دنیا

”روس یوکرائن جنگ“ کے امکانات

ناصر اقبال

گزشتہ کچھ دنوں سے عالمی میڈیا اور سیاسی حلقوں کی حد تک تو ر وس اور یوکرائن کے مابین ممکنہ جنگ کا طبل بج چکا ہے۔ بادی النظر میں جنگ برپا ہو جانے کا قیاس کرنا اس وقت خاصا جائز ہو جاتا ہے جب متحارب فریقین کی افواج توپ و تفنگ سے لیس ہو کر رزمیہ جنگی ترانے گاتے ہوئے صف بندی کر کے مورچہ زن ہو جائیں۔

سیاسی ماہرین کے تعیں پہلے محدود علاقائی جنگ اور پھر بعد میں عالمی جنگ اور اس کے بعد فقط ایٹمی تباہی، اسی ضمن میں جو کم از کم رائے ہے کہ پہلے مرحلے میں سوویت یونین کا احیا دوسرے مرحلے میں سرد جنگ کا احیا اور پھر اس سے جڑے”ثمرات“ بھی زیر نظر و بحث ہیں۔ غریب کے گھر کی دیوار کیا گری کہ لوگوں نے راستے ہی بنا لیے کے مصداق اس وقت دنیا میں دبی دبی طفلانہ خواہشات کے اظہار کا ایک طومار برپا ہے۔

ہم یہی سنتے آ رہے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی جنگ کے بادل آتے ہیں تو اسلحہ ساز اداروں اور ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ جایا کرتی ہے۔ اس وقت اس بارے ہم وثوق سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ عالمی میڈیا یقینا ایک ہیجان میں مبتلا ہے۔ مسئلہ کی رپورٹنگ پرانی جنگی فلموں کے ٹوٹے جوڑ کر ایک ایکشن سے بھر پور پس منظر میں پیش کی جا رہی ہے۔ سادہ لوح عوام تو اسی سے ہی متاثر ہو کر اپنے آپ پر رقت یا خوف طاری کر کے یقین کر لیتے ہیں کہ جنگ شروع ہو بھی چکی۔ اس وقت جنگی وقائع نگاروں کی دوڑ کی منزل صرف اور صرف یوکرائن ہے تا کہ توپوں اور ٹینکوں کی گھن گرج سے مزین لائیو مناظر عوام کو دیکھائے جا سکیں۔

اس ضمن میں ہم نے سیاست کے طالب علم کے طور پر روس اور یوکرائن کے مابین مسئلہ یا تنازع کو سمجھنے کی کوشش کی جو حقائق، سوالات او ر واقعات سامنے آ سکے ان کو ہم ایک ترتیب سے دیکھ لیتے ہیں تا کہ جنگ چھڑ جانے کے امکانات کا بغور حساب کرنے یا نتائج پر پہنچنے میں آسانی رہے۔

آج کے دن تک اس تنازع کے تین فریق ہی سامنے آئے ہیں۔ سب سے کمزور فریق یوکرائن ہے دوسرا براہ راست اور طاقتور فریق روس او ر تیسرے فریق کے طور نیٹو (NATO) جو کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت 30 چھوٹے بڑے ممالک پر مبنی ایک فوجی اتحاد ہے۔

مشرقی یورپ میں واقع یوکرائن رقبہ کے لحاظ سے تقریباً پاکستان جتنا، 4 کروڑ آبادی پر مشتمل ایک زرعی اور صنعتی ملک ہے۔ ایک عرصہ سوویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد 1991ء میں یونین کی تحلیل کے بعد ایک آزاد و خود مختار ملک کے طور دنیا میں ابھرا۔ 1986ء میں ہونے والے مشہور زمانہ چرنوبل ایٹمی بجلی گھر کی تباہی کا واقعہ یوکرائن کی تاریخ سے جڑا ہے۔ 1991ء سے لیکر 2004ء تک دونوں ممالک کے باہمی تعلقات خوش گوار رہے کیونکہ تمام یوکرائنی حکومتوں کو ماسکو کی آشیرباد حاصل تھی۔ 2004ء میں ہونے والے اورنج انقلاب کے نتیجہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مبینہ مغرب نواز حکومت معرض وجود میں آئی جس کا منشور تھا کہ ماسکو کے اثر سے دوری اور یورپین یونین اور نیٹو سے اچھے تعلقات وغیرہ۔ 2008ء میں نیٹو کی رکنیت کے لیے باقاعدہ بات چیت شروع ہوئی جو ماسکو کو بہت ناگوار گزری۔ آئے دن عوامی ردعمل اور روسی اثر و نفوس کے پیش نظر بلآخر مغرب نواز حکومت نے یو ٹرن لیا اور مغرب سے تمام تجارتی و سماجی تعلقات ختم کر کے دوبارہ سے ماسکو کی آغوش میں پناہ لی۔ یاد رہے یوکرائن کی 13 فیصد آبادی نسلی اعتبار سے روسی ہے، روسی زبان بولتی ہے اور روس کے ساتھ ہی تمام سماجی و سیاسی تعلقات رکھنے کی حامی ہے۔

