حارث قدیر
ملک کے چاروں صوبوں اور زیر انتظام علاقوں میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے حادثات سے اموات کی تعداد 419 سے تجاوز کر چکی ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق اس میں 74 خواتین، 168 بچے اور 177 مرد شامل ہیں۔ سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں ہوئی ہیں، جہاں پر کم سے کم 120 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 42 بچے، 32 خواتین اور 46 مرد شامل ہیں۔
ادھر ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار انتہائی کم ہیں اور اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے۔
اس وقت تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 101، سندھ میں 100، خیبر پختونخوا میں 81، گلگت بلتستان 8، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں 8 اور دارالحکومت اسلام آباد میں ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
بارشوں اور سیلابی صورتحال کی وجہ سے دیگر انفراسٹرکچر کو بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ مجموعی طور پر 997 کلومیٹر سڑکیں، 61 پل، 34940 مکانات کو نقصان پہنچ چکا ہے، جبکہ 24420 مال مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
سیلابی کیفیت نے جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کے دامن میں واقعہ علاقوں، بلوچستان اور سندھ کو بری طرح سے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں مال مویشی روزگار کا ایک بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اور اس علاقے میں اب تک 23 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سڑکوں کو پہنچنے والا سب سے زیادہ نقصان بھی بلوچستان میں ہی ہے، جہاں 580 کلو میٹر سڑکوں اور 13 پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں 408 کلومیٹر سڑکیں، 5 پل، کے پی میں 6.5 کلو میٹر سڑکیں اور 5 پل، گلگت بلتستان میں 2 کلو میٹر سڑک اور 38 پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
خیبرپختونخوا سے پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک کے علاقے جو کوہ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہیں، خشک علاقے کہلاتے ہیں۔ راجن پور اور اس سے ملحقہ اضلاع میں عموماً پانی کا زیادہ تر انحصار کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر ہونے والی بارشوں سے ہوتا ہے، ورنہ یہ اکثر خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔
تاہم جب بارشیں ہوتی ہیں تو سیلابی صورتحال کا شکار ہو کر مزید نقصانات اس خطے کے لوگوں کا مقدر بن جاتی ہیں۔ حالیہ بارشوں میں صرف راجن پور میں 21 دیہات متاثر ہوئے، 27 ہزار ایکٹر سے زائد فصلیں تباہ ہوئیں، 148 کلومیٹر کی 37 مختلف سڑکیں اور ایک ہزار سے زائد عمارتیں متاثر ہوئی ہیں۔
اب تک سیلابی صورتحال سے سب سے زیادہ نقصان ان علاقوں میں ہوا ہے، جنہیں انتہائی پسماندہ اور خشک سالی کا شکار علاقے کہا جاتا ہے۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ سیلاب متاثرین سب کچھ لٹ جانے، گھر بار تباہ و برباد ہو جانے پر انتہائی پریشان ہیں۔
پاکستان جیسے خطوں میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کلاسیکل شکل میں نہیں آیا اور تاریخی تاخیر زدگی کے باعث ان خطوں کے حکمران طبقات وہ تاریخی فرائض پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہے، جو سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی خاصہ تھے۔ اس وجہ سے ناہموار ترقی نے کئی خطوں کو آج بھی صدیوں پرانی کیفیات میں برقرار رکھتے ہوئے پسماندگی کے عجائب گھروں کی صورت رکھ چھوڑا ہے۔
ٹوٹی پھوٹی کچی سڑکیں، کچے مٹی کے مکانات، پانی کی نکاسی، بجلی کی سہولیات، پینے کے صاف پانی سمیت دنیا کی ہر سہولت اور آسائش سے محروم ان خطوں میں انسانیت سسک اور تڑپ رہی ہے۔
حکمران طبقات جہاں نظام کی تاخیر زدگی اور اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے اس سماج کو ہموار ترقی دینے میں ناکام رہے ہیں، وہیں اپنے منافعوں اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے اس خطے کے ماحول کو بری طرح سے برباد کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں اس خطے کے آنے کے براہ راست ذمہ دار اس خطے کے حکمران طبقات اور سامراجی ادارے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موسموں کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جو علاقے سیلاب سے اس وقت متاثر ہیں، ان میں اگر بارشیں نہ ہوں تو اتنی شدید خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہاں زندگی کی بقا کو سنجیدہ خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر بارشیں ہوں تو اتنی شدید اور سیلابی کیفیت کا موجب بن جاتی ہیں، کہ جو سیلابی کیفیت پیداکرتے ہوئے سیکڑوں زندگیوں کو لقمہ اجل بنا دیتی ہیں۔
پانی کی سٹوریج کے حوالے سے بھی یہ ریاست اور حکمران طبقات کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کر سکے ہیں۔ چھوٹے ٹیموں، برساتی نالوں اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو یقینی بنانے اور بل صفائی جیسے اقدامات کے علاوہ ندی نالوں پر ہونے والی تجاوزات کو ختم کرنے کیلئے بھی کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال ایک جانب سیلاب کی زد میں آکر سیکڑوں انسان اپنی زندگیاں گنوا دیتے ہیں اور دوسری جانب بارشوں کے پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ضائع ہو جاتا ہے۔
سیلابی کیفیت میں انسانیت تاراج ہو رہی ہے اور دوسری جانب ریاستی دھڑوں کے مابین اقتدار کی رسہ کشی عروج پر ہے۔ میڈیا پر عدلیہ کی لڑائی سے پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے قیام کے حوالے سے لڑائی کا راج ہے، سیلاب متاثرین کا تذکرہ انتہائی معمولی یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکمران طبقات سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے اقتدار کی رسہ کشی میں مدہوش نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے سے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے درپے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں سیلابی کیفیت پر قابو پانے اور ہر سال برباد ہونے والی زندگیوں کو محفوظ رکھنے سمیت اس خطے کے کسی بھی ایک سنجیدہ مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔ نسل در نسل سے سرمائے کے جبر کا شکار محنت کشوں کی بغاوت اور اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