فاروق طارق
اس بات سے ہم پہلے سے ہی آگاہ تھے کہ پاکستانی حکمران اب بجلی مہنگی کریں گے اور یہ اضافہ بہت زیادہ ہو گا، وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 1.95 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا۔ اسد عمر جس ڈھٹائی سے یہ اعلان کیا کہ قیمتوں میں 2.18 روپے اضافہ کرنا تھا لیکن عوام کا خیال کرتے ہوئے 1.95 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کی گئی، یہ بیان اس ملک پر مسلط حکمران ٹولے کی ذہنی کیفیت اور سفاکیت کو بھی عیاں کر رہا ہے۔
براڈ شیٹ کو نیب نااہلی سے جو جرمانہ ادا کرنا پڑا، جو بھاری جرمانہ ریکو ڈک میں ہوا، جو پی آئی اے طیارہ کو چھڑانے میں رقم لگے گی اور سب سے بڑھ کر جو آئی ایم ایف سے وعدہ کیا کہ ہر ماہ بجلی کی قیمت بڑھائیں گے۔ یہ سب پورا کرنے کے لئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کچھ پیسے نہیں بلکہ تقریباً 2 روپے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
یہ عوام دشمن ٹولہ اقتدار میں ہے۔ جو سرمایہ دار، جاگیردار طبقات اور سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اداروں کے مالی مفادات کے تحفظ اور انکے منافعوں میں اضافہ کے لئے آیا ہے۔ باقی سب بیانئے دھوکہ دہی ہیں۔ این آر او، سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے وغیرہ وغیرہ…عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہیں۔
حقیقت یہ کہ ٓائی ایم ایف کو پیسے دینے ہیں۔ غیر ملکی قرضے تیزی سے ادا کرنے ہیں۔ فوجی اخراجات قائم اور بڑھانے ہیں۔ اس کے لئے کبھی گیس مہنگی اور کبھی آئل اور بجلی مہنگی کرنی پڑے گی۔
بجلی کی قیمتوں میں موجودہ اضافے کے ذریعے عوام پر 200 ارب روپے کا معاشی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ان حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال بجلی کی قیمتوں میں بیس فیصد اضافہ کرینگے، یہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرضہ لینے کی بنیادی شرائط میں بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شق شامل تھی کیونکہ آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کو یہ معلوم ہے کہ قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوا کر ہی کی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں بجلی کی قیمتوں میں 20 مرتبہ اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اپنے پیسے وصول کرنے کیلئے اپنے ہی بندے بھیجے ہوئے ہیں۔ حفیظ شیخ اور رضا باقر دونوں یقینی بنا رہے ہیں کہ یہ حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے مسلسل واپس کرتی رہے۔ ان دونوں نے گزشتہ سال 2020ء میں 2019ء سے پچیس فیصد زیادہ قرضہ واپس کیا ہے۔ یہ حکومت تیز ترین قرضے لینے اور قرضے واپس کرنے کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
غیر ملکی قرضے کم از کم چار سال کے لئے ادا کرنے بند کر کے یہ رقم عوام کی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے استعمال کی جانی چاہیے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دینا چاہیے۔
نجکاری کا سلسلہ فوری طورپر بندی کیا جانا چاہیے اور بالخصوص بجلی کے انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ یہ پلانٹس لگائے ہی غلط معاہدوں کے تحت گئے تھے، ان سے سستی بجلی پیدا ہو ہی نہیں سکتی، تیل اور گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بند کر کے شمسی توانائی، ہوا، چھوٹے ڈیمز کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھا کر اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔
ریاستی سطح پر صحت اور تعلیم کی عوام کو مفت فراہمی، فوجی اخراجات میں ہر سال کم از کم 10 فیصد کم کرنے کے علاوہ دیگر تجویز کردہ اقدمات سے معیشت درست راستے پر گامزن ہو سکتی ہے۔