حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی وزارت عظمیٰ پر حال ہی میں براجمان ہونے والے تنویر الیاس کی حلف اٹھانے کے بعد پہلی پریس کانفرنس ہی متنازعہ ہو گئی۔ صحافیوں کے سوالات نے انہیں سیخ پا کر دیا، توتکار اور بدتمیزی سے صحافیوں کو صحافت کا درس دینے تک پہنچ گئے۔
ہفتہ کی سہ پہر کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعظم کی پریس کانفرنس سے قبل ہی صحافی کانفرنس ہال میں موجود تھے۔ یہ پریس کانفرنس بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کے موقع پر یوم سیاہ کی سرکاری کال سے متعلق تھی۔
وزیر اعظم کے ہمراہ ممبران اسمبلی (جنہیں کابینہ کا اعلان کرنے سے قبل ہی وہ وزرا قرار دیتے رہے) کے علاوہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں سرگرم پاکستان نواز جماعتوں کے اسلام آباد میں مقیم نمائندوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چند اراکین بھی کانفرنس ہال میں تشریف لائے۔ تاہم ایک ہی رہنما کو نشست ملنے پر باقی جلد ہی ہال سے باہر چلے گئے۔
پریس کانفرنس میں موجود صحافی ثاقب راٹھور نے ’جدوجہد‘ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم تنویر الیاس نے اپنی پریس کانفرنس میں یوم سیاہ کی غرض و غایت بتائیں اور بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والے مظالم کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر وہ ہال سے فوری اٹھ کر جانا چاہتے تھے۔ تاہم صحافیوں نے سوالات سننے کی گزارش کی اور وہ دوبارہ بیٹھ گئے۔
انکا کہنا تھا کہ پہلے سوال سے ہی وزیر اعظم کا رویہ جارحانہ اور آمرانہ طرز کا رہا۔ مثال کے طور پر سرکاری نیوز ایجنسی سے منسلک ایک صحافی نے جب یہ سوال پوچھا کہ وزیر اعظم یوم سیاہ کے موقع پر کس کس مقام پر احتجاج میں شریک ہونگے تو وزیر اعظم نے سخت لہجے میں جواب دیا کہ میں وزیر اعظم ہوں، ہر جگہ موجود نہیں رہ سکتا، کسی ایک جگہ ہی احتجاج میں شریک ہونگا۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کیلئے سینٹ اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے اپنے ماضی کے موقف سے متعلق سوال کا انہوں نے تحمل سے جواب دیا۔
ثاقب راٹھور نے بتایا کہ وزیر اعظم سینئر صحافی خاور راجہ کے سوالات پر برہم ہوئے۔ سابق وزیر حکومت اور تحریک عدم اعتماد میں ان کے ساتھی عبدالماجد خان نے وزیر اعظم کو رد عمل دینے سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے۔
سوشل میڈیا پر پریس کانفرنس کی وائرل ویڈیوز میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ایک صحافی تین حصوں میں سوال پوچھتا ہے۔ سوال کا پہلا حصہ اپنی ہی جماعت کے سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پیش کی گئی چارج شیٹ سے متعلق تھا۔ دوسرا حصہ سابق وزیر اعظم سمیت دیگر کی جانب سے وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے پیسے کے استعمال کے الزامات سے متعلق، جبکہ تیسرا حصہ پریس کانفرنس میں حریت کانفرنس کے دوسرے گروپ کی عدم موجودگی سے متعلق تھا۔
وزیر اعظم تنویر الیاس ان سوالات پر غصے میں نظر آئے۔ عبدالماجد خان نے سوالات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ’پلانٹڈ‘ سوال ہے، میں اس کی طبیعت صاف کرتا ہوں۔ صحافیوں نے بھی جواب پر اصرار کیا تو وزیر اعظم نے ’توتکار‘ شروع کر دی۔ ان سوالات کو ’پلانٹڈ‘ قرار دیا اور سابق وزیر اعظم کی کارکردگی پر ایک بار پھر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کر دیا کہ ان کی تحریک انصاف میں آمد کے بعد 3 نشستوں پر محدود جماعت 32 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ پارٹی صدر ہونے کی وجہ سے ان پر خریدو فروخت کا سوال ہی نہیں اٹھایا جا سکتا۔
ساتھ ہی وزیر اعظم نے صحافیوں کی صحافت پر بھی سوالات اٹھا دیئے اور یہ بتایا کہ ہر قلم کاغذ پکڑنے سے بندہ صحافی نہیں بن جاتا۔ میں بھی آپ لوگوں سے سوال پوچھوں تو آپ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد وزیر اعظم پریس کانفرنس ختم کر کے وزیر اعظم ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے۔ تاہم صحافیوں کا ایک گروپ ان کے پیچھے گیا اور ان کے اس طرز عمل پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔
ہفتہ کی ہی رات گئے صحافیوں کے ہی فٹ بال مقابلوں میں بطور مہمان خصوص شرکت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم تنویر الیاس نے صحافیوں کو صحافتی اصول سمجھانے کی کوشش کی۔ تنویر الیاس نے بتایا کہ صحافت میں ’فائیو وائے‘ (5Y) کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ صحافیوں کو صحافت کے دوران ’فائیو وائے‘ کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔
صحافیوں کی جانب سے وزیر اعظم کے اس طرز عمل پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کشمیر جرنلسٹس فورم (کے جے ایف) کی جانب سے صحافیوں کے دباؤ کے بعد ایک پریس ریلیز میں وزیر اعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں نے وزیر اعظم کے اس طرز عمل پر شدید تنقید کی اور تمام صحافتی تنظیموں سے وزیر اعظم کی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور اس عمل کو آمرانہ قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے کسی رہنما نے صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا ہو، بلکہ تحریک انصاف کی ایسی ہی تاریخ رہی ہے۔
