنجاب یونیورسٹی کی ہی طالبہ ایمن فاطمہ کا کہنا تھا کہ ”گرفتار ہونے والے ملزمان میں سے ایک جینڈر اسٹیڈیز کے شعبہ کا اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم عندلیب گڑھی ہے اور دوسرا بھی اسکا ساتھی ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ایک طرف سے بے حیائی اور فحاشی کے خلاف مہم کے نام پر طلبا و طالبات کو ہراساں کرتے ہیں، جبکہ خود طالبات کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں یہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک کیس سامنے آیا ہے۔ اس طرح کے بے شمار کیس ایسے ہیں جن میں جمعیت کے لوگ لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ”جمعیت کے لوگ باقی سب کو اسلام کا درس دیتے ہیں اور خود اسلام کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ پر انکا رعب و دبدبا ہے یا کیا بات ہے، انہیں جو کچھ چاہیے ہوتا ہے انہیں ملتا ہے، انہیں کوئی کسی کام سے روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔“