ناصر اقبال
آج کی ریاست جسے عام طور پر جدید ریاست بھی کہا جا تا ہے اس کے خدوخال یا بنیادیں یورپ کی احیائے علوم کی تحریک (1300ء) سے لیکر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے (1945ء) کے درمیانی عرصہ میں رکھیں گئیں۔ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کو بنیادی ستون یا ادارے قرار دے کر انہیں آئین و قانون کا پابند کیا گیا۔ اس وقت دنیا کی اکثریت ریاستوں کے آئین بنیادی انسانی حقوق، شخصی آزادیوں، سماجی انصاف، آزادی اظہار، جمہوریت اور گورننس کے اداروں میں زیادہ سے زیادہ عوامی شمولیت، نمائندگی و مشاورت جیسے اصولوں کی اساس پر بنے یا لکھے گئے۔
انہی اصولوں کے تحت آج دنیا بھر میں ٹریڈ یونین، طلبہ یونین اور بنیادی جمہوریت یا لوکل گورنمنٹ جیسے ادارے بنتے اور کام کرتے ہیں۔ گراس روٹ عوامی لیڈرشپ چونکہ انہی اداروں سے پروان چڑھتی ہے اس لیے ان تینوں اداروں کو جمہوریت کی نرسری بھی قرار دیا جاتا ہے بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ تینوں ادارے دگرگوں ہیں۔ شائد اسی وجہ سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات کا پودا پھل پھول نہیں پایا۔
ملک میں ان اداروں کو بچانے کے لیے عوامی تحریکیں موجود ہیں اور ان کی حالت زار پر بہت جلسے جلوس اور لکھا بھی گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اس کالم میں ہمارا موضوع مرکوز طلبہ یونین ہے جس کی شاخ کو جمہوریت کے درخت سے سرے سے ہی کاٹ کر پھینک دیا گیا ہے۔ یہاں یہ واضح رہے ہمارا مقصد کسی طلبہ تنظیم، تحریک یا طلبہ کی عام سیاست میں شمولیت اور قربانیوں کو بیان کرنا نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ عجیب و غریب رواج ہو گیا ہے کہ طلبہ یونین اور بحالی کی بات کی جائے تو اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی کسی طلبہ تنظیم کو اچھا اور کسی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
عام طور پرطلبہ یونین کسی ایک تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم طلبہ پر مبنی منتخب نمائندہ باڈی کا نام ہے جسے اسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم طلبہ سالانہ بنیادوں پر الیکشن کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔ یونین کے عمومی فرائض میں دوران تعلیم اور تعلیم سے متعلقہ طلبہ کے تمام معاشی، سماجی و سیاسی حقوق کا تحفظ شامل ہیں۔ حقوق کے تحفظ کے معاملات کالج انتظامیہ، متعلقہ تعلیمی بورڈ و یونیورسٹی، مقامی، صوبائی اور مرکزی گورنمنٹ سے مشاورت سے حل کیے جاتے ہیں۔ شنوائی نہ ہونے کی صورت میں یونین احتجاجی تحریک اور قانونی عدالتوں میں جانے کا حق بھی رکھتی ہیں۔
پاکستان کو طلبہ یونین کی روایت برٹش انڈیا سے ورثے میں ملی جو 1984ء تک ماسوائے ایک تعطل 1962)ء سے 1967ء (کے قائم رہی۔ 1973ء کے آئین نے بھی شق 17 کے تحت یونین سازی کو گارنٹی کیا۔ جنرل ضیا حکومت نے مارشل لا کے تحت ایم.آر.ڈی تحریک میں طلبہ کی بھرپور شمولیت کے پیش نظر اور کراچی یونیورسٹی میں تشدد کے واقعات کو بہانہ بنا کر صوبہ سندھ میں 1979ء میں اور 9 فروری، 1984ء کو ملک بھر میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کر دی۔ دہشت گردی، اسلحہ کا استعمال اور پھیلاؤ، تعلیمی خلل، بھتہ خوری و بدمعاشی جیسے فضول، غیر حقیقی اور غیر منطقی جواز بعد میں گھڑے گئے۔
1988ء میں بے نظیر حکومت نے یونین سازی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن اس وقت کی طلبہ تحریک کے پر زور مطالبے پر صرف صوبہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی صوبائی گورنمنٹ کی منظوری سے مارچ 1989ء میں الیکشن منعقد کیے گئے البتہ یہ سوال آج تک حل طلب ہے کہ میاں صاحب نے کس جذبے سے مغلوب ہو کر یونین الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ الیکشن ملکی تاریخ کے آخری الیکشن ثابت ہوئے۔
1993ء میں یونین پر پابندی کے لیے دائر رٹ پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت پاکستان کو رولنگ جاری کی جس میں کچھ شرائط اور حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کہا گیا۔ ان شرائط (سیاسی پارٹی سے عدم وابستگی وغیرہ) کو اسمبلی فلور پر طے ہونا تھا مگر 29 سال گزر جانے کے باوجود حکومتیں کورٹ کا حکم بجا لانے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں آج تک دو طرح کی حکومتوں نے راج کیا ہے۔ ان میں 4 فوجی اور باقی کو جمہوری یا سیاسی حکومتیں کہا جا سکتا ہے۔ ملک میں عام تاثر ہے کہ فوج ہی طلبہ یونین کے خلاف ہے۔ ایک حد تک تویہ تاثر درست ہے لیکن کلی طور پر نہیں۔ پاکستان میں پہلی دفعہ یونین سازی پر پابندی 1962ء میں ایوب دور میں عائد ہوئی جسے بعد میں جنرل محمد یحٰی نے اپنے دور حکومت میں ختم کیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور کا ذکر پہلے ہو چکا۔ ان دونوں ادوار میں فوجی حکمرانوں کو طلبہ کی طرف سے خاصی مخالفت اور مز احمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل مشرف شائد طلبہ کے ”شر“ سے اس لیے محفوظ رہے کہ ان کے دور میں طلبہ تحریک کا وجود نہ تھا۔
اسی ضمن میں اب ایک نظر سیاسی یا جمہوری قوتوں کے رویے پر دوڑاتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں ہمیشہ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات کا ہی ایک ملغوبہ رہی ہیں۔ اپنے باقی ماندہ خواص کے علاوہ یہ طبقات اپنی ذاتی نسل پرستی سے جڑے ہوئے ہیں یعنی ان کی مالی، سماجی درجات اور سیاسی طاقت کی وراثت صرف اور صرف ان کی اولاد کو ہی منتقل ہو سکتی ہے۔ ان کی پکی ٹھکی نفسیات بن چکی ہیں کہ یہ ہر اس سیاست کے خلاف ہیں جو ان کے گھر سے باہر ہو یا ان کے کنٹرول سے باہر ہو۔ طلبہ سیاست چونکہ نئی یا اچھوتی لیڈرشپ کے ابھرنے کا سبب بنتی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالادست طبقات دانستہ یا نادانستہ طور پر طلبہ سیاست سے نالاں ہوں۔
پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ سے مزدوروں اور طلبہ میں اپنے اپنے سیاسی ونگ بنانے میں دلچسپی اور یقین رکھتی رہی ہیں۔ یہ سیاسی ونگ بلآخر مزدوروں اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے بنیادی اور حقیقی ادارے یعنی یونین کے راستے کی رکاوٹ ثابت ہوتے آئے ہیں۔
پاکستان کی کل تاریخ میں بڑی اور مشہور طلبہ تنظیموں نے طلبہ کے مسائل اور حقوق کے لیے بمشکل دو چار فی صد ہی کام کیا ہو گا باقی انہوں نے اپنی اپنی مدر پارٹی کے ایجنڈوں کو ہی بڑھاوا دیا ہے۔
1985ء سے لیکر ابتک نجی تعلیمی اداروں کے روز افزوں رواج پانے سے ملک میں ایک نئی طرز کا بااثرسرمایہ دار طبقہ وجود پا چکا ہے اور تمام بڑی سیاسی پارٹیوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ اس طبقے کے مالی مفادات کا انحصار صرف طلبہ یونین پر پابندی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی پر ہے۔
ایک سیاسی کارکن کے طور پر راقم کم از کم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اگر ملکی سیاسی پارٹیاں یا سیاسی حکومتیں طلبہ یونین کو بحال کرنا چاہیں تو اس میں رخنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ بحالی تو دور کی بات ان لیڈران نے کبھی پھیکے منہ طلبہ حقوق کی بات تک نہیں کی۔
طلبہ یونین کی بحالی کے ضمن میں ملکی افق پر 1990ء اور 2000ء کی دہائی کے دوران کوئی قابل ذکر تحریک نظر نہیں آتی۔ ایک عرصہ دراز کے بعد 2018ء سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو، پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن اور ریولوشنری سٹوڈنٹ فرنٹ جو کہ ترقی پسند نظریات کی حامل ہیں ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ فروری کے مہینے میں سالانہ بنیادوں پر ملک بھر میں بڑے احتجاجی جلسے جلوس ایک تسلسل سے منعقد کیے جا رہے ہیں جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات شرکت کرتے ہیں۔ وقتاًفوقتاً طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔ رواں سال میں ان تنظیموں نے ملک کے بڑے شہروں میں احتجاجی جلوس اور لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کا پرگرام دیا۔ چنانچہ پروگرام کے عین مطابق9 فروری سے دھرنا جاری ہے جو کہ پنجاب حکومت سے بامعنی مذاکرات اور مطالبات منوا کر ختم ہو گا۔
ہم اپنے تمام قارئین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جس ملک یا شہر میں ہوں وہاں سے اس دھرنے سے بذریعہ میڈیا یا سوشل میڈیا مکمل یکجہتی کا اعلان کریں۔