فاروق سلہریا
مارکسزم کے خلاف پراپیگنڈے کا جو کام کبھی جماعت اسلامی سر انجام دیا کرتی تھی، یوں لگتا ہے کہ یہ ذمہ داری اب کچھ لبرل دوستوں نے سنبھال لی ہے۔ اس کی تازہ مثال قابل احترام وجاہت مسعود کا کالم ہے 6 جولائی کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ کالم کا عنوان تھا: ’ایاز امیر کا خواب اور چے گویرا‘۔
وجاہت مسعود کا یہ کالم ’روزنامہ جدوجہد‘میں شائع ہونے والے ایک کالم،بعنوان: ’ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے،نام چے گویرا کا لے رہے ہیں‘، کو بنیاد بنا کر لکھا گیا۔
وجاہت مسعود عمر بھر انسانی حقوق،بالخصوص مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے،قابل ستائش جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ان کی جدوجہد اور کمٹمنٹ کی وجہ سے، راقم سمیت،ہزارہا سیاسی کارکن انہیں بجا طور پر تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کالم کا مقصد محض کامریڈلی بحث کو آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اپنے جمہوری روئیے کی وجہ سے وجاہت مسعود بھی اس بحث کو اسی جذبے کے ساتھ دیکھیں گے۔
ایک بات کا ذکر ابتدائی طور پر کرنا ضروری ہے: وجاہت مسعود نے چے گویرا کے بارے میں جو دعوے کئے ہیں، ان کے ماخذ کیا ہیں؟ اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ امید ہے اپنے اگلے کالم میں اپنی معلومات بارے اپنے سورس بھی وضاحت سے بتائیں گے۔
اپنے کالم میں وجاہت مسعود نے بے شمار دعوے کئے ہیں جن کا حقائق سے زیادہ نظریاتی تعصب سے تعلق ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ آنے والے دنوں میں تین یا چار اقساط میں جواب دیا جائے۔ آج کی ابتدائی قسط میں وجاہت مسعود کے اس دعوے کا جواب دینے کی کوشش ہوگی کہ چے گویرا ایک ’بزدل‘انسان تھا۔
وجاہت مسعود لکھتے ہیں:’بولیویا میں گرفتاری کے بعد چے گویرا کی بہادری محض ایک افسانہ ہے۔ دراصل اس نے روتے ہوئے کہا تھا”پلیز گولی مت مارنا۔میں چے گویرا ہوں۔زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ مفید ثابت ہوں گا“۔
چے کے بارے میں یہ دعویٰ فیلیکس رودریگیز (Felix Rodriguez)کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ کیوبن نژاد رودریگیز سی آئی اے کا ایجنٹ تھا جو چے گویرا کی گرفتاری کے خفیہ مشن کی نگرانی کر رہا تھا۔
وجاہت مسعود نے رودریگیز کا بیان نقل کرنا مناسب سمجھا لیکن بولیوین فوج کے سارجنٹ،ماریوتیران سالازار (Mario Teran Salazar)، کے انٹرویو کا حوالہ نہیں دیا۔ ماریو تیران وہ شخص تھا جس نے چے گویرا کو گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔ چے گویرا اور انقلاب کیوبا سے نفرت کرنے والے افراد کی بدقسمتی کہ ماریو تیران نے اس واقعہ بارے خود ایک انٹرویو میں چے گویرا کی ’بزدلی‘ کی تصویر کشی کی ہے۔
ماریوتیران کا یہ انٹرویو ’پیرس میچ‘ نامی جریدے میں شائع ہوا۔یہ انٹرویو سویڈش سمیت دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوا (یاد رہے،سویڈش زبان میں ترجمہ درست طور پر نہیں ہوا۔خیر)۔وجاہت صاحب کا شکریہ کہ اس انٹرویو کو اب اردو میں دوبارہ بھی پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے(حوالہ ذیل میں پیش کیا جائے گا)۔ اس انٹرویو میں ماریوتیران نے ’پیرس میچ‘ کو بتایا:
”یہ میری زندگی کا بد ترین لمحہ تھا۔ اس لمحے میں چے کوئی بہت بڑا،کوئی دیو ہیکل شخص دکھائی دے رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ مجھے لگا وہ میرے سر پر سوار ہے اور جب اس نے مجھے گھورا تو مجھے چکر آنے لگا۔ مجھے لگا کہ چے ایک جھٹکے سے میری بندوق مجھ سے چھین لے گا۔چے نے مجھے کہا ’نروس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اچھی طرح نشانہ لو۔ تم ایک انسان کو جان سے مارنے جا رہے ہو‘۔“
چے کی گرفتاری کے وقت کیا ہوا،کیا کہا گیا۔۔۔اس بابت بے شمار دعوے پائے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے چے گویرا بارے درجن سے زائد سکالرلی سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں۔ آئندہ بھی لکھی جائیں گی۔ چے گویرا کو پسند کرنے والوں نے بھی لکھیں۔اس سے نفرت کرنے والوں نے بھی۔
