عمران کامیانہ
پونے چار سال پہ محیط تحریک انصاف کی نیم فسطائی حکومت کا دور انتہائی ڈرامائی انداز میں 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب اختتام پذیر ہوا۔ کھیل میں اپنی ہار یقینی ہو جانے کے بعد بھی عمران خان، اس کے حواریوں اور پیروکاروں نے جس ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اس نے تحریک انصاف کے مظہر کو زیادہ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی بورژوا سیاست کی تاریخ میں اس بدمعاشی کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو گی جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں عمران خان کے ٹولے کی طرف سے کی گئی (اسی قسم کی غنڈہ گردی کا مظاہرہ پنجاب اسمبلی میں بھی 16 اپریل کو کیا گیا)۔ جس سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کوئی روایتی بورژوا جماعت نہیں بلکہ فسطائی رجحانات رکھنے والا پیٹی بورژوازی اور لمپن بورژوازی کا سیاسی مظہر ہے۔ یہ لوگ آخر میں صورتحال کو اس نہج تک لے گئے کہ ریاست کو عدلیہ اور فوج کے ذریعے براہِ راست مداخلت کر کے تقریباً گن پوائنٹ پر ان کی چھٹی کروانی پڑی۔ تاہم انتہائی دباؤ کے وقتوں میں بھی عمران خان اور اس کے حواریوں کا غیرمعمولی اعتماد بے سبب نہیں تھا۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انہیں ریاست کے اندر سے ایک اقلیتی لیکن طاقتور دھڑے کی حمایت حاصل تھی۔ اور اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بھی عمران خان جس طرح تادم تحریر دندناتا پھر رہا ہے اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ، جو دنیا کے پرفریب اور موثر ترین پراپیگنڈہ نیٹ ورکس میں سے ایک ہے، جس طرح ”انتہائی مقدس“سمجھے جانے والے ریاستی اداروں کے خلاف زبان درازی میں مشغول ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ پشت پناہی اب بھی کسی حد تک موجود ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے سنگین ترین سیاسی و ریاستی بحرانوں میں سے ایک ہے جو نہ صرف ڈیپ سٹیٹ بلکہ پورے سماج میں موجود گہرے تضادات کا اظہار کرتا ہے اور جس کا ایک مرحلہ ہی ختم ہوا ہے۔ لیکن نہ جانے کتنے مراحل ابھی باقی ہیں۔
یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کا پونے چار سالہ دورِ حکومت اس ملک کے سیاہ ترین ادوار میں سے ایک تھا جو معاشرے کو کئی حوالوں سے پیچھے ہی لے کے گیا ہے اور جس کے رجعتی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اثرات کسی انقلابی تحریک کی عدم موجودگی میں آنے والے لمبے عرصے تک موجود رہیں گے۔ پاکستانی سرمایہ داری کا نامیاتی بحران اپنی جگہ لیکن نظام کی اس کیفیت میں جو تھوڑے بہت کام ہو سکتے تھے یہ لفنگا صفت حکومت وہ بھی کرنے سے قاصر رہی۔ ایسے میں بالخصوص پہلے ایک ڈیڑھ سال میں اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی واضح ہو جانے کے بعد عمران خان مذہب اور قومی شاونزم کے سیاست اور ریاست میں استعمال کو جن انتہاؤں پہ لے گیا وہ شاید ضیا الحق بھی نہیں لے جا سکا تھا۔ جس کی ایک وجہ پھر یہ ہے کہ ضیا الحق کی نسبت عمران خان زیادہ وسیع اور گہری سماجی بنیادیں رکھنے والی رجعت ہے جسے مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پہ 80ء کی دہائی جیسی طبقاتی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ ایک طرف مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری اور آزاد منڈی کی دوسری پالیسیوں کی صورت میں نیولبرل سرمایہ داری کے جارحانہ وار جاری تھے۔ چیزوں کی قیمتوں میں اتنا اضافہ عام طور پر پندرہ سے بیس سالوں کے عرصے میں ہوتا ہے جتنا پچھلے پونے چار سال میں ہوا۔ اسی طرح غربت میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دوسری طرف تحریر و تقریر کی آزادیوں پہ قدغنوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، پیکا آرڈیننس جیسے کالے قوانین نافذ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں، صحافیوں پہ حملوں میں تیزی آئی، نصاب میں مسلسل رجعتی مواد ٹھونسا گیا، ٹی وی پہ انتہائی رجعتی اور قدامت پرستانہ ڈرامے اور پروگرام نشر کروائے گئے اور حساس مذہبی ایشوز اور ناموں کو لے کے باقاعدہ نئے ریاستی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حتیٰ کہ ”صوفی ازم“ کے فروغ کے لئے ایک پوری یونیورسٹی قائم کر دی گئی۔ ریپ جیسے نازک مسئلے کو سرکاری سطح پہ فحاشی کیساتھ جوڑا جاتا رہا۔ عمران خان حکومت طالبان کی وکالت اور حمایت کو داخلی اور خارجی طور پر جن انتہاؤں پہ لے گئی وہ شاید جماعت اسلامی کے بھی بس میں نہیں تھا۔ روحانیت اور تصوف کے نام پر سرکاری سطح پہ مسلسل مذہبیت، غیر سائنسی سوچ، بے عملی اور قدامت پرستی کا فروغ جاری رکھا گیا۔ بطور وزیر اعظم تقریباً ہر تقریر میں انتہائی رجعتی مذہبی بیانیے کا بے دریغ استعمال عمران خان کا شیوہ رہا۔ اسی طرح سیاست میں گالم گلوچ اور ذومعنی اصطلاحات کے استعمال کو تحریک انصاف نے ایک معمول بنا کے رکھ دیا۔ لیکن غور کریں تو لوگوں کی سوچوں اور احساسات کو مسلسل مجہول اور مفلوج رکھ کے اپنے طبقاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے اقدامات ریاست کے کم از کم ایک دھڑے کی ناگزیر ضرورت بن چکے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں عورتوں اور بچوں کے بہیمانہ ریپ و قتل اور مذہبی جنونی گروہوں کی طرف سے ماب لنچنگ کے واقعات میں ہونے والا اضافہ بے سبب نہیں ہے۔ یہ گہرے ہوتے ہوئے اس سماجی بحران کا اظہار ہے جسے اپنے حل کا کوئی انقلابی راستہ نہیں مل پا رہا اور جس کا ایک اظہار خود تحریک انصاف ہے۔ عمران خان کو اگر موقع اور وقت ملتا تو وہ نہ صرف اس ملک میں ہر قسم کے ترقی پسندوں کا جینا حرام کر دیتا بلکہ سماج کو طالبانیت کی طرف لے جانے کی کوشش میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔ لیکن جاتے جاتے بھی وہ اس ریاست کے ڈسپلن، ڈھانچوں، خارجہ تعلقات اور امیج کو ایسے ڈینٹ لگا کے گیا ہے جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن پھر اقتدار سے باہر رہ کے بھی اگر اسے مخصوص داخلی تضادات کی بنا پہ کھلا چھوڑا جاتا ہے یا کسی حد تک بھی فری ہینڈ دیا جاتا ہے تو وہ اپنا زہر مسلسل معاشرے کی رگوں میں گھولتا رہے گا۔ نواز شریف کے نکالے جانے سے اس نظام کا جو توازن بگڑا تھا وہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ عمران خان نے اس بگاڑ کو شدید تر ہی کیا ہے۔
عمران خان ذہنی، نفسیاتی اور سیاسی طور پہ ایک فاشسٹ انسان ہے جو مڈل کلاس کی ڈھٹائی، ضد اور اناپرستی پر مبنی ایک نیم فسطائی رجحان کی نمائندگی کرتا ہے اور جسے ریاست اور سماج کے انتہائی رجعتی، سیاہ، ہٹ دھرم اور جابر عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جس بندے کے اپنے ہی ماضی کے افعال اور الفاظ اس کے سب سے بڑے دشمن بن جائیں اور آسیب کی طرح اس کی سیاست پہ منڈلانے لگیں اس کی کیا نفسیاتی اور روحانی حالت ہو گی۔ یہ وہ طبقہ اور وہ لوگ ہیں جو موقع ملنے پر اپنی رد انقلابی، غلیظ اور انسان دشمن اقدار اور نظریات کو مسلط کرنے کے لئے ظلم و جبر کی کسی انتہا پر بھی جا سکتے ہیں۔ انقلابیوں کے لئے ان کی طرف کسی قسم کی ہمدردی یا رحمدلی محنت کش طبقے اور انقلاب کے لئے زہر قاتل بن جاتی ہے۔ لیکن یہاں بہت سے ترقی پسند ساتھی بھی عجیب تذبذب اور مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں اور حکمرانوں کے کسی ایک (زیادہ رجعتی) دھڑے کی طرف زیادہ جارحانہ انقلابی موقف کو دوسرے دھڑے کی حمایت گمان کرنے لگتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دونوں دھڑوں کا تعلق حکمران طبقے سے ہے اور دونوں محنت کش طبقے کے دشمن ہیں۔ لیکن ایک ڈاکو اگر لوٹتا ہو اور دوسرا لوٹنے کے بعد قتل بھی کر دیتا ہو تو ان دونوں کا فرق ہمیں معلوم ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کے مقابلے میں پہلے کی حمایت شروع کر دی جائے یا پہلے کو دوسرے پہ ترجیح دی جائے۔ ہمیں ہر حال میں حکمران طبقے کے ہر دھڑے سے نجات کی جدوجہد کرنی چاہئے لیکن یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان میں سے کسی ایک کے زور پکڑنے یا اقتدار میں آنے سے محنت کش طبقے کے شعور پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے، سماج پہ سیاسی و ثقافتی طور پہ کیا رجحانات حاوی ہونے کی طرف جائیں گے اور سب سے بڑھ کے انقلابی کام کے حالات بہتر ہوں گے یا ہمارے لئے مزید کٹھنائیاں جنم لیں گی۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ حکمرانوں کا جو دھڑا نسبتاً کم ضرر رساں نظر آتا ہے وہ اپنی رحم دلی یا خوش اخلاقی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا بلکہ اس کے مخصوص سیاسی و معاشی مفادات اس کے رویے اور طرز عمل کی تشکیل کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مخصوص حالات میں یہ مفادات ہمارے لئے کام کے نسبتاً سہل حالات پیدا کرتے ہیں تو ہمیں ایسے مواقع کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے۔ لیکن یہاں ایک اور جدلیات بھی سرگرم ہے۔ تحریک انصاف کو جن تاریخی عوامل نے پیدا کیا ہے ان کی تشکیل میں یہاں کی ساری پرانی مروجہ پارٹیاں بھی پوری طرح ملوث رہی ہیں۔ یہ ایک طرف ن لیگ جیسی نام نہاد لبرل یا نیم لبرل بورژوازی کی تاریخی ناکامی ہے کہ وہ نہ تو یہاں کوئی ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل دے سکے جس میں عام لوگوں کو کوئی سہولت ملتی، نہ صحت مند جمہوریت کی بنیادیں استوارکر سکے، نہ ہی ریاست کو اس کے قدامت پسند دھڑوں سمیت اپنے تسلط میں لا سکے۔ دوسری طرف پھر پیپلز پارٹی قیادت کی غداریاں، بدعنوانیاں اور موقع پرستیاں جاری رہیں جنہوں نے پارٹی کو زوال پذیری کی ایسی گہرائیوں میں دھکیل دیا جہاں یہ اسی نظام کی سیاست کا آلہ کار بن کے محنت کش طبقے کو کوئی امید، کوئی انقلابی راستہ اور لائحہ عمل فراہم کرنے سے قاصر ہو گئی۔ ایسے میں جنم لینے والے سیاسی خلا کے حالات میں کسی تیسری قوت کا ابھار ناگزیر تھا جو کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں ریاستی پشت پناہی اور نئی ابھرنے والی شہری وائٹ کالر مڈل کلاس کی جاہلانہ یلغار کیساتھ تحریک انصاف کی صورت میں ہوا اور جس کی لپیٹ میں ن لیگ کی حمایتی سمجھی جانے والی کاروباری پیٹی بورژوازی اور ایک وقت تک پیپلز پارٹی کو بنیادیں فراہم کرنے والے محنت کش طبقے کی کچھ پرتیں بھی آ گئیں۔ اگرچہ بحیثیت مجموعی اور بالعموم محنت کش طبقے نے اس سارے رجحان کو روزِ اول سے مسترد ہی کیا۔ تحریک انصاف بنیادی طورپہ ایک اناپرست، گھمنڈی، ذہنی بیمار لیکن ”ہینڈسم“ انسان کی اندھی پیروی میں ظاہریت کی پرستش کرنے والی اس رجعتی مڈل کلاس کا سماج پہ ایسا خودکش حملہ ہے جو یہاں سے ہر جمہوری آزادی (جیسی بھی حاصل ہیں)، ترقی پسند سوچ اور رجحان کا خاتمہ کرنے کے درپے ہے۔ اس سارے عمل میں مذکورہ بالا مڈل کلاس کے نوجوان پیش پیش نظر آتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت سے ویسے ہی معذور اور مفلوج معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں طلبہ سیاست کو ایک جرم بنا دیا جائے، طلبہ یونین پر دہائیوں سے پابندی ہو، حاوی سیاست میں سے نظریات کو نکال باہر کر دیا جائے اور نصابی کتابیں ذہنوں میں رجعت ٹھونسنے کے اوزار بن جائیں تو وہاں پھر ایسی ہی مخلوق جنم لیتی ہے۔ یہ اسی سیاسی اشرافیہ کے تاریخی جرائم ہیں جو آج تحریک انصاف کے مقابلے میں بڑی ”ڈیموکریٹ“ بنی ہوئی ہے۔
اس سارے عمل میں عمران خان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ کم از کم اپنے اندھے پیروکاروں کے سامنے اپنے دور حکومت کی بدترین مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور بدانتظامی کو نام نہاد امریکی خط میں لپیٹ گیا ہے۔ اور سامراج کی گماشتگی میں سٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے بعد اب ”سامراج دشمن“ ہو گیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ عمران خان کے پشت پناہوں کو کابل جا کر چائے کا کپ لہرانا مہنگا پڑ گیا ہو۔ بلکہ شاید یہ ان کے زیرعتاب آنے کی وجوہات میں اہم وجہ ہے۔ لیکن مسئلہ صرف خارجہ پالیسی یا سفارتکاری کی مہم جوئیوں کا نہیں تھا بلکہ عمران خان معیشت، سیاست اور ریاست سمیت اس پورے نظام کو ایک مکمل بربادی کی طرف لے جا رہا تھا۔ اس لئے وہ ایک مرحلے پہ آ کے اپنے آقاؤں کے لئے اثاثے کی بجائے بھاری بوجھ بن گیا جس سے جان چھڑانے میں ہی انہوں نے عافیت جانی۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ’ہائبرڈ رجیم‘ کا یہ سارا تجربہ ان کے لئے بہت بڑا دردِ سر بن گیا ہے۔
تحریک انصاف کی اس نام نہاد سامراج دشمنی میں بھی کچھ ترقی پسندانہ نہیں ہے۔ فسطائیت کی سامراج دشمنی بعض صورتوں میں لبرلزم کی سامراجی گماشتگی سے زیادہ رجعتی، جابر اور استحصالی ہوتی ہے۔ یہ سماج پر مذہبی، قومی اور نسلی شاونزم مسلط کرنے کے ایک زہریلے ہتھکنڈے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ اس طبقے کا سب سے بڑا ”سامراج دشمن“ ہٹلر تھا جس نے انسانی تاریخ کے سیاہ ترین باب رقم کیے۔ اسی طرح مڈل کلاس کی موروثی سیاست سے مخالفت میں بھی کسی ترقی پسندی کی بجائے حکمران خاندانوں سے حسد کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ یہ خود وہ بننا چاہتے ہیں۔ اور جب نہیں بن سکتے تو ان سے گھٹیا قسم کی دشمنی اور بغض شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل جیسے حکمرانوں کے پروٹوکول جب انہیں سڑکوں پہ ذلیل کرتے ہیں تو ان کی نازک، کھوکھلی لیکن پھولی اور سوجھی ہوئی انا کو بہت ٹھیس لگتی ہے۔ ان کی غریبوں کے لئے ہمدردی میں بھی یکجہتی کی بجائے ترس اور عبرت کے غلیظ عناصر غالب ہوتے ہیں۔ محنت کشوں کے مسائل اور سوچنے کے انداز اور زاویے اس سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔
عمران خان کی امریکہ مخالف بڑھک بازی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ امریکہ میں اس کے خلاف منی لانڈرنگ کا بڑا کیس سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ جس کے لئے وہ ابھی سے گراؤنڈ تیار کر رہا ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ جس میں پھر تحریک انصاف کے اپنے مستقبل کا سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے جواب کے تعین میں کئی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ جن میں ڈیپ سٹیٹ کے اندرونی تضادات کیساتھ ساتھ برسراقتدار آنے والی مخلوط حکومت کی کارکردگی اور اقدامات بھی بہت اہم ہیں۔ آنے والے دنوں میں ایک امکان موجود ہے کہ ریاست میں عمران خان کے حمایتی دھڑے کے کلیدی لوگوں کو معزول کرنے کی کوشش کی جائے (جو بیک فائر بھی کر سکتی ہے)۔ لیکن طاقتور اداروں کی درمیانی پرتوں میں بھی عمران خان کی اچھی خاصی حمایت موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار دھڑا ابھی تک عمران خان کو نسبتاً فری ہینڈدینے پہ مجبور ہو رہا ہے۔ شاید وہ ایک بتدریج انداز میں عمران خان کو کارنر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں بھی یہ اہم ہے کہ نئی حکومت لوگوں کو کس حد تک ریلیف دے پاتی ہے۔ جس کا ان پر شدید دباؤ ہے۔ لیکن ان کے پاس آپشن بہت ہی محدود ہیں۔ ایک طرف عمران خان ہے جو اپنی زبان درازی میں ہر حد تک جا رہا ہے اور ان کے ہر عوام دشمن اقدام کو بھرپور کیش کروائے گا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف ہے۔ نیچے سے عوام کا بھی دباؤ ہے۔ شہباز شریف مسند نہیں کانٹوں کی سیج پہ بیٹھا ہے۔ معیشت تاریخی خساروں اور قرضوں سے دوچار ہے۔ پہلے کورونا اور اب یوکرائن جنگ نے عالمی معیشت کو گہرے بحران میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان حکومت نے روپے کو اتنا گرایا ہے کہ عالمی افراطِ زر کے اثرات ملکی سطح پہ دگنے ہو گئے ہیں۔ درحقیقت معیشت اس وقت اس سے بہت پتلی حالت میں ہے جتنی 2018ء میں ن لیگ کی حکومت نے چھوڑی تھی۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کہا ہے کہ آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی اداروں اور ممالک سے کیے گئے معاہدوں کو جاری رکھا جائے گا۔ جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ بہترین صورت میں بھی (جس میں یہ آئی ایم ایف سے کچھ شرائط پر نظر ثانی کروا لیتے ہیں) محنت کش عوام کو کوئی بڑا ریلیف ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔ ابھی تو اِنہوں نے پٹرول کی قیمتوں کو کسی نہ کسی طرح روک لیا ہے لیکن اگر یوکرائن کی جنگ جاری رہتی ہے یا پھیل جاتی ہے یا شدت پکڑ لیتی ہے (جس کے خاصے امکانات ہیں) تو پٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے جو بینظیر بحران کا موجب بنے گا۔ انتہائی صورتوں میں یہاں سری لنکا جیسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت کے علاوہ انتخابات کم و بیش اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ ان کی کوشش ہو گی کہ بحران کو کچھ ٹالا جائے اور انتخابات تک معاملات کو کسی نہ کسی طرح گھسیٹا جائے۔ اس دوران بیشتر دوسری تعیناتیوں کیساتھ ساتھ نومبر میں ایک اہم تعیناتی بھی ہو گی۔ اسی تعیناتی کی وجہ سے اپوزیشن کو عمران خان کو نومبر سے پہلے فارغ کرنے کی جلدی تھی جبکہ عمران خان تب تک ہر حال میں اقتدار میں رہنا چاہتا تھا (اور اب جلدی الیکشن کا شور اس لئے مچا رہا ہے کہ اس کے نومبر سے پہلے اقتدار میں آنے کے امکانات ہوں)۔ لیکن یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ یہ ایک بہت عارضی اور مصنوعی سا حکومتی بندوبست ہے جو ضروری نہیں کہ آنے والے دنوں میں اتنا مستحکم رہے جتنا اب نظر آ رہا ہے۔ اس دوران عمران خان ان کے خلاف اپنی تحریک بنانے کی پوری کوشش کرے گا اور جلسے جلسوں، جارحانہ بیانات اور تقریروں کے ذریعے ان کے ناک میں دم کرتا رہے گا۔ ایک امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے مقدمے در مقدمے میں الجھا کے اندر کر دیا جائے۔ یا کسی اور طریقے سے ملکی منظر نامے سے غائب کر دیا جائے۔ فارن فنڈنگ کیس، جس کا فیصلہ کچھ ہفتوں میں آنا ہے، کی تلوار اس کے سر پہ مسلسل لٹک رہی ہے۔ اس کیس میں تحریک انصاف کو کالعدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور نااہلی وغیرہ کی سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس طرح حکومت کچھ وقت خرید سکتی ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری مہینوں اور بالخصوص آخری دنوں میں جو کچھ کیا ہے اس کے پیش نظر اس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کم و بیش معدوم ہو چکے ہیں۔ بالخصوص خط کی واردات میں وہ اپنے ساتھ شاہ محمود قریشی جیسوں کو بھی لے ڈوبا ہے۔ وہ اب نہ اس ریاست کے سنجیدہ پالیسی سازوں کو منظور ہے نہ امریکیوں کو۔ عمران خان دوبارہ اقتدار میں انتہائی غیرمعمولی انداز سے ہی آ سکتا ہے جو بہت پرانتشار اور خونی بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ اپنے مخصوص آمرانہ اور فسطائی انداز میں ہر مخالف رجحان پر زمین تنگ کر دے گا اور محنت کشوں پر معاشی و سیاسی جبر کی انتہا کرے گا۔ لیکن اقتدار سے لمبا عرصہ باہر رہنے کی صورت میں تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ بڑھے گی۔ جلسے جلوسوں اور لفظی ایجی ٹیشن کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ عمران خان ابھی تازہ تازہ اقتدار سے نکلا ہے اس لئے اس کے حمایتی کافی غم و غصے میں ہیں۔ لیکن اس مومنٹم کو جاری رکھنا اس کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ اس دوران سوشل میڈیا پہ تحریک انصاف کا انتہائی وسیع اور منظم نیٹ ورک، جسے ایک وقت میں ریاست کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا اور جس پر کروڑوں روپے آج بھی خرچ کیے جا رہے ہیں، جھوٹ اور بیہودگی کی بھرمار کرتا رہے گا۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اتنا بڑا اور مکروہ فراڈ ہے جس کا اندازہ بھی محال ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کا بھی ایک قابل ذکر حصہ عمران خان سے ہمدردی رکھتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف ایک چھوٹے پریشر گروپ کے طور پر نسبتاً طویل عرصے تک چلے یا چلائی جائے۔ لیکن اگر تحریک انصاف کو کچل دیا جاتا ہے یا یہ مظہر وقت کیساتھ اپنی موت آپ مر جاتا ہے تو بھی وہ حالات ختم نہیں ہوں گے جنہوں نے اسے جنم دیا ہے۔ وہ کسی اور رجعت، کسی اور فسطائیت کی صورت میں اپنا اظہار کریں گے۔ جب تک محنت کش طبقہ خود مجہول اور منتشر ہے تب تک اس نظام کے اندر ہونے والی ہر پیش رفت گھوم پھر کے اس کے خلاف ہی جائے گی۔ لیکن اس بورژوازی کی جمہوریت اور معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ یہ ان حالات کا خاتمہ کر سکے جو قدامت پرستی اور فسطائیت کے ایسے مذہبی اور سیاسی رجحانات کو پیدا کرتے ہیں۔ یہ تاریخی فریضہ محنت کش طبقہ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ جسے آنے والے دنوں میں معاشی حالات کے اتار یا چڑھاؤ کی کیفیات جھنجوڑ سکتی ہیں۔ یہ نظام چہرے اور طریقے بدل بدل کر محنت کشوں کو صرف لٹنے کا حق ہی دیتا ہے۔ لیکن یہ طبقہ جب بیدار ہو کر میدان عمل میں اترے گا تو ان حکمرانوں سے سب کچھ چھین لینے کا تاریخی فریضہ ادا کرے گا۔