دنیا

سری لنکن صدر فرار: تمام اہم سرکاری عمارتوں پر’عوامی جدوجہد‘ کا قبضہ

فاروق طارق

سری لنکا کے صدر گوٹا بایا راجہ پکسا کولمبو ائیر پورٹ سے فرار ہونے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ائیر فورس کے طیارے میں اپنی اہلیہ اور دو گارڈز کے ساتھ مالدیپ بھاگ گئے۔ وہ اور ان کے وزیر خزانہ بھائی پوری رات کولمبو ائیرپورٹ پر امیگریشن اٹھاریٹیز سے وی آئی پی سہولت مانگتے رہے اور امیگریشن افسران ڈٹ گئے کہ اگر ملک چھوڑنا ہے تو عام لوگوں کی لائن میں لگ کر امیگریشن کرائیں۔ صدر اور ان کے بھائی کو معلوم تھا کہ اگر وہ عوام میں آ گئے تو چھترول ہو گی، پھر وہ ائیر فورس کی مدد سے فرار ہوئے۔

اس سے قبل عوام کی تحریک ”گوٹا گو ہوم“ کے نتیجہ میں صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ 13 جولائی کو باضابطہ طور پر استعفیٰ دے دیں گے، مگر اس روز انہوں نے استعفیٰ کی بجائے ملک سے فرار ہونے کو ترجیح دی۔ وہ اس سے قبل بار بار مستعفی ہونے سے انکار کر رہے تھے، مگر 9 جولائی کو جب لاکھوں افراد نے صدارتی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا، تو وہ اس قبضہ سے تھوڑی دیر پہلے ہی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور عوام کے ہتھے چڑھنے سے بچ گئے۔

صدر کا دفتر تو تین ماہ سے ہی عوام کے قبضہ میں تھا، اب رہائش بھی عوام کے پاس آ گئی ہے اور وزیر اعظم ہاؤس پر بھی عوام نے کنٹرول حاصل کیا ہوا تھا۔ یعنی ریاستی اتھارٹی کی تین اہم عمارتیں عوام کے کنٹرول میں آ چکی ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ عوام نے 20,000 پولیس کی شیلنگ، فائرنگ اور لاٹھی چارج کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کو تہس نہس کرتے ہوئے صدارتی رہائش گاہ پر قبضہ کیا، تو پوری دنیا کا سوشل اور مین سٹریم میڈیا عوام کے صدارتی محل میں داخل ہونے اور اندر جا کر انجوائے کرنے کے مناظر دکھاتا رہا۔ یہ عوامی طاقت کا غیر عمومی اظہار تھا۔

کون سوچ سکتا تھا کہ انتہائی آمر شخص جو 2019ء میں صدر منتخب ہونے سے قبل 2009ء میں تامل بغاوت کو کچلنے کے لئے مشہور تھا، کبھی اقتدار سے علیحدہ ہو گا۔

راجا پاکسا خاندان کا عروج اس وقت شروع ہوا، جب 2005ء میں موجودہ صدر کے بھائی مہندا راجا پاکسا کو صدارتی انتخاب میں جیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے فوری طور پر سری لنکا میں میگا انفراسٹرکچر پراجیکٹس کا آغاز غیر معمولی غیر ملکی قرضہ جات کے حصول سے شروع کیا۔ ٹائیگر ایلام کی لبریشن ٹائیگر کی 26 سالہ تامل مزاحمت کو کچلا اور سنہالا بدھ مت قوم پرستی کے تعصب پرست نعرے کو پائیداری سے مضبوط کیا، جو یورپین 443 سالہ نو آبادیاتی غلامی کے بعد سری لنکا کے ریاستی نظریات بن چکے تھے۔ سنہالا آبادی سری لنکا کی کل 22 ملین آبادی کا 75 فیصد ہے۔

ملک سے فرار ہونے والے صدر عام طور پر ماڈرن سری لنکا کی اہم تعمیرات کرنے اور کولمبو کی بیوٹیفیکیشن کے ذمہ دار قرار دیئے جاتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے کولمبو کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے بے دردی سے غریبوں کے گھروں کو مسمار کر دیا تھا۔ انہیں بزنس کمیونٹی پارٹی سیاست سے اوپر سمجھ کے حمایت کرتی تھی۔

نومبر 2019ء کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے 6.9 ملین ووٹ حاصل کئے، جو کل ووٹوں کا 52 فیصد تھا۔ راجا پاکسا خاندان نے کچھ دن قبل ہی اپنی سابقہ پارٹی سری لنکا فریڈم پارٹی (SLFP) چھوڑ کر نئی پارٹی سری لنکا پیپلز فرنٹ (SLPP) کی تشکیل کی تھی، جس نے اگست 2020ء کے پارلیمانی انتخابات میں 59 فیصد ووٹ لئے اور 225 ممبران کی پارلیمنٹ میں 145 سیٹیں جیت لی تھیں۔ دو تہائی اکثریت سے تھوڑی کم اکثریت کے باوجود اتحادیوں کی مدد سے آئین میں صدر کو مزید اختیارات دینے کی آئینی ترامیم منظور کرا لی تھیں۔

موجودہ صدر کے بھائی مہندرہ راجا پاکسا، جو سابقہ صدر تھے، اب نئے وزیر اعظم بن گئے، یعنی ایک بھائی صدر دوسرا وزیر اعظم، تیسرا وزیر خزانہ، چوتھا بھی ایک وزیر اور ایک بھانجا بھی وزیر بن گیا۔ راجا پاکسا خاندان سری لنکا کی سیاست پر پچھلی دو دھائیوں سے چھایا ہوا تھا۔ اس عوامی جدوجہد، جس کا مطالبہ تھا کہ راجا پاکسا خاندان اقتدار چھوڑے، کے نتیجہ میں پہلے دو وزیر بھائیوں نے استعفے دئیے، عوام اس سے مطمئن نہ ہوئے پھر 9 مئی کو تحریک تیز ہونے پر وزیر اعظم مہندرہ راجا پاکسا مستعفی ہوئے۔ عوام پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ”گوٹا گو ہوم“ کا نعرہ تیزی اختیار کرتا گیا۔ اب راجا پاکسا خاندان کی آمریت کا آخری ستون 72 سالہ صدر گوٹا راجا پاکسا بھی رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ سب ہے جو کبھی ایک سال قبل سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔ عوامی تحریکوں کی کامیابی ناممکن کو ممکن بنانے میں دیر نہیں کرتی۔

9 مئی کو مہندرہ راجا پاکسا کے بطور وزیر اعظم استعفیٰ کے بعد اپوزیشن رہنما رانیل وکرما سنگھے کو 12 مئی کو وزیر اعظم بنا کر بھی تحریک کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔ رانیل وکرما سنگھے اب کی بار پانچویں دفعہ وزیر اعظم بنے تھے۔ ان کی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (UNP) سری لنکا کی کنزرویٹو بورژوازی کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ وزیر اعظم عوام کو یقین دہانیاں کراتے رہے کہ آئی ایم ایف میری بات مان کر سری لنکا کو ایک امدادی پیکیج کے ذریعے موجودہ بحران سے نکال لے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اب یہ صدر کے فرار ہونے پر عبوری صدر بھی بن چکے ہیں۔

عوامی جدوجہد کو دبانے کی ہر ریاستی کوشش ناکام ہوئی ہے۔ فروری 2022ء میں چند محنت کشوں نے روز روز کی مہنگائی، بجلی اور آئل کی لوڈ شیڈنگ اور خوراک کی اشیا کی کم دستیابی کے خلاف روزانہ ایک سے دو گھنٹے تک کولمبو کے نواح میں موم بتیاں جلا کر اس احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ اس میں پھر اور لوگ شامل ہوتے گئے اور انہوں نے بھی اپنے علاقوں میں موم بتی احتجاج کا آغاز کر دیا۔ مارچ کے آخر تک یہ موم بتی احتجاج اتنا پھیل گیا تھا کہ اس نے مین سٹریم میڈیا کی توجہ بھی حاصل کر لی۔ اب لوگوں نے موم بتیوں کے ساتھ ساتھ ٹارچ لائٹ بھی جلانی شروع کر دی تھی، کہ یہ اندھیرے میں روشنی کی علامت ہے۔

