فاروق سلہریا
منیر نیازی کی مشہور نظم ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں“ کا سیاق و سباق اور مفہوم تو بہت ہی شاعرانہ اور فلسفیانہ ہے مگر پاکستان میں اکثریت نے اسے اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے۔ مجال ہے کبھی کوئی وقت پر پہنچے اور تو اور دلہا میاں جن کی شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ اپنے ہی نکاح پر دو چار گھنٹے کی تاخیر سے پہنچتے ہیں۔
ویسے تو ’PST‘ پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم (Pakistan Standard Time) کا مخفف ہے مگر اصل میں ہم اس سے ’Pakistan Stretchable Time‘ مراد لیتے ہیں۔
ذاتی طور پر میرے لئے سب سے زیادہ الجھن اور شرمندگی کا باعث تب ہوتا ہے جب بائیں بازو کے اجلاس بھی تاخیر سے شروع ہوتے ہیں۔ میں نے ایک بار ٹراٹسکی کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ وقت کی پابندی کے حوالے سے اس قدر سخت تھا کہ اجلاس شروع ہوتے ہی کمرہ اندر سے بند کر دیتا تا کہ دیر سے آنے والے کامریڈ اس اجلاس میں ہی شریک نہ ہو سکیں۔ ٹراٹسکی دیر سے آنے والے کامریڈز کو بتاتا کہ بالشویک نظم و ضبط کے پکے تھے، انہوں نے بر وقت انقلاب کر دیا، اگر وہ دیر کر دیتے تو انقلاب کتنے ہی سال کے لئے موخرہو سکتا تھا۔
میں سویڈن اور برطانیہ میں ٹریڈ یونین اور سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کرتا رہا ہوں کیونکہ میں دونوں ممالک میں ٹریڈ یونین اور فورتھ انٹرنیشنل کے سیکشنز کا رکن رہا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی ساتھی کسی سیشن میں دیر سے آتا تو بحث میں حصہ نہ لیتا۔ بعد ازاں، مجھے احساس ہوا کہ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ غیر جمہوری عمل ہے اگر کوئی دیر سے بھی آئے اور اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا چاہے کیونکہ اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کی غیر موجودگی میں کیا بات ہوئی ہے۔
ویسے یہ مسئلہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ مجھے اپنی تحقیق کے سلسلے میں چھ ماہ تک ہندوستان میں رہنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ میں افغانستان میں بھی کئی کئی مہینے رہتا رہا ہوں۔ ان دو ممالک سے زیادہ واقفیت ہے۔ یہاں بھی صورتحال پاکستان جیسی ہے۔ تھوڑا بہت دیگر ایشیائی و افریقی ممالک میں گھومنے کا موقع ملا۔ وہاں بھی وقت کی پابندی اس طرح سے نہیں ہوتی جس طرح یورپ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس فرق کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
دلیل پر مبنی کوئی حتمی جواب تو میرے پاس نہیں ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں۔ میری رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ممالک اور معاشرے جدیدیت (صنعت کاری اس کا ایک پہلو ہے) اور روشن خیالی (Enlightenment) کے عمل سے نہیں گزرے، وہ اس ثقافتی بیماری کا شکار ہیں۔ کیلنڈر، پیمائش، چوبیس گھنٹے کا دن…یہ صنعت کاری اور جدیدیت کی بنیادی علامت ہیں۔ جدیدیت کی ایک اہم پیش رفت سٹینڈرڈائزیشن تھی۔ گھنٹے، منٹ، سیکنڈ کی پیمائش کے بغیر سرمایہ دارانہ جدیدیت ممکن نہیں تھی۔ مزدور کتنے گھنٹے کام کرے گا، کتنے منٹ کی لنچ بریک لے گا، کب گھر جائے گا، کب فیکٹری یا دفتر پہنچے گا…اس سب کی پیمائش کے بغیر منافع بڑھانا ممکن نہ ہوتا۔ بہرحال، بعض دیگر بورژوا ثقافتی معمولات کی طرح، یہ نظم و ضبط بھی ایک ایسی وراثت ہے جسے محنت کش طبقے، بالخصوص بائیں بازو کو آگے بڑھانا چاہئے کیونکہ حقیقی جدیدیت سوشلزم ہی لا سکتا ہے۔ جدیدیت کی ایک تعریف ہے: روشن خیالی کے آئیڈیلز کو عملی جامہ پہنانا۔
بائیں بازو کے ساتھی عموماً دیر سے آنے والے کلچر کا یہ کہہ کر دفاع کرتے نظر آتے ہیں کہ ”کوئی بھی وقت پر نہیں آتا“۔ یہ انتہائی بودا جواز ہے۔ بایاں بازو اور بائیں بازو کے کارکن ایک طرح سے معاشرے کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک ڈاکٹر، چاہے وہ کتنے ہی پسماندہ معاشرے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، اس کی ہائی جین عام لوگوں سے بہتر ہونی چاہئے۔ عین اسی طرح بائیں بازو کی روز مرہ کی ثقافتی روایتیں اور معمولات عمومی معاشرتی معمولات اور روایات سے بہتر ہونے چاہئیں۔
بائیں بازو کے ساتھیوں سے خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں: وقت پر آنے سے نہ تو کوئی سرمایہ دار ہمیں روکتا ہے نہ ہی دیر سے پہنچنا کوئی سامراجی سازش ہے۔ اگر انقلاب کرنا ہے تو وقت پر آنا جانا شروع کریں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