لاہور (جدوجہد رپورٹ) یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کی وجہ سے بڑی فوڈ کمپنیوں کے مالک کارگل خاندان کے مزید افراد دنیا کے 500 امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
’گارڈین‘ کے مطابق ولیئم والیس کارگل کے تمام پڑپوتے اس وقت بلوم برگ ارب پتی امیر ترین 500 زندہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ جیمز کارگل، آسٹن کارگل اور مریانے لیب مین میں سے ہر ایک 5.4 ارب ڈالر دولت کا مالک ہے۔
کارگل کے دیگر پڑپوتے پولین کیناتھ اور گیوینڈولین سونتھیم میں سے ہر ایک کی دولت تقریباً 8.06 ارب ڈالر ہے۔
کارگل خاندان کے مزید تین افراد الیگزینڈراڈائچ، سارہ میک ملن اور لوسی سٹیزر بھی ارب پتی ہیں۔ یہ خاندان کمپنی کے تقریباً 87 فیصد شیئرز کو کنٹرول کرتا ہے اور درجہ بندی میں دنیا کے 11 ویں امیر ترین خاندان کے طور پرموجود ہے، جس کی مجموعی دولت تقریباً 50 ارب ڈالر ہے۔
یاد رہے کہ کارگل فوڈ کمپنی 70 ممالک میں 155000 سے زیادہ عملہ کے ذریعے کام کرتی ہے۔ رواں سال کمپنی کو ریکارڈ منافعوں کی توقع ہے۔ 2021ء میں ہونے والے 5 ارب ڈالر کے ریکارڈ منافع کو پیچھے چھوڑنے کیلئے پر عزم ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ نے رواں ماہ خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتیں ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے کہا کہ فروری کے مقابلے میں مارچ میں اس کے فوڈ پرائس انڈیکس میں 12.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ 1990ء کے بعد ایک نئی بلند ترین چھلانگ ہے۔
مارچ کے دوران عالمی سطح پر گندم کی قیمتوں میں 19.7 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ مکئی کی قیمتوں میں 19.1 فیصد اضافہ ہوا ہے جو اور جوار کی قیمتیں بھی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
کارگل کا ہیڈکوارٹر مینیسوٹا میں ہے اور اس نے گزشتہ سال منافع میں 63 فیصد یعنی تقریباً 4.93 فیصد اضافہ دیکھا ہے، جو اس کی 157 سالہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔
منصفانہ معاشرے کیلئے مہم چلانے والے اینڈریو سپیک کا کہنا ہے کہ کارگل خاندان کی بڑھتی ہوئی دولت ہمارے موجودہ معاشی ماڈل کا مایوس کن اظہار ہے، جس نے ایک چھوٹی اقلیت کو طویل ترین جمود کے باوجود مزید امیر ہونے کے قابل بنایا ہے۔ جدید دور میں معیار زندگی اور زندگی کی لاگت کے بحران سے لاکھوں افراد کے غریب ہونے کا خطرہ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اب پہلے سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ حکومتیں انتہائی امیروں میں کم اور درمیانی آمدنی والوں میں دولت کی دوبارہ تقسیم کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں۔