تحریک نے ابتدائی طور پر وزیر خزانہ اور سٹیٹ بینک گورنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا، کہ یہ معیشت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ 80 ارب ڈالر کی سری لنکا کی کل معیشت ہے، مگر اس نے 56 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ حاصل کیا ہوا تھا۔ تحریک کا ایک مسلسل نعرہ چوری شدہ رقم ملک واپس لانے کا بھی تھا۔ راجا پاکسا خاندان پر الزام تھا کہ وہ اربوں ڈالر ملک سے باہر لے گئے ہیں۔

اس تحریک میں کوئی ایک غالب رہنما نہیں ہے۔ کوئی کرشماتی رہنما نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی سرکاری ترجمان ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کی شروع کردہ تحریک نہیں ہے۔ ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی اس میں مسلسل شمولیت رہی ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر ان نوجوان پروفیشنلز نے شروع کی جو خود ہی اپنے باس تھے، مگر بگڑتی معیشت نے انہیں سب سے پہلے تباہ کیا تھا۔ منظم لیفٹ جس میں بائیں بازو کی پیپلز لبریشن فرنٹ (JVP) اس میں مسلسل شریک رہی ہے اور اس سے علیحدہ ہونے والی پی ایس پی (فرنٹ لائن سوشلسٹ پارٹی) بھی شامل ہے، جو اس تحریک کے آغاز سے اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں پارٹیوں کے طالب علم ونگ اور دیگر طالب علم تنظیمیں بھی تحریک میں پیش پیش ہیں۔

اب اس میں ٹریڈ یونین تحریک بھی شامل ہو گئی ہے۔ تحریک میں تیزی اس وقت بھی ہوئی،جب ’JVP‘ کے نیشنل ٹریڈ یونین سنٹر اور کسانوں کی عالمی تنظیم سے منسلک مومنٹ فار لینڈ اینڈ ایگریکلچر ریفارمز (MOLNAR) نے مل کر ملک بھر میں 28 اپریل اور 6 مئی کودو کامیاب عام ہڑتالیں کرائیں۔ جس نے ملک کی آخری 1980ء کی عام ہڑتال کی یادیں تازہ کر دیں۔ ان کامیاب ملک گیر عام ہڑتالوں نے حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ مزدوروں اور کسانوں کی یہ عام ہڑتالیں حکومت کے لئے دفاتر پر قبضوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ محبت کش طبقہ نے ایک آمرانہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کیلئے اپنی کمر کس لی تھی۔ یہ تحریک اب نئے مطالبات بھی سامنے لا رہی ہے۔ ماضی کے تامل مخالف فوجی اقدامت بھی اب زیر بحث ہیں اور لاپتہ افراد کا ایشو بھی۔

سری لنکا میں 1948ء میں اس کی آزادی کے بعد، یہ اب تک کا سب سے شدید معاشی بحران ہے، جو 2019ء میں شروع ہوا۔ اس کے نتیجہ میں غیر معمولی افراط زر ہوئی، غیر ملکی زرمبادلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سری لنکن روپیہ، جو پچھلے سال اکتوبر میں ایک ڈالر میں دو سو روپے تک کئی ماہ چلتا رہا، اب 13 جولائی کو ایک ڈالر 347 روپے تک جا پہنچا ہے۔ میڈیکل سپلائیز کی شدید کمی ہے۔ سری لنکا کو اس سال تک تقریباً 6 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ اتارنا تھا، مگر اپریل 2022ء میں سری لنکا حکومت نے معاشی دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا، کہ اس کے پاس اب یہ رقم ادا کرنے کی کوئی سکت نہیں ہے۔ قرضہ جات کے مسلسل بڑھنے، اپریل 2019ء میں کرسچین چرچوں پر مذہبی جنونیوں کے حملوں، کرونا کی وبا کے تیزی سے پھیلنے اور آمرانہ اقدامات نے معاشی بحران کو اب سیاسی بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ سرمایہ داری نظام شدید مشکلات کا شکار ہے، حکمرانوں کی کوئی تدبیر کام نہیں آ رہی۔ صدر بھاگ گیا ہے آدھی کابینہ بھاگی ہوئی ہے۔ چل چلاؤ جاری ہے مگر تحریک بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ تحریک اب معاشی راستہ تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔ صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سری لنکا عوام کی ایک تاریخی فتح کے نزدیک کھڑا ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