حارث قدیر
شمالی وزیرستان سے منتخب پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن محسن جاوید داوڑ کی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ آخری لمحات میں واپس لیا جانا حکومتی اتحاد میں اختلافات کی ایک وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کابینہ میں شمولیت محسن داوڑ اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی کابینہ میں شمولیت سے مشروط کر دی ہے۔
ادہر منگل کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی حلف اٹھانے والی 37 رکنی وفاقی کابینہ میں محسن داوڑ شامل نہیں تھے اور مختلف رپوٹس کے مطابق پیر کی رات گئے جاری کی جانے والی حتمی فہرست سے محسن داوڑ کا نام نکال دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے سربراہ محسن داوڑ اورپی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی اپوزیشن کی حمایت کی تھی۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ محسن داوڑ کو کابینہ میں شامل کیا جائے گا۔
’ایکسپریس ٹربیون‘ کی رپورٹ کے مطابق محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ کابینہ کی تشکیل کیلئے ان کی سفارش بھی مانگی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کی کمیٹی ان سے رابطہ کرے گی۔ انکا کہنا تھا کہ انہوں نے کابینہ کے حوالے سے اپنی تجاویز دی ہیں اور اپنا موقف بھی بیان کیا ہے۔
بعد ازاں کچھ سینئر صحافیوں نے ٹویٹ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ محسن داوڑ کو کابینہ میں شامل کیا جائے اور حکمران مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ ’کچھ مسائل‘ ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر رہنماؤں نے بھی محسن داوڑ کی کابینہ میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔
محسن داوڑ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس جماعت نے بھی ان کے کابینہ میں شامل ہونے کی مخالف کی ہے جو ان کے پی ڈی ایم میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہی تھی۔
یاد رہے کہ کثیر الجماعتی اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قیام کے وقت محسن داوڑ بھی آزاد رکن کی حیثیت سے اتحاد میں شامل تھے، تاہم جمعیت علما اسلام (ف) نے ان کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ محسن داوڑ ایک آزاد رکن اسمبلی ہیں اور پی ڈی ایم سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ لہٰذا محسن داوڑ کو اس اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ بعد ازاں محسن داوڑ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کر لی تھی۔
قبائلی علاقوں کے حوالے سے اپنے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں اتحادی جماعتوں کی حمایت کے وقت ہمیں جو یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں، اب ان پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔
محسن داوڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نئی حکومت کو ملک کی تمام سیاسی قیادتوں کی حمایت حاصل ہے، اگر یہ ارادہ کریں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں، لیکن اگر یہ حکومت بھی ہمارے مسائل حل نہ کر سکی تو شاید ہم سویلین بالادستی کے نعرہ سے بھی ناامید ہو جائیں گے۔
محسن داوڑ کے سوال پرجے یو آئی کے اختلافات کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے لندن میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کیلئے جانے کے پیچھے بھی یہی عنصر کارفرما بتایا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن محسن داوڑ سے خائف کیوں؟
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے محسن داوڑ، علی وزیر اور پوری پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) کی مخالفت کی متعدد وجوہات کو زیربحث لایا جا سکتا ہے۔
اس کی پہلی بنیادی وجہ قبائلی علاقوں میں پی ٹی ایم کی مقبولیت ہے۔ محسن داوڑ اور ان کے حامیوں کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کی بنیاد پرست سیاست کو دھچکا پہنچا ہے اور ان کی حمایت ختم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ علی وزیر اور محسن داوڑ نے انتخابی سیاست میں آکر مولانا فضل الرحمان کی انتخابی سیاست پر بھی اس علاقے میں قبضہ کر لیا ہے۔
ماضی میں سابق فاٹا کے قبائلی علاقہ جات سے جے یو آئی، جماعت اسلامی کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہوتا تھا۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی بھی کچھ ووٹ بینک پر اثر انداز ہوتے تھے۔ تاہم بڑا ووٹ بینک مذہبی جماعتوں کا ہی تھا۔ علی وزیر ان قوتوں کیلئے ماضی میں بھی چیلنج بنتے رہے ہیں، لیکن پی ٹی ایم کے بعد محسن داوڑ بھی چیلنج بن چکے ہیں اور اب بلدیاتی انتخابات میں بھی مولانا فضل الرحمان کو ان کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری اہم وجہ: پی ٹی ایم، علی وزیر اور محسن داوڑ کی طالبان اور پرو طالبان ریاستی پالیسی مخالف سیاست بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نہ صرف آج بھی طالبان کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں، بلکہ وہ اس معاملہ میں ریاستی پالیسیوں کے سب سے بڑے اعلانیہ حمایتی بھی ہیں۔
تیسری اہم وجہ: نئی نسل کی سیاست میں مداخلت اور مقبولیت سے خوف بھی ہے، جو محسن داوڑ کا راستہ روکنے کا موجب بن رہی ہے۔ پی ٹی ایم کی مقبولیت کے بعد نئی قیادتوں کے ابھرنے کے امکانات زیادہ روشن ہو چکے ہیں، جو بنیاد پرست نظریات کی بنیاد پر مولانا فضل الرحمان کے سیاست پر غلبے کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکے ہیں۔
پہلی بارمولانا کی بنیاد پرست سیاست کو سیکولر چیلنج کا سامنا ہے:
وزیرستان سے تعلق رکھنے والی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار مونا نصیر کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست مذہب، پدر شاہی، قدامت پرستی اورطالبان کے سرعام حمایت پر مبنی ہے۔ دوسری طرف محسن داوڑ سیکولر سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ باچا خان کی سیاست، انسان دوست روایات کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں اور طالبان کے انتہائی مخالف اور ناقد ہیں۔
اس حوالے سے ’جدوجہد‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ مولانا کی سیاست کا برانڈ خواتین مخالف ہے۔ ”مذہب کارڈ اور قدامت پرستی اس علاقے میں عوام کو کچھ نہیں دے سکی اور محسن داوڑ اس جمود کے خلاف ہے۔ اس سے قبل اس علاقے سے ان کیلئے ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا اور یہ پہلی بار ہے کہ مولانا کی سیاست کوکوئی سنجیدہ چیلنج کر رہا ہے“۔