پاکستان

ریاستی دھڑے بندیوں کے تصادم میں ’نیوٹرل‘ کی بازگشت

حارث قدیر

پاکستان میں ریاستی بحران ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر اپنا اظہار کر رہا ہے۔ تاہم ماضی کی نسبت زیادہ بے ترتیب، گھمبیر اور اشتعال انگیز اظہار بحران اور چپقلش کے ناقابل حل کیفیت تک پہنچ جانے کا پتہ دے رہا ہے۔ سول سپرمیسی، جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالادستی جیسی خواہشات اور ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں کا اختتام ’ایمپائر کے نیوٹرل‘ ہونے کے اعلانات کی صورت برآمد ہو رہا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی تقاریر، بیانات اور پریس کانفرنسوں کے علاوہ میڈیائی تجزیوں اور تبصروں میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طاقتور حلقے ’نیوٹرل‘ یعنی غیر جانبدار ہو گئے ہیں۔ اب سیاستدانوں کو سیاسی فیصلے کرنے اور حکومت سازی میں مکمل آزادی اور اختیار مل چکا ہے۔

گویا اس سب بھونچال میں یہ بات تو واضح کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ پارلیمانی جمہوریت کبھی بھی آزاد اور بالادست نہیں رہی ہے۔ ریاست کی بالادستی صرف آمریت کے ادوار میں ہی نہیں رہی بلکہ جمہوری حکومتیں بھی مختلف ریاستی دھڑوں کے فرنٹ مینوں کے طور پر ہی کام کرتی رہی ہیں۔ معاشی بحران جب حد سے بڑھ جائے اور معیشت میں کالے دھن کی سرائیت غالب حصے کے طور پر ہو جائے تو کالے دھن کی معیشت کا سیاسی اظہار ریاست کے اندر ریاست کی طاقت کے طورپر ناگزیر ہو جاتا ہے۔

یہ صورتحال ریاست کو داخلی طور پر اتنا کمزور اور نحیف کر دیتی ہے کہ وہ ایک براہ راست آمریت کا نفاذ کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ مشرف آمریت کے دوران یہ کمزوری نمایاں طور پر سامنے آنے کے بعد بالواسطہ آمریت کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کے دوران یہ داخلی تضادات وزرا اعظم کو ہٹائے جانے اور مصنوعی تحریکوں کی صورت میں سامنے آتے رہے۔ اس بالواسطہ آمریت کو مزید منظم اور مربوط کرنے کیلئے مصنوعی بنیادوں پر درمیانے طبقے کے سہارے پر حالیہ ’ہائبرڈ نظام حکومت‘ کو تعمیر کیا گیا تھا، جس کی قلعی بھی پونے 4 سالوں کے دوران ہی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔

موجودہ وقت ’نیوٹرل‘ کا جو تاثر مجموعی طورپر دیا جا رہا ہے، اس کے ذریعے محنت کش طبقے کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اب ریاست کے طاقتور دھڑے سیاست سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی ہائبرڈ حکومت بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ انہیں وہ مدد و حمایت اب نہیں دی جا رہی، جوچند ماہ پہلے تک میسر تھی۔ تاہم اس سب میں جو چیز مخفی رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ طاقتور حلقوں کی دھڑے بندیوں میں حمایت و مدد کا سلسلہ تقسیم ہو گیا ہے۔ متضاد اور مشترک مفادات کے گرد اتحاد و اختلاف کے ناگزیر بندھن میں بندھے ریاستی دھڑے کہیں تضادات کو شدید کرنے پر مجبور ہیں تو کہیں مشترک مفادات پر یکجا بھی نظر آتے ہیں۔

سیاست میں مداخلت کا سلسلہ ختم ہونے کے اعلانات حکمران طبقات کی نمائندہ پارٹیوں اور کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے کئے جا رہے ہیں۔ تاہم دوسری طرف ملکی سلامتی کے نام پر جاری رکھی جانے والی لا قانونیت اور ماورائے عدالت اقدامات کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ نیوٹرل کے اعلانات میں پارلیمان کے آزاد ہونے کے اعلانات کرتے ہوئے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہو سکنے کو صرف سپیکر کی جانبداری تک محدود کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

علی وزیر رہا نہیں ہو سکتا، اسکے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو سکتے، بلوچستان کے طلبہ کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نہیں بند ہو سکتا، اختلافی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ نہیں روکا جا سکتا، میڈیا پر براہ راست اور بالواسطہ سنسر شپ کا سلسلہ نہیں ختم ہو سکتا، دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ جات کرنے اور سیاسی آوازوں کو جیلوں میں مقید رکھنے کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتالیکن ادارے نیوٹرل ہو گئے، اب سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے۔ درحقیقت اس ملک کا حکمران طبقہ اس اہل ہی نہیں ہے کہ وہ نظام حکمرانی اپنے پاس رکھتے ہوئے ریاست کو اپنے طبقے کے مفادات کیلئے استعمال کر سکے۔