جزیرہ نما کریمیا جو کہ سوویت وقتوں سے یوکرائن کا حصہ رہا ہے بحیرہ اسود میں تجارتی لحاظ سے خاص مقام رکھتا ہے۔ کریمیا کی 65 فیصد چونکہ روسی النسل ہے تو اس کی مدد سے 2014ء میں روس نے ہر قسم کی فوجی اور سیاسی مداخلت کر کے اسے روسی فیڈریشن کا حصہ بنا لیا۔ اسوقت دنیا میں اس معاملہ پر خاصا شور بھی مچا تھا۔

ٰٰیوکرائن کا مشرقی علاقہ جسے ڈومباس کہا جاتا ہے کی اکثریت آبادی بھی روسی النسل ہے اور روس سے محبت کرتی ہے۔ یہاں علیحدگی پسند تحریکوں کا دور دورہ ہے جو اس علاقہ کو یوکرائن سے آزاد کرا کے روسی فیڈرشن میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔

2017ء میں یوکرائن کی حکومت نے پھر سے یورپین یونین سے رجوع کیا اور فری ویزہ اور تجارت جیسے معاہدات طے کیے۔ 2020ء میں آئی ایم ایف نے یوکرائن کو 5 بلین ڈالر کی امداد کرونا وبا کی مد میں جاری کی۔ جنوری 2021ء میں حکومت نے ایک بار پھر امریکی حکومت سے نیٹو کی ممبرشپ کے لیے درخواست دی اور روس نواز اپوزیشن لیڈر کو پابند سلاسل کر دیا۔ اسکے بعد سے ہی روس نے ایک طرف یوکرائن کے باغیوں یا علیحدگی پسندوں کو ہلہ شیری دی تو دوسری طرف سرحدوں پر فوجی اجتماع اور جنگی مشقیں شروع کیں۔ 24 جنوری 2022ء کو نیٹو نے بھی یوکرائن کی مدد کے لیے باقاعدہ اعلان کر دیا جس سے جنگی ماحول میں شدید تیز ی آئی۔

تنازعہ خواہ ذاتی، گروہی، ملکی یا عالمی نوعیت کا ہو فریقین کے درست موقف کی خاص اہمیت ہوتی ہے اور اس درست موقف کو اگر درست طریقے سے عالمی رائے عامہ کو پیش کر دیا جائے تو پھر اسے مات نہیں دی جا سکتی۔ یوکرائن روس کے مقابلے میں خاصہ چھوٹا ملک ہے مگراس کا موقف ہے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اپنے تمام معاملات بشمول تجارت و دفاع اور معاہدات کرنے میں بھی خود مختار ہے۔ خاصہ جاندار موقف ہے۔ علاوہ ازیں یوکرائن کی عمومی شہرت اچھی ہے اور اس پر کوئی سیاسی یا اخلاقی جرائم کا الزام نہیں ہے۔ گو کہ اندروں خانہ سیاسی خلفشار ضرورہے لیکن یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اور اگر وہ کوئی معاہدہ کر لے یا کرنے کی کوشش کرے تو کسی بھی ہمسایہ ملک کو حق نہیں پہنچتا کہ اس پر جنگ ہی مسلط کر دے۔ اپنے موقف کی درستگی کی بنیاد پر عالمی رائے عامہ یوکرائن کے خلاف نہیں جا سکتی۔

روسی سیاسی قیادت ایک منجھی ہوئی میچور قیادت ہے۔ اسی نے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روسی فیڈریشن کو تمام بحرانوں سے نکالا ہے لہٰذ اس سے کسی بڑے پاگل پن کی امید نہیں کی جا سکتی۔ رہی نیٹو کی طاقت تو کرونا وبا اور سقوط کابل کے بعد جنگ کی باتیں کم از کم ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں۔

