پاکستان

آئینی مسودہ تیار: مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان پاکستان کا عبوری صوبہ رہے گا

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام علاقے گلگت بلتستان کو مسئلہ جموں کشمیر کے حل تک پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کیلئے آئینی مسودہ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے تیار کئے گئے آئینی مسودہ کو گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشیدنے تحریک انصاف گلگت بلتستان کی پارلیمانی پارٹی کو ارسال کرتے ہوئے تبصرے اور تاثرات طلب کئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے مذکورہ خط اور آئینی مسودہ کو فوری نوعیت کا معاملہ اور کانفیڈنشل (رازداری برتے جانے کے قابل) قرار دیا ہے۔

گلگت بلتستان سابق شاہی ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ جموں کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے آئینی مسودہ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنائے جانے کی وجہ سے مسئلہ جموں کشمیر پر پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جمہوری، آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنا حق خودارادیت استعمال کیا جائے گا۔

آئینی مسودہ کے مطابق گلگت بلتستان سے پاکستان کی قومی اسمبلی (ایوان زیریں) میں مجموعی طور پر 4 ممبران منتخب ہونگے، جن میں سے 3 براہ راست منتخب ہونگے جبکہ ایک خاتون رکن اسمبلی کی مخصوص نشست ہو گی، جبکہ سینیٹ (ایوان بالا) میں 2 ممبران منتخب ہونگے۔

مسودہ کے مطابق چیف کورٹ گلگت بلتستان کو ہائی کورٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا اور پاکستان کی سپریم کورٹ کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک بڑھا دیا جائیگا۔

آئینی مسودہ پاکستان کے آئین کی 26 ویں آئینی ترمیم ایکٹ کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ یہ ترمیم پاکستان کے آمدہ عام انتخابات سے موثر ہو گی۔

آئینی مسودہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کے ذریعے پاکستان کی قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کی 4 نشستیں شامل کی گئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 59 میں ترمیم کرتے ہوئے سینیٹ کی جنرل نشستوں پر گلگت بلتستان کے لئے 2 ممبران کو تجویز کیا گیا ہے، جنہیں گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب کرینگے۔ گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تعداد حسب سابق 24 براہ راست، 6 خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس پر ہی مشتمل رہے گی۔

آئینی مسودہ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان دائرہ کار گلگت بلتستان تک بڑھانے کی صورت میں سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کو ختم کر دیا جائیگا، جبکہ چیف کورٹ گلگت بلتستان کو ہائی کورٹ کا درجہ حاصل ہو گا۔

آئینی مسودے کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی ایک رکن کا اضافہ ہو جائیگا، گلگت بلتستان سے ایک رکن الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی منتخب کیاجائیگا۔ گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے کی بقیہ مدت کی تکمیل تک گلگت بلتستان سے ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان رہیں گے۔

مسودہ کے مطابق گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن کے قیام تک وفاقی پبلک سروس کمیشن ہی گلگت بلتستان کیلئے پبلک سروس کمیشن کے طو رپر کام کرے گا۔

یاد رہے کہ یہ آئینی مسودہ گزشتہ سال یکم ستمبر کو بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ارسال کیا گیا تھا۔ تاہم اس آئینی مسودہ کی منظوری کا عمل تاحال تعطل کا شکار ہے۔ قبل ازیں گلگت بلتستان کے عام انتخابات منعقدہ نومبر 2020ء سے قبل گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کی بحث وفاق میں عروج پر تھی، تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے معاملہ کو گلگت بلتستان کے عام انتخابات کے موخر کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

گلگت بلتستان کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران حکومت کے علاوہ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے اعلانات کئے تھے۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنائے جانے کے اعلانات کئے جا رہے تھے۔ آئینی مسودہ کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے گا۔

اس سے قبل ستمبر 2020ء کو بھی ایک آئینی مسودہ کے 5 صفحات لیک ہوئے تھے۔ مذکورہ مسودہ میں گلگت بلتستان کے ساتھ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے کو بھی عبوری صوبے کی طرز کا سیٹ اپ دیئے جانے کی تجویز کی گئی تھی۔ مذکورہ مسودہ میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کیلئے قومی اسمبلی میں 8، جبکہ گلگت بلتستان کیلئے 3 نشستیں رکھنے کی تجویز کی گئی تھی، سینیٹ میں دونوں خطوں کیلئے 5، 5 نشستیں رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم مذکورہ آئینی مسودہ پر آگے کوئی کام نہیں ہو سکا۔

