عامر رضا
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس سماج کو تین پرتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلی پرت بورژوا، دوسری مزدور اور تیسری درمیانے طبقے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں چھوٹے دکاندار، دستکار اور کسان سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ اس طبقے کی کوشش صرف اور صرف اپنی بقا کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ مارکس اسے انقلابی نہیں بلکہ قدامت پسند اور رجعت پرست قرار دیتا ہے۔ یہ طبقہ مارکس کے بقول ”تاریخ کی گنگا کو الٹا بہانے کی کوشش کرتا ہے“۔ یہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ابن الوقتی کرتے ہوئے انقلابی ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر مزدور طبقے کے ساتھ مل کر بورژوا کلاس کے خلاف جد وجہد میں حصہ لیتا ہے۔ ذرائع پیداوار اور معاشی نظام کی نئی جہتوں کے ساتھ اس طبقے کی ساخت میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو مڈل کلاس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لیا اور مذہب کے نام پر الگ وطن کے حصول کے لیے خود کو موبلائز کیا۔ مذہب ایک نظریے کے طور پر یہاں کی مڈل کلاس میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔
ایوب دور میں سبز انقلاب اور صنعتی ترقی نے مڈل کلاس کو وسعت دی۔ اسی دور میں ترقی کے نام پر سرکاری سرپرستی میں سرمایہ دار ی کو پروان چڑھایا گیا۔ معاشی پالیسوں کے باعث طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوا جس سے عوام میں بے چینی کی لہر اٹھی۔ 1968ء میں جب اس ترقی کا عشرہ منایا جا رہا تھا تو عوامی بے چینی کی لہر پھٹ پڑی۔ محنت کش طبقے نے بڑے پیمانے پر حکومت کے خلاف جدوجہد کاآغاز کر دیا۔ 7 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک ہونے والے واقعات نے ملک میں ایک سماج وادی انقلاب لانے کا موقع پیدا کر دیا تھا جو ڈاکٹر لال خان کے مطابق کیش نہ کروایا جا سکا۔ اس عوامی ابھار کو دیکھتے ہوئے مڈل کلاس بھی مزدور طبقے کے ساتھ مل گئی۔ اس جدوجہد میں ابھرنے والی قیادت نے سوشلسٹ انقلاب کی بجائے پاپولسٹ سیاست کا انتخاب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے مڈل کلاس نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا لیکن پارٹی کی پالیسی سازی کا کنٹرول جاگیردار کلاس کے پاس ہی رہا اور جو لوگ اس میں شامل ہوئے تھے ان میں مایوسی پھیلنے لگی۔ عبداللہ حسین کے ناول ”نادار لوگ“ (1996ء) میں ملک اعجاز کی کہانی کا پلاٹ اسی پاپولسٹ سیاست کے گرد گھومتا ہے۔ ملک اعجاز ایک چھوٹا کسان اور سکول ٹیچر ہے جو اپنے سیاسی شعور کی وجہ سے نوکری سے ایک سازش کے تحت بر طرف کر دیا جاتا ہے۔ وہ ٹریڈ یونینز میں کام شروع کر دیتا ہے۔ جب 1968-69ء کا انقلاب برپا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی پارٹی (پیپلز پارٹی کا نام عبداللہ حسین نے ناول میں استعمال نہیں کیا لیکن اشارہ اسی طرف ہے) کا رکن بن جاتا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ پارٹی کی پالیسوں سے مایوس ہو جاتا ہے اور پارٹی کے طریقہ کار پر تنقید شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں پارٹی میں موجود مفاد پرست طبقہ ملک اعجاز کو پارٹی میں کھڈے لائن لگانے کی کوشش کرتا ہے جب وہ مزاحمت کرتا ہے تو اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔
اس دور میں مڈل کلاس نے اپنے آپ کو از سر نو تشکیل دیا، اپنے مفادات کے بچاؤ کے لیے نئی بائنریز (Binaries) تشکیل دیں۔ بیرون ملک بھیجی گئی لیبر کلاس پٹرو ڈالرزکی مدد سے نئی مڈل کلاس بن گئی۔ اس کلاس نے صرف پٹرو ڈالرز ہی نہیں بلکہ سخت گیر سنی اسلام کو بھی درآمد کیا۔ اس نئی تشکیل نے مڈل کلاس کو جلد ہی پیپلز پارٹی کی سیاست سے بے زار کر دیا۔ بھٹو کے خلاف جب نفاذ اسلام کی تحریک کا آغاز ہوا تو مڈل کلاس نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ضیا دور میں ہونے والی سوشل انجینئرنگ نے مڈل کلاس میں ”پاکستانیت“ کے اس تصور کو راسخ کیا جس کا خمیر مذہب، امت مسلمہ کی قیادت اور بیرونی جارحیت کے خطرے سے اٹھایا گیا تھا۔ اس مڈل کلاس کی نئی نسل کو ایسی اساطیری کہانیوں پر پروان چڑھا گیا جو ایسے فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں جو ریاست کا سربراہ، سپہ سالار، قانون دان اور جج بھی ہو۔ اس سوشل انجینئرنگ کے لیے نظام تعلیم، میڈیا اور خاص طور پر ٹی وی کا بے دریغ استعمال کیا گیا چنانچہ یہ نسل ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں الجھ گئی جس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں۔ امریکی ایما پر ہونے والے ڈالر جہاد نے امت مسلمہ کی قیادت کے خواب پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مڈل کلاس میں مذہبی رجعت پسندی اور شدت پسندی کا اضافہ کیا۔
نئی مڈل کلاس نسل جو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں زندگی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہو چکی ہے اس کے بیانئے ان بیانیوں کی توسیع ہیں جو ضیادور میں پیدا ہونے والی مڈل کلاس نسل کو سیکھائے اور پڑھائے گئے تھے۔ جن کے مطابق پاکستان دنیا کا اہم ترین ملک ہے، جس کے خلاف یہود و ہنود، امریکہ و یورپ ہر وقت سازش کر رہے ہیں۔ پاکستان امت مسلمہ کا بلاک بنا کر اسلامی دنیا کو لیڈ کر سکتا ہے جو امریکہ اور مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ تمام جملہ مسائل کا حل ایک ایسے رہنما کے ہاتھ میں ہے جس کے پاس بے پناہ اختیارات موجود ہوں۔
معاشی طور پر نیو لبرل اکانومی اور کارپوریٹ سیکٹر کی ترقی نے مڈل کلاس میں نئی تبدیلیاں کیں۔ سول ملٹری بیورکریسی میں موجود طبقے نے شادیوں اور رشتے داریوں کی مدد سے جو نیٹ ورکنگ شروع کی اس کا نتیجہ ایک ایسی اپر مڈل کلاس کی شکل میں نمودار ہوا جو سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ حصے کی خواہاں ہو گئی۔ اس طبقے کے پاس جو سیاسی بیانیہ ہے وہ ”پاکستانیت“، پاپولر مذہبی سٹانس اور کرپشن کے گرد ہی گھومتا ہے جس کو مقبول بنانے کے لیے پاپولسٹ سٹانس اور سازشی تھیوریز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس لیے اس طبقے کو پاپولسٹ لیڈر اور حکمران مذہب اور وطن پرستی کے نام پر سازشی تھیوریز کے ذریعے کنٹرول کرتے رہتے ہیں۔
اس طبقے کا مطمع نظر اپنے مستقبل کا تحفظ ہے چنانچہ جب یہ طبقہ دیکھتا ہے کہ اس کامستقبل محفوظ ہے تو یہ سٹیٹس کو کے علاوہ آمریت کی حمایت بھی کرتاہے اور جب خطرہ محسوس کرتا ہے تو پھر معاشرے کے ان طبقات کے ساتھ مل جاتا ہے جو معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے جد وجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں انہیں محسو س ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے وہ وہیں اس جدوجہد سے خود کو الگ کر لیتے ہیں۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ موجودہ پاکستان میں حاضر و ریٹائرڈ سول ملٹری بیورکریسی، کارپوریٹ سیکٹر اور سروسز سیکٹر پر مبنی مڈل کلاس بیدار ہو کر کوئی بڑی تبدیلی لے آئے گی محض خام خیالی ہے، کیونکہ سول ملٹری بیورو کریسی اور سروسز سیکٹر کی بڑی تعداد اس سسٹم سے اپنے بچوں کے لیے وہ ’Clout‘ حاصل کرتی ہے جو اس کے مستقبل کو محفوظ بنانے اور ان کے معاشی اور سماجی اثر میں اضافہ کا باعث بنتاہے اور یہ ’Clout‘ صرف سٹیٹس کو کے اندر رہ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