سوویت یونین 10 سال فوجی دراندازی کر کے افغانستان کے مسائل کو حل نہ کر سکا اور یہی حال نیٹو کا ہے 20 سال جنگ اور دیگر اخراجات کرنے کے باوجود نتیجہ وہی کہ کہسار جانے اور افغان جانے۔ ماضی قریب کی یہ ناکام افواج اب یوکرائن کے مسائل کو حل کروانے پہنچ چکی ہیں۔

حالیہ کشیدگی کو ایک اور منظر نامے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم 1991ء سے دیکھ رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت و معیشت، وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت، موٹر ویز، ٹاپی اور سی پیک وغیرہ پر بڑی طاقتوں کی بے پناہ سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ چین نے یورپ کی منڈیوں تک برائے راستہ یوکرائن پہنچنا ہے۔ عالمی تجارت یا تجارتی راستوں کا حصول موجودہ متحارب فوجی اجتماع کا تناظر ہو سکتا ہے۔ اگر تجارت شروع ہو جاتی ہے تو ان بڑی طاقتوں نے ہی بڑی بڑی تجارت کرنی ہے اس میں پاکستان کاتو زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس خطے میں چھوٹی موٹی جنگ بھی موجودہ تجارتی ایجنڈوں کو کم از کم 30 سال پیچھے پھینک دے گی۔ واضح رہے کہ ہم اس کشیدگی کو نورا کشتی ثابت نہیں کرنا چاہتے کشیدگی بحرحال اپنی جگہ پر حقیقت ہے۔ یہ اچھی بات ہو سکتی ہے ا ور ہے بھی کہ فریقین کوئی حوثی باغی یا طالبان نہیں ہیں جو میزائل پہلے چلاتے ہیں اور سوچتے بعد میں بھی نہیں۔ ڈپلومیسی اور بات چیت کا عمل جاری ہے امید ہے کہ جلد از جلد کوئی درمیانی راستہ یا قابل عمل حل نکل آئے گا۔ ان عبوری ایام میں بڑھک بازی، دعوے، پروپیگنڈا، افواہ سازیاں ہو سکتی ہیں، بلا آخر جنون پر عقل غالب آ جائے گی۔

روس یوکرائن تنازع حیرت انگیز طور پر 1962ء میں ہونے والے سوویت امریکہ تناؤ سے مشابہہ ہے جو کیوبا میں روسی میزائلوں کی تنصیب کے نتیجہ میں امریکہ اور سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیار سیدھے ہو گئے اور ایٹمی حملوں کی وارننگز تک جاری ہو گئیں۔ لیکن کچھ سمجھدار لوگوں کی سفارت کاری کام کر گئی اور سوویت رہنما خروشیف نے لچک دکھائی اور کیوبا سے غیر مشروط طور پر میزائل ہٹا دئیے اور بحران حل ہوا۔ اب دیکھتے ہیں یوکرائن کے تنازع پر امریکہ لچک کا مظاہرہ کرنے میں پہل کرتا ہے یا نہیں۔

ہمارے ناچیز تجزیے اور رائے میں جنگ کے امکانات تومعدوم ہیں لیکن ایک چھوٹے علاقے میں بڑی تعداد میں مخالف افواج کا ایک بڑا اجتماع، گولے بارود کے ڈھیر، کشیدگی کی موجودگی میں ہلکی سی چنگاری بھی قیامت ڈھا سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جنگ برپا ہونے کا ایک آدھ فی صد چانس بھی بڑا چانس ہے۔ ممالک کی ڈپلومیٹک کاوشوں اور نیک تمناوؤں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت دنیا میں ایک بڑی جنگ اور جنگی جنون مخالف تحریک کی اشد ضرورت ہے اور اس وقت تک ضرورت ہے جب تک دنیا سے جنگی جنون مکمل طور پر رخصت نہ ہو جائے۔ بڑے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر اور ممالک انا، ماضی پرستی اور چھوٹے چھوٹے تجارتی مسائل کو حل کرنے کے لیے توپیں اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔

Nasir Iqbal
+ posts

ناصر اقبال گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان کی ترقی پسند تحریک کیساتھ وابستہ ہیں۔