پرویز امیر علی ہود بھائی
جب پاکستان تحریک انصاف اور فوج کا ’سیم پیج‘ ایک لڑائی بھڑائی والی طلاق میں بدل گیا تو امید کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت فوج اور سویلینز کے قابل اعتراض اختلاط سے اجتناب برتے گی۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی معاملات میں فوج کے کردار کو ایک درجہ مزید بڑھا دیا ہے۔
آئندہ جو سرکاری ملازم بھرتی کئے جائیں گے، یا جن سول افسران کو کسی عہدے میں ترقی دیناہو گی، ان کی ساکھ بارے آئی ایس آئی منظوری دے گی۔ آئی ایس آئی جن کی اسکرینگ کرے گی ان میں سپریم کورٹ کے جج، اعلیٰ سول افسران، یونیورسٹی اساتذہ اور بہت سے دیگر بھی شامل ہیں۔
بہت سے خفیہ ادارے…سی آئی اے، کے جی بی، موساد بشمول را…غیر ملکی آپریشنوں پر نظر رکھتے ہیں، کاؤنٹر انٹیلی جنس مہیا کرتے ہیں، سلیپر سیل بے نقاب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہر ملک میں حکمرانوں کے دل میں یہ خواہش جاگتی ہے کہ سیاسی مخالفین کو ملک دشمن قرار دے کر، ان سے نپٹنے کے لئے خفیہ اداروں کی مدد حاصل کی جائے۔ جہاں جمہوری روایات مضبوط ہوں وہاں اس طرح کی خواہشات پر عمل درآمد ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان میں البتہ جمہوریت اس حالت میں نہیں۔ حکومت کا نیا حکم نامہ جس کے تحت سرکاری نوعیت کے معاملات میں آئی ایس آئی کے کردار کو قانونی شکل دیدی گئی ہے، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
ایک آدھ فتنہ پرور کلبھوشن یادیو کو ادہر ادہر سے پکڑنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ اس کے لئے تو اسرائیل کا بنایا ہوا سافٹ وئیر پیگاسس کئی معجزے دکھا سکتا ہے۔ جو لوگ یہاں پیدا ہوئے اور اسی ملک میں رہتے ہیں، خود کو محب وطن مگر آزاد شہری سمجھتے ہیں، ان کی حب الوطنی کو ناپنا تولنا تھوڑا پیچیدہ کام ہے۔ کسی خفیہ ادارے کے پاس یہ طاقت ہے نہ صلاحیت کہ وہ حب الوطنی کی تعریف یا معیار مقرر کر سکے۔ ایجنسیوں کا کام ہے کہ وہ آئین کی اس انداز سے پاسداری کریں جس انداز میں پارلیمنٹ یا عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے۔
خیر بات سے بات نکلتی ہے۔
کیا ’پاکستان دشمن‘ سے مراد وہ عناصر ہیں جو پاکستانی عوام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں یا وہ لوگ جو ریاست کی کسی مخصوص پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے؟ جس طرح سے ملک کی امیر اشرافیہ اور طاقتور حلقوں نے ملکی وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے اس کے نتیجے میں قومی مفاد اور انفرادی یا محکمانہ مفادات کے مابین فرق مٹ چکا ہے۔ یہ کہ ملک کو چور ڈاکو چلا رہے ہیں ایک ایسا گھسا پٹا الزام ہے جو ہر کوئی اپنے سیاسی مخالف پر تھونپ دیتا ہے۔ اس کے باوجود جب کچھ صحافی یا اندر ونی ذرائع بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں تو ایسے لوگوں کو قابل تقلید مثال قرار دینے کی بجائے انہیں ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پیچیدہ بات یہ ہے کہ بعض ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو ’ملک دشمن‘ قرار دیدیا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بلا توقف ایک دوسرے کو غدار اور دشمن ملک کا ایجنٹ اور کٹھ پتلی قرار دینے میں دن رات مشغول رہتی ہیں۔ مذہب کے نام پر ہونے والی مسلح جدوجہد کے سوال پر فوج، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اختلاف موجود ہے۔ درمیانے عہدے پر تعینات خفیہ ادارے کا ایک اہلکار اس بات کا تعین کیسے کرے گا کہ کون ملک دشمن ہے اور کون محب وطن؟ اس قسم کے فیصلے اس کے پے گریڈ سے کہیں بالاتر ہیں۔
مندرجہ ذیل مثالیں واضح کریں گی کہ یہ سارا مسئلہ کس قدر گھمبیر ہے۔
مثال: اپنی تقریروں میں سابق وزیر اعظم عمران خان یہ دہائی دے رہے ہیں کہ فوج، جس نے انہیں مسند اقتدار تک پہنچایا، اپنی غیر جانبداری ختم کرتے ہوئے ایک بار پھر انہیں ایوانِ اقتدار میں واپس پہنچائے ورنہ ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ انہوں نے فوج کے سپاہیوں کو عندیہ دیاہے کہ وہ اپنی قیادت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیں جبکہ فوجیوں کے خاندانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے ’ملین مارچ‘ میں شریک ہوں۔ کچھ لوگوں کی نظر میں یہ سیدھی سیدھی بغاوت ہے۔ کیا خان اور ان کے حامیوں اور کاسہ لیسوں پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے؟ یا ان کو معصوم قرار دے دیا جائے؟