گزشتہ سال ستمبر میں تیار ہونے والے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا ذکر شامل نہیں ہے۔ صرف گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کی حد تک ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے بعدیہ پہلا مسودہ ایسا ہے جسے گلگت بلتستان کی حکومت کو باضابطہ ارسال کر کے تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ جس سے یہ امکان روشن ہو رہا ہے کہ آنیوالے چند دنوں میں پاکستان کے آئین میں 26 آئینی ترمیم کا یہ بل پیش کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے واضح اعلانات کے بعد قوی امکان ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے میں حکومت کو کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جسے 1947ء سے لیکر آج تک مختلف طریقوں سے رول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حق حکمرانی، شہری، شخصی اور جمہوری حقوق کے حصول کیلئے گلگت بلتستان کے عوام نے طویل انتظار اور جدوجہد کی ہے۔ گلگت بلتستان کو 1947ء میں ہی مہاراجہ حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں شامل کر لیا گیا تھا۔

تاہم 28 اپریل 1949ء کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدہ کے تحت حکومت پاکستان نے اس انتظام کو ایک مبہم قانونی شکل بھی دے دی تھی۔ مذکورہ معاہدہ میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کے اختیارات اور فرائض کی حد بھی تعین کی گئی تھی اور ساتھ ہی گلگت بلتستان کا عارضی انتظام بھی حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔

یہاں یہ یاد رہے کہ مذکورہ معاہدے میں گلگت بلتستان کی جانب سے کسی منتخب یا غیر منتخب نمائندے کی شرکت موجود نہیں تھی۔

ایک لمبے عرصے تک برطانوی سامراج کی طرف سے مسلط کردہ ایک کالے قانون ’ایف سی آر‘ کے تحت گلگت بلتستان کے شہریوں کو رول کیا جاتا رہا اور ہر طرح کی شہری، جمہوری اور شخصی آزادیوں سے محروم رکھا گیا۔ بعد ازاں مختلف آئینی مسودوں اور حکم ناموں کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ حقوق کے نام پر کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔

گزشتہ دوجمہوری حکومتوں نے بھی گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کے دعوؤں کے تحت وفاق کی جانب سے آئینی پیکیج کے نام پر صدارتی حکم نامے مسلط کئے۔ تاہم گلگت بلتستان کے شہریوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہی ہوتے چلے گئے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو آئینی حقوق دینے اور بالخصوص مقامی اشرافیہ کی جماعتوں کے مقبول بیانیے کو اپناتے ہوئے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے جانے کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ تاہم بنیادی سوال وہیں پر موجود ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے لوگوں کو عبوری صوبہ بنائے جانے کے بعد مسائل سے نجات مل سکے گی یا نہیں؟

سب سے پہلے تو پاکستان کے چاروں صوبوں میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار کو دیکھنا اہم ہو گا۔ اگر پہلے سے موجود 4 صوبوں میں بسنے والے لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل پا رہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، لا علاجی، شہری اور جمہوری آزادیوں پر پابندیاں، جبری گمشدگیاں، لا قانونیت، ماورائے عدالت قتل عام سمیت مسائل کا ایک انبار ہے جو پہلے سے موجود چاروں آئینی صوبوں کے شہریوں کا مقدر ہے۔ گو ان 4 صوبوں میں بھی مسائل کی نوعیت مختلف ہے، قومی مسئلے کے ساتھ جڑے صوبوں میں ریاستی جبر انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ معاشی اور سماجی مسائل پورے ملک میں موجود ہیں۔

دوسرا پہلو گلگت بلتستان میں عبوری صوبہ بن جانے کے بعد ہونے والی تبدیلیاں کو مدنظر رکھنا ہے۔ گلگت بلتستان کی پہلے سے موجود حکومت بھی صوبائی طرز پر ہی ہے۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں حصہ داری بڑھنے کیلئے آبادی اور محصولات کا اکٹھا ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے، جو دونوں چیزیں گلگت بلتستان باقی صوبوں کی نسبت بہت کم ہیں۔ ہاں پسماندگی کی بنیاد پر کچھ اضافی فنڈز مل سکتے ہیں، جن کیلئے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کی چھوٹ سے لیکر مختلف سبسڈیوں سے گلگت بلتستان کے شہریوں کو ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

تیسرا اور سب سے اہم پہلو گلگت بلتستان کی حکمران اشرافیہ کو ملنے والی بڑی نمائندگی ہے، جس وجہ سے حکمران اشرافیہ اس اہم آئینی تبدیلی کو سماج کی تمام تر پرتوں میں ایک بہت بڑی کامیابی اور ترقی کے نئے راستوں کی ضامن قرار دینگے۔ حکمران اشرافیہ کیلئے یہ تبدیلی واقعی بہت بڑی کامیابی ہی ہے، کیونکہ وفاقی سیاست میں انہیں اپنی گنجائش مل جائیگی، سینیٹ کے انتخابات میں بھاری مال کمانے کا موقع بھی ملا کرے گا، اس کے علاوہ دیگر ایسی مراعات اور فنڈز تک رسائی ہو گی، جو گلگت بلتستان کی مقامی اسمبلی کے ممبر ہوتے انہیں حاصل نہیں تھی۔ سب سے بڑھ کر اسلام آباد میں گلگت بلتستان کی حکمران اشرافیہ کو کسی نوعیت کی بھی اہمیت حاصل نہیں تھی۔ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کے دفتر تک رسائی حاصل کرنا بھی مشکل سے حاصل ہوتی تھی، اب وہ اسلام آباد کے ایوانوں تک براہ راست پہنچ سکیں گے۔

گلگت بلتستان کے عوام کیلئے انسداد دہشتگردی کے مقدمات، فورتھ شیڈول جیسے کالے قوانین کے تحت نقل و حرکت پر پابندیاں، قومی سلامتی اور سالمیت کے نام پر تحریر و تقریر سمیت ہر طرح کی جمہوری آزادیوں سے محرومی کے علاوہ اپنے ہی خطے میں تیسرے درجے کے شہری کی زندگی ہی انکا مقدر رہے گی۔ عبوری صوبہ بنائے جانے سے قبل ہی گلگت بلتستان کی معدنیات سمیت سیاحتی مقامات پر قیمتی اراضی سرمایہ داروں کو لیز پر دیئے جانے کی خبریں معمول کا حصہ ہیں۔ عبوری صوبہ بنائے جانے کے بعد مقامی شہریوں کو اس قیمتی اراضی سے بھی محروم ہونا پڑے گا، جس پر دیہاتوں کا اجتماعی اجارہ ابھی تک کسی نہ کسی حد تک قائم ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے اندر سامراجی قبضے کے سائے تلے رہتے ہوئے آئینی تبدیلیوں سے مسائل کا حل کسی طور ممکن نہیں ہے۔ حقوق کبھی بھی بھیک میں یا سامراجی خیرات سے نہیں ملتے، بلکہ حقوق ہمیشہ بڑھ کر چھینے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے شہریوں کی طویل جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ حکمران طبقات مسلسل گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ تاہم ابھی بھی عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنے کی بجائے انہیں مسلسل جھانسے دیئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے ہی ہیں تو ان کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جانا چاہیے، گلگت بلتستان کے وسائل پر گلگت بلتستان کے عوام کے اجارے کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں آئین سازی اور قانون سازی کا مکمل حق اور اختیار دیا جانا چاہیے۔ جس حق کو وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے سے ایکسرسائز کرتے ہوئے اپنے مستقبل اور نسلوں کے فیصلے خود کر سکیں۔

حقوق کے حصول کیلئے گلگت بلتستان کے شہریوں کو اس جدوجہد کو ابھی جاری و ساری رکھنا ہو گا۔ اس جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت پاکستان کے محکوم و مظلوم عوام اور محنت کشوں سمیت جموں کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام اور محنت کشوں کیساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑنا اور اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا آغاز ہے۔ تاکہ ہر طرح کے ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام محکوم قومیتوں کے حق خودارادیت اور حق آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے نئی عمرانی معاہدے اور سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی طرف بڑھا جا سکے۔ یہی اس خطے کے باسیوں کی نسل در نسل سے چلنے والی ذلتوں سے نجات کا واحد راستہ ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