اس سے نفرت کرنے والوں کو رودریگیز کا بیان ہمیشہ نظر آیا۔ ویسے راقم کی نظر سے آج تک یہ نہیں گزرا کہ چے گویرا رو بھی پڑا تھالیکن راقم کو ہرگز یہ دعوی نہیں کہ اس نے چے گویرا بارے ہر تحریر پڑھ رکھی ہے۔ چے گویرا کی گرفتاری کے وقت رونے بابت وجاہت مسعود صاحب نے کہاں سے اخذ کیا، اس بارے ہمیں امید ہے وہ اپنے اگلے کالم میں ضرور بتائیں گے۔
چے گویرا کی گرفتاری بارے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات بھی ڈی کلاسیفائی ہو چکی ہیں۔ ان میں بھی چے گویرا کو رلانے کا خیال کسی کو نہیں آیا۔
ضمناً پاکستان کا بھی ذکر ہو جائے جہاں شہید ذولفقار علی بھٹو بارے بھارتی قید میں تین سال گزارنے والے فوجی بھی نفرت سے کہا کرتے تھے کہ پھانسی گھاٹ پہنچتے پہنچتے بھٹو بے ہوش ہو گیا تھا۔
جس طرح ضیائی آمریت کا غلیظ پراپیگنڈہ بھٹو سے وہ شان نہیں چھین سکا جس دھج سے وہ مقتل گیا تھا اسی طرح خوفناک حد تک وحشی ایمپائر(امریکہ) خوفناک حد تک خوبصورت چے گویرا کے اس امیج سے پیچھا نہیں چھڑا سکی جسے دنیا بھر میں مظلوم لوگ مزاحمت کی علامت کے طور پر پرچم اورپوسٹر بناکر اٹھائے پھرتے ہیں۔ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو اس پراپیگنڈے سے فرق نہیں پڑتا کہ چے نے ہنستے ہوئے گرفتاری دی تھی یا بقول وجاہت مسعود روتے ہوئے۔ ان کی اکثریت نے شائد ماریوتیران کا انٹرویو بھی نہ پڑھا ہو۔ انہیں اس لئے فرق نہیں پڑتا کہ تاریخ بھٹو، بھگت سنگھ اور چے گویرا کے بارے میں فیصلہ دے چکی ہے۔
ایک اہم نقطہ: چے گویرا کو انقلاب کیوبا سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ نقطہ آئندہ اقساط میں ہمارے بیانئے کی بنیاد ہو گا لیکن موجودہ قسط ختم کرنے سے پہلے اس نقطے کی روشنی میں وجاہت مسعود کو مندرجہ ذیل واقعہ یاد دلانا باعث دلچسپی کا باعث ہو گا کیونکہ جس قدر خونی،وحشی اور بربریت سے بھرپور چے گویرا وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں پینٹ کیا ہے اس کا حقائق سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران ریاض کا آزادی صحافت سے۔
یہ واقعہ ہم نے ماریوتیران کی موت کی خبر دیتے ہوئے ’روزنامہ جدوجہد‘ میں بھی رپورٹ کیا تھا۔ ماریو تیران اسی سال مارچ میں فوت ہوا۔
وجاہت مسعود صاحب کو یاد ہو گا کہ 2007 ء تک بولیویا میں سوشلسٹ صدر ایوو مورالس کی حکومت بن چکی تھی۔ ادھر وینزویلا میں ہیوگو شاویز اپنے عروج پر تھے۔ دونوں ہی فخر سے چے گویرا کی شرٹ پہنتے تھے۔ وینزویلا کی مدد سے کیوبا نے ایک پروگرام شروع کیا جس کے تحت لاطینی امریکہ کے ملکوں میں کیوبن ڈاکٹر گاؤں گاؤں محلے محلے جا کر علاج کرتے۔
اسی پروگرام کے تحت ایک کیوبن میڈیکل برگیڈ بولیویا بھی پہنچا۔ ایک دن ان کے پاس ماریو تیران کو لایا گیا جس کی بینائی جا رہی تھی۔ کیوبن ڈاکٹرز نے، کاسترو کے علاوہ، اپنے ملک کے سب سے بڑے ہیرو کے قاتل کا علاج کیا اور اسے اس کی بینائی واپس دلا دی۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد کیوبن کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار ’گرینما‘ نے لکھا: ”چالیس سال پہلے ماریو نے ایک آدرش اور ایک خواب کو مٹانے کی کوشش کی تھی مگر چے ایک بار پھر جیت گیا…ایک بوڑھا آدمی ایک مرتبہ پھر آسمان کا نیلا پن، درختوں کا ہرا پن۔ اپنے پوتوں کی مسکراہٹ اور فٹ بال میچ دیکھ سکے گا“۔
وجاہت مسعود صاحب! معلوم ہے برطانوی گارڈین کا اس واقعہ پر کیا تبصرہ تھا؟
گارڈین کو گلہ تھا کہ کیوبا اس واقعہ کو ’پراپیگنڈہ کو‘ (Propaganda Coup)کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ معلوم نہیں کیوں گارڈین اس موقع پر کیوبا کو بزدلی کا طعنہ دینا بھول گیا۔ بہادری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ماریو تیران کو بھی کیوبا اسی طرح جان سے مار دیتا جس طرح لبرل جمہوری امریکہ نے ایبٹ آباد میں گھس کر ایک قاتل کو مارا تھا۔
(تاخیر ہو گی مگر، جاری ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