محمد اکبر نوتزئی
ترجمہ: حارث قدیر
اپنی جنگی پالیسیوں کے باوجود ایران پاکستان کے لیے ایک اہم ملک ہے۔ اس کی سرحد بلوچستان کے ساتھ ملتی ہے لیکن، جیسا کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے کو ہمارے پالیسی سازوں نے پہلے دن سے ترجیحی طور پر نظر انداز کیا ہے، ہم جغرافیائی قربت کے باوجود اپنے پڑوسی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
تمام غلط وجوہات کی وجہ سے کئی دہائیوں کے دوران ایران کے ساتھ تعاون کی بجائے ہم مقابلہ بازی کر رہے ہیں۔ لیکن ’کیا غلط ہوا‘ بارے سوچنے سے پہلے ہمیں ایران، اس کی سیاست اور دیگر ممالک بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے پاکستان سمیت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ایران کے تعلقات کے ارتقا ء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اپنی پچھلی کتاب’ایران اینڈ پاکستان: سیکورٹی، ڈپلومیسی اینڈ امریکی انفلوئنس‘ میں ایرانی امور کے معروف ماہر ’الیکس واتنکا‘نے پاکستان کے ساتھ ایران کے پیچیدہ تعلقات کا شاندار طور پر تذکرہ کیا ہے، کیونکہ دونوں امریکی سرپرستی کے لیے کوشاں تھے۔ 1950ء میں ایران کے سابق شاہ محمد رضا پہلوی پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے سربراہ مملکت بنے۔ اس طرح دونوں ممالک کے تعلقات بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔
ایرانی نژاد امریکی واتنکا کی نئی کتاب ’’The Battle of the Ayatollahs in Iran: The United States, Foreign Policy and Political Rivalry Since 1979’‘ آج کے ایران، اس کے اسلام پسند رہنماؤں کے تحت اس کی پیچیدہ سیاست اور بیرونی دنیا، خاص طور پر امریکہ، کے ساتھ اس کے تعلقات کو سمجھنے کے لیے ایک دریچہ ہے۔
مختصراً یہ کتاب دو ایرانی اسلام پسند رہنماؤں کی دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک ایران کے موجودہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور دوسرے اکبر ہاشمی رفسنجانی، جو اسلام پسند حکومت میں دیگر اعلیٰ عہدوں کے علاوہ 2 مرتبہ ملک کے صدر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سخت گیر اور پیچیدہ ایرانی سیاست کی بدولت وہ قریبی دوست سے تلخ دشمن بن گئے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران مشرق وسطیٰ میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت تھا۔ اس نے امریکی مفادات کو آگے بڑھایا اور کمیونسٹ مخالف ہونے کے ناطے خطے میں کمیونزم کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا، ساتھ ہی پاکستان کو مغربی بلاک کی طرف کھینچنے میں بھی بڑا کردار تھا۔
پھر ایران امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس وقت امریکہ کا خیال تھا کہ بنیاد پرستی اس کے مفادات کے مطابق ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے 1979ء میں افغان جہاد کی حمایت کی۔ امریکہ نے دنیا میں ہر جگہ یہی کیا ہے اور اضطراب کا باعث بننے کے نتیجے میں اتحادیوں کو کھو دیا۔ ممتاز بلوچ مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری کے الفاظ میں، اگر امریکہ کو اپنی تاریخ کا علم یا پرواہ ہی نہیں تو وہ دوسروں کی پرواہ کیسے کر سکتا ہے۔
واتنکا کی کتاب کے آغاز میں رضا شاہ پہلوی کے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ ”یقین کرنے آیا تھا کہ واشنگٹن اسے نکالنا چاہتا ہے۔“ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے شاہ کو طویل عرصے تک استعمال کیاتاکہ ”سوویت کمیونزم کے خلاف ایران کو ایک محفوظ مہرے کے طور پر استعمال کر سکے“، اس کا مقصد پورا ہونے کے بعد پہلوی کی مزید ضرورت نہیں رہی تھی۔
اس وقت، ایرانیوں، خاص طور پر بائیں بازو کے اور لبرلوں، کو شاہ کی طرف سے سختی سے دبایا جا رہا تھا۔ ایران کی بائیں بازو کی ’تودہ پارٹی‘ نے بھی اس غلط یقین کی بنیاد پر ملاؤں کا ساتھ دیا، کہ وہ بھی شاہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، اس طرح ان کی مدد سے بادشاہت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔ تاہم ملاؤں نے جلد ہی انہیں چھوڑ دیا اور انقلاب کو آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلام پسندوں نے ہائی جیک کر لیا، جو پہلوی دورکے دوران ایران سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔
انقلاب کے بعد واپسی پر خمینی ملک کے سپریم لیڈر بن گئے۔ اس عہدے پر وہ 6 رکنی ’کونسل آف گارڈین‘ کے علاوہ، ووٹروں سمیت کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھے۔ ان 6 اراکین کونسل میں سے بھی 3 کو خمینی خود مقرر کرنے ہوتے تھے۔ اس اقدام نے ایران کے متحرک، جدید معاشرے کو مذہبی بنیاد پرستی کے چنگل میں دھکیل دیا، جس نے اس کے عام شہریوں کی زندگیوں میں صرف مصائب ہی لا دئے۔
اس کے بعد سے یا 1979ء کے بعد سے، ایران کے اسلامی انقلاب کو خود نام نہاد ملا انقلابیوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔
تاہم واتنکا کی کتاب خامنہ ای اور رفسنجانی کے درمیان دشمنی کے بارے میں ہے۔ مؤخر الذکر سپریم لیڈر کے قریب تھے اور خامنہ ای کا خمینی سے تعارف کرایا۔ خامنہ ای نے خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ کا عہدہ سنبھالا۔
نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد یہ واضح تھا کہ ایران اسے دوسری ریاستوں خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کو برآمد کرنا چاہتا ہے۔ واتنکا کے مطابق جیسے جیسے خمینیوں نے تہران میں طاقت کو مضبوط کیا، انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے پیغام کو وسعت دینے کی کوششیں شروع کیں اور اس اقدام نے پڑوسی ریاستوں کو پریشان کر دیا۔ یہ مشرق وسطیٰ میں شیعہ ایران اور سنی عرب ریاستوں، خاص طور پر شیعہ آبادی والی ریاستوں، کے درمیان تنازعہ کی وجہ بھی بن گیا اور ایران اور عراق کے درمیان 8 سال تک جاری رہنے والی جنگ کی وجہ بھی بنا۔
واتنکا لکھتے ہیں کہ ”صدام کا حملہ زیادہ تر بنیاد پرست ملاؤں کے لیے ایک نعمت تھا۔ جیسا کہ امریکی سفارت خانے پر قبضے نے عوام کے لیے ایک بڑے خلفشار کے طور پر کام کیا اور یہ اقدام مزید طاقت حاصل کرنے کے لیے ایک موقع بھی بنا“۔ جنگ ہر طرف سے تباہی لاتی ہے اور اس نے ایران کی لرزتی ہوئی معیشت کو مزید دھچکا پہنچایا۔ واتنکا نے تخمینہ لگایا کہ ”ایک اندازے کے مطابق 8 سالہ جنگ میں ایران کو 645 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔“
جہاں تک اس وقت پاکستان کا تعلق ہے، جنرل ضیا الحق فوجی قبضے کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ اپنے ایرانی ہم منصبوں کی طرح وہ ایک مذہبی بنیاد پرست تھے،لیکن سنی ہونے کے ناطے اپنے ملک میں شیعہ انقلاب کے پھیلاؤ سے گھبرا گئے تھے۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر پاکستانی ریاست اپنی شیعہ آبادی کے بارے میں فکر مند تھی، جو ایران کے بعد دوسری بڑی شیعہ آبادی تھی۔ دوسرے ممالک کی شیعہ آبادیوں کی طرح ہمارا ہاں کا ایک بڑا حصہ بھی ایران کی طرف دیکھتا رہا تاکہ پاکستان میں شیعہ انقلاب درآمد کیا جا سکے۔ باقی تاریخ ہے۔
ملک میں نہ ختم ہونے والی فرقہ وارانہ جنگ سے سنی اور شیعہ دونوں ہی آبادی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ نامور پاکستانی صحافی خالد احمد نے اپنی کتاب ’Sectarian War: Pakistan’s Sunni-Shia Voilence and its Links to the Middle East‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ خمینی کے عروج کے بعد مشرق وسطیٰ سے شیعہ سنی تنازعہ کی پاکستان منتقلی اور سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد سے پاکستان میں سنی مذہبی مدارس کے پھیلاؤ پر روشنی ڈالتے ہیں۔
شیعہ سنی تنازعہ 14 صدیوں پرانا مظہر ہے۔ ایرانی امریکی ماہر تعلیم ولی نصر اپنی کتاب ‘The Shia Revival: How Conflicts Within Islam will Shape the Future’ میں لکھتے ہیں کہ ”اس طرح شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات نہ صرف سیاسی ہیں، بلکہ مذہبی اور حتی کہ بشریاتی بھی ہیں۔“
نصر آگے لکھتے ہیں کہ ”اسلامی بنیاد پرستی سب سے پہلے سنیوں میں مسلمانوں کی طاقت کے زوال کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوئی تھی“ اور یہ کہ ”ایران کے آیت اللہ کی موجودہ ضرورت سے زیادہ قانونی ذہنیت کسی نہ کسی طرح سے شیعہ ازم کی’سنی فیکیشن‘ ہے، جو اثر و رسوخ کی عکاسی کرتی ہے، جو حالیہ دہائیوں میں سنی بنیاد پرستی کی خالصیت اور شدید سیاسی سرگرمی کی وجہ سے اسے حاصل ہوا۔“
واتنکا کی کتاب میں 1979ء کے بعد کے اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاست شطرنج کا کھیل معلوم ہوتی ہے، جہاں غیر متوقع چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ ”خمینی کے عارضی ہیڈ کوارٹر رفاہ سکول میں رفسنجانی نے تیزی سے تین اہم ترین دربانوں میں سے ایک بن گئے، دیگر دو افراد 60 سالہ مرتضیٰ مطہری اور 51 سالہ محمد بہشتی تھے۔“
دونوں آدمیوں کو جلد ہی قتل کر دیا گیا؛ مطہری مئی 1979ء، بہشتی جون 1981ء میں۔
جہاں تک خامنہ ای کا تعلق ہے، جو اس وقت دوڑ میں بھی نہیں تھے، ان سے متعلق واتنکا لکھتے ہیں کہ ”ایران کے مستقبل کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اس وقت بمشکل باہر کھڑے تھے۔ اپوزیشن کی سیاست میں ان کا ایک پس منظر ضرورتھا۔ ساواک (شاہ پہلوی کی طرف سے قائم کردہ قومی سلامتی ایجنسی) نے ایک بار انہیں پاکستان کی سرحد پر واقع ایران کے دور افتادہ صوبے (سیستان و بلوچستان) میں جلا وطن کر دیا تھا۔
لیکن سیاست کی دھندلی نوعیت نے خامنہ ای کی حمایت کی اور وہ اپنے دوست رفسنجانی کی بدولت 3 جون 1989ء کو خمینی کی وفات کے بعد سپریم لیڈر بن گئے۔ بدقسمتی سے واقعات کے اسی موڑ نے خامنہ ای کے دور حکومت میں رفسنجانی کے پورے سیاسی کیریئر پر گرم پانی ڈال دیا۔
خامنہ ای اور رفسنجانی کے درمیان تعلقات کی کھوج کے ذریعے، واتنکا کی کتاب ہمیں 1979ء سے ایران کی خارجہ پالیسی کے ارتقا سے آگاہ کرتی ہے۔ اس تناظر میں دونوں نے اپنے ذاتی ایجنڈے کو اولین ترجیح دی۔ واتنکا لکھتے ہیں کہ ”ایران کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اس بات سے ہوئی کہ کس طرح ان دو افراد نے اپنے متعصبانہ، سیاسی مفادات کی تعریف کی اور کس طرح ان چھوٹے مفادات کو ایک دوسرے سے ملایا، بیان کیا گیا اور بہت سے معاملات میں ایران کے قومی مفاد پر ان مفادات کو ترجیح دی۔“
سپریم لیڈر کی حیثیت سے خامنہ ای کو غلبہ حاصل تھا۔ وہ ایرانی ڈیپ اسٹیٹ کے سربراہ بن گئے اور پاسداران انقلاب، جسے واتنکا ’ریاست کے اندر ایک ریاست‘ کہتے ہیں، بھی ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ یہ خامنہ ای کی طاقت کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ یہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بھی ناکام بنا رہی ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے واتنکا کا کہنا ہے کہ ”جو ابھی تک معلوم نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ خامنہ ای کا حامی دھڑا، حکومت کے اندر موجود ڈیپ اسٹیٹ، شاید واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا سکتا ہے۔“
اپنے اختیارات کو مستحکم کرنے کے بعد خامنہ ای ملک کے نام نہاد منتخب صدور کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہو گئے، جن میں ان کے منتخب کردہ صدر بھی شامل ہیں۔ رفسنجانی، جو کبھی خامنہ ای کے دوست تھے اور بعد میں ان کے سب سے بڑے حریفوں میں سے ایک بنے، 2017ء میں پراسرار حالات میں انتقال کر گئے۔ رفسنجانی کی موت کے ساتھ ہی خامنہ ای کے پاس اپنی اعلیٰ قیادت کا کوئی مخالف باقی نہیں رہا۔
واحد مخالفین، یعنی ایرانی عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں اور اگرچہ پاسداران انقلاب نے کئی مواقع پر سڑکوں پر بغاوتوں کو کچلا ہے، لیکن اب یہ مقابلہ خامنہ ای بمقابلہ عوام ہے۔
واتنکا اختتام میں لکھتے ہیں کہ ”رفسنجانی اور اسلامی جمہوریہ کے دیگر سینئر اراکین جنہوں نے خامنہ ای کو پیڈسٹل پر کھڑا کیا، وہ تقریباً سبھی مر چکے ہیں یاکھڈے لائن لگائے جا چکے ہیں، خامنہ ای کے خلاف ردعمل اب صرف سڑکوں سے آسکتا ہے، ایرانی عوام کی طرف سے جو ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی حقیقتوں سے بہت مایوس ہیں۔“
یہ سادہ سا سوال پیدا کرتا ہے: اپنے تمام حریفوں کے جانے کے بعد، کیا خامنہ ای عوام کے خلاف کھڑا ہو سکتے ہیں؟
بشکریہ: ڈان