مثال: دسمبر 2019ء میں یو کے نیشنل کرائم ایجنسی کی دستاویزات کی روشنی میں یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ، بد عنوانی اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت تفتیش کی جائے۔ تین سال بعد نیشنل کرائم ایجنسی نے فیصلہ کیا کہ شہباز شریف کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ نواز لیگ نے اس فیصلے کو اپنی جیت قرار دیا۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ مقدمے کی واپسی کا مطلب یہ نہیں کہ شہباز شریف بری ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف، شائد درست طور پر، بیرون ملک شہباز شریف کی ایک بڑی جائیداد پر انگلی اٹھا رہی ہے۔ جب تک ان الزامات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، کیا موجودہ وزیر اعظم کو محب وطن سمجھا اور کہا جائے؟
مثال: سکیورٹی اداروں کا فریضہ ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کریں مگر ان اداروں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بے شمار پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کا خون بہانے والے احسان اللہ احسان کی مثال قابل ِغور ہے۔ کیا ہمارے سکیورٹی اداروں نے اپنی صفوں سے ایسے عناصر کو نکال دیا ہے جنہوں نے ایک انتہائی حساس جیل سے اس دہشت گرد کو ترکی فرار کروا دیا؟ کیا خفیہ اداروں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنی بھی مانیٹرنگ کر سکیں؟ اور وہ یہ ثابت کر سکیں کہ ان کی صفوں میں موجود ہر اہل کار محب وطن ہے؟
مثال: بلوچوں کا تعلق ایک کثیر اللسانی ریاست سے ہے مگر ان کو شکوہ ہے کہ پنجابی ان سے زیادتی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بلوچ کی اس شکایت کے نتیجے میں بلوچستان اندر چار دفعہ مسلح جدوجہد جنم لے چکی ہے۔ بلوچ کے کچھ شکوے جائز ہیں، کچھ نا انصافیوں بارے تصورات قائم کر لئے گئے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے فاٹا سے تعلق رکھنے والے قبائلی لوگوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھا جائے۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو غدار قرار دے کر اس پر جبر کیا گیا۔ پاکستان کی ’مضافاتی‘ قومیتوں کی حب الوطنی جانچنے کے لئے کیا ایسے خفیہ ادارے کو متعین کرنا عقل مندی ہے کہ جس کے زیادہ تر اہل کار پنجابی ہیں؟ کیا اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کی قومی شناخت تعمیر ہو گی یا مسائل سے دو چار؟
پاکستان کو بنے 75 سال ہو چکے ہیں۔ آج بھی پنجاب کے سوا، یہ احساس عام ہے کہ یہاں کے شہری ایک قوم نہیں بن سکے۔ ہزاروں لاپتہ افراد قوم کے ضمیر پر بوجھ ہیں۔ عمران خان کی شعلہ بیانیاں اپنی جگہ ملک کو تقسیم کر رہی ہیں لیکن دراڑیں تو مذہبی، لسانی اور سیاسی سطح پر بھی واضح ہیں۔ اسلام آباد پر ٹی ایل پی کی یلغار اس بات کی غماز ہے کہ تشدد کو معمول کی بات بنا دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس، بنگلہ دیش میں بھی گروہی لڑائیاں موجود ہیں مگر وہاں اتنا تشدد نہیں ہے۔ وہاں بڑی بڑی ترجیحات کے حوالے سے ایک قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش یکسوئی کے ساتھ تجارت، مینوفیکچرنگ اور شہریوں کی فلاح و بہبود میں مصروف ہے۔ ایسے میں کہ جب پاکستان پر مایوسیوں کے بادل چھائے ہیں، اس کی سابق ’کالونی‘ بنگلہ دیش اپنے روشن مستقبل کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش سکیورٹی سٹیٹ نہیں ہے۔ وہاں مضبوط فوج پر مضبوط ملک کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ وہاں ہر کونے پر خفیہ والے ناکے لگا کر شہریوں کی حب الوطنی کا معائنہ نہیں کرتے۔ شروع کے چار پانچ سال وہاں بھی مسائل رہے۔ اس کے بعد فوج کی مداخلت کم ہوتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی وحدانیت پیدا ہوئی اور شہریوں کی فلاح و بہبود کا آغاز ہوا۔
پاکستان کو بنگلہ دیش سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ہم اپنی توانائیاں کشمیر آزاد کرانے اور انڈیا کا مقابلہ کرنے پر ضائع نہیں کر سکتے۔ اسی بہانے تو سکیورٹی سٹیٹ ہم پر حاوی ہو ئی ہے۔ انسانی اور معاشی ترقی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی کی بہت تعریف کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بہت فعال ادارہ ہے۔ اس کے باوجود آئی ایس آئی کی اس حوالے سے کوئی تربیت موجود نہیں کہ وہ پاکستان کو خوش حال بنا دے اور عالمی سطح پر پاکستان کو ایک طاقتور ملک بنا دے۔ اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ زیادتی ہے۔ شہباز شریف اپنا فیصلہ واپس لیں۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت یہی ہے کہ یہاں ایک ایسی جمہوریت چلتی رہے جس میں فرشتے ووٹ نہ ڈالیں۔