اپنے من پسند صحافیوں کو انٹرویوز دینا، من پسند سوالات کروا کر ان کے جواب دینا اور جب کوئی صحافی مرضی کے خلاف سوال کر دے تو اس کی تضحیک و تذلیل کرنا۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کرنا اور سوشل میڈیا ٹرولز کے ذریعے اس کے گھر والوں تک کو ہراساں کرنا تحریک انصاف کا وطیرہ رہا ہے۔
ہفتہ کے روز ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی پریس کانفرنس کے دوران بھی من پسند صحافیوں کے سوالات لئے جانے پر صحافیوں نے احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ آپ من پسند سوالات لیتے ہیں اور مرضی کے خلاف سوالات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ صحافیوں نے عمران خان سے اٹھ کے جاتے ہوئے سوال کرنے کی کوشش کی تو شہباز گل اور دیگر رہنماؤں نے صحافیوں کو دھکے دیئے اور بدتمیزی بھی کی گئی۔ مذکورہ واقعہ کی بھی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہفتہ اور اتوار کو وائرل رہی ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تحریک انصاف کے صدر اور حال ہی میں اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے وزیر اعظم بننے والے تنویر الیاس کا طرز عمل بھی اسی نوعیت کا رہا ہے۔ مال و دولت کی وجہ سے شہرت رکھنے والے تنویر الیاس کی سیاست میں آمد بھی دولت اور اس کی بنیاد پر ساتھ رکھے گئے چند صحافیوں کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔ سینیٹر بننے کی خواہش سے پنجاب کی نگران حکومت اور پھر تحریک انصاف کی پنجاب حکومت میں عہدوں پر رہنے کے بعد انہوں نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرکی سیاست میں قدم رکھا۔
جہاں مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان پر دولت نچھاور کرنے کے الزامات اور کچھ تبادلوں کی خبروں سے ان کی طاقت اور دھاگ جمتی گئی، وہیں پاکستان کے میڈیا چینلوں میں اسائنمنٹ ایڈیٹروں اور چند مالکان پر بھاری انوسٹمنٹ نے انہیں میڈیا میں ’فرینڈلی‘ ماحول فراہم کیا۔
تنویر الیاس نے اس خطے میں جب حرکت شروع کی تو کوئی تقریب بھی ان کی جانب سے لاکھوں روپے بطور انعامات سے محروم نہیں رہی۔ سب سے زیادہ عنایات پریس کلبوں میں بھاری رقوم کی صورت میں کی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں کسی بھی موقع پر سخت سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اب ان کے وزیر اعظم بننے کے وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ دوسری طرف میڈیا مالکان کے ساتھ براہ راست ’مالیاتی سودے‘کرنے، اخبارات کے صفحات اور خبروں کے ’سائز‘ تک خریدے جانے کے سلسلے نے عامل صحافیوں کو ان سے متعلق رائے دینے کیلئے بھی سوشل میڈیا تک ہی محدود کر دیئے گئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب پریس کانفرنس کرنے کا ارادہ کیا گیا تو صحافیوں کو موقع میسر آگیا کہ وہ بھی نسبتاً کھل کر سوال کر سکیں۔ تاہم مال و دولت کی طاقت و رعونت کی وجہ سے ان کے اردگرد جی حضوری کرنے والوں کے جھرمٹ تنویر الیاس کی طبیعت میں وہ تبدیلیاں کر چکے تھے کہ انہیں یہ کھلے سوالات ناگوار گزرے۔ وہ اپنی کاروباری ایمپائر کے ملازمین کی طرز پر ہی صحافیوں کو بھی ڈانٹ ڈپٹ سے خاموش کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔
حال ہی میں وزیر اعظم بننے اور خریدے گئے ممبران اسمبلی کی کابینہ میں ایڈجسٹمنٹ کیلئے درپیش مسائل کی وجہ سے وہ ابھی تک میڈیا مینجمنٹ کرنے میں بھی اس طرح سے کامیاب نہیں ہو پائے تھے کہ جو میڈیا ٹیم من پسند صحافیوں کے سوالات لینے کی راہ ہموار کر سکتی۔ اس صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد مستقبل میں اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات اولین ترجیح ہو گی۔
تاہم وزیر اعظم کا یہ طرز عمل واضح کر رہا ہے کہ تحریک انصاف جیسے نیم فسطائی رجحان کی قیادت اور کارکنان اس معاشرے میں ہر طرح کے اختلاف اور اظہار رائے کا راستہ روکنے کی پالیسی کو سیاسی رجحان کے طو رپر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔
گو کہ تحریک انصاف کی اس خطے میں حکومت زیادہ عرصہ چلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے، لیکن اگر یہ حکومت قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی تو میڈیا پر پابندیوں میں مزید اضافے کے علاوہ تحریر و تقریر کی آزادی کی ہر گنجائش کا خاتمہ کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے مسند سنبھالنے کے بعد پہلے اعلان میں ہی جس طرح بنیاد پرست اور کالعدم تنظیموں کی قیادت میں جلوس منعقد کئے گئے یہ امر اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ مستقبل میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بہتر فضا مہیا کرنے کی کوششیں بھی تیز کی جا سکتی ہیں۔
ترقی پسند رجحانات اور بالخصوص طالبعلموں اور نوجوانوں کو انتہا پسندانہ رجحانات کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کا راستہ روکنے کیلئے عملی سیاست میں کردار ادا کرنا ہو گا۔