پاکستان جیسے ملکوں میں تاخیر زدہ سرمایہ داری، تکنیکی کمزوریاں اور بوسیدہ انفراسٹرکچر اس جدیدپیداواری ڈھانچے کے قیام کی راہ میں رکاوٹ رہا، جس کی بنیاد پر عالمی منڈی میں مسابقت قائم کی جا سکتی، اس قدر منافع حاصل کئے جاتے اور بیرونی زرمبادلہ اکٹھا کیا جاتا، جس کی بنیاد پر ریاست کے اداروں کے قیام، پارلیمانی جمہوریت، مذہب کی ریاست سے علیحدگی، زرعی انقلاب سمیت دیگر اصلاحات ممکن بناتے ہوئے ایک جدید قومی ریاست کی تشکیل دی جا سکتی۔ اس کے برعکس سرمایہ داروں کو اپنے منافعوں کو جاری رکھنے کیلئے ٹیکس چوری، بجلی چوری اور دیگر سہولیات اور سبسڈیوں کے حصول کے علاوہ کالے دھن کی معیشت کو استوار کرنے کیلئے ریاست اور سامراج کی مدد اور حمایت درکار تھی۔ یہی مجبوریاں حکمرانوں کو سامراجی کمیشن ایجنٹ کاکردار ادا کرنے پر مجبور کرتی رہیں۔ ریاست کے ساتھ ساز باز اور انحصار نے ریاست کے معیشت اور سیاست میں گہری سرائیت کی راہ ہموار کی۔

جب معیشت کے ایک بڑے حصے پر ریاستی اداروں کا اجارہ موجود ہو، کالے دھن کے ایک بڑے حصے کی تشکیل، ترسیل اور استواری میں ایک حد سے بڑھا ہوا کردار اور اجارہ ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا ہو، تو ناگزیر طور پر اس کا سیاسی اظہار بھی ہو گا۔ سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے اور جب معیشت پراجارہ ہو گا تو سیاست میں مداخلت اور حصہ داری ناگزیر ہو جایا کرتی ہے۔ سامراجی اداروں کا تسلط، حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو اپنے مفادات اور سامراجی لوٹ مار کیلئے استعمال کرنے کا عمل بھی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے روکا نہیں جا سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ ’نیوٹرل‘، ’نیوٹرل‘ کی رٹ لگا کر حکمران طبقات کے مختلف دھڑے معاشی پالیسیوں، سامراجی اداروں کے تسلط، قرضوں کی بہتات اورغریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیوں کے ذریعے اس ملک کے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ نے کے اقدامات کے خلاف کوئی واضح پروگرام پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ درحقیقت یہ تمام سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں اسی نظام کی نمائندہ بھی ہیں اور انہی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھنا چاہتی ہیں۔ تاہم حصہ داری، اختیارات و اقتدار کی اس جنگ کو پارلیمانی جمہوریت کی فتح یا شکست بنا کر پیش کرنے کے اس عمل میں مصنوعی تحریکوں اور میڈیائی یلغار میں محنت کش طبقے پر ایک اور وار کیا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو نان ایشوز میں الجھاتے ہوئے اصل مسائل کے گرد اس نظام کے خلاف تاریخ کے میدان میں اترنے کے عمل کو وقتی طو رپر ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حکومتوں کے بدلنے، جمہوریت کی بالادستی، آمریت یا پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام حکومت کے قیام سے یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔ محنت کش طبقے کی نجات کا کوئی راستہ اور کوئی وسیلہ حکمران طبقات کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام میں عالمی طور پر ہی وہ سکت باقی رہ گئی ہے کہ کوئی ایک بھی مسئلہ حل کیا جا سکے۔ جب کسی نظام میں ترقی کی گنجائش ختم ہو جائے تو اسے اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچ جاتا۔

حکمرانوں کے پے درپے حملوں نے محنت کش طبقے کو اس سیاست سے لاتعلق اور بیگانہ کر دیا ہے۔ تاہم یہ سلسلہ زیادہ دیر تک اس طرح سے ٹالا نہیں جا سکتا۔ محنت کش طبقہ جب تاریخ کے میدان میں اترے گا تو اسے کسی جلسہ گاہ میں اجتماع کیلئے ٹرانسپورٹ اور اخراجات کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جب محنت کش طبقہ اپنا ہاتھ روکے گا، تو وقت اور زمانہ رک جائے گا۔ اس ارض وطن سے ابھرنے والاانقلاب صرف حکومتیں نہیں بلکہ تاریخ اور جغرافیے تک تبدیل کرتے ہوئے نئے زمانے اور وقت کی بنیادیں رکھے گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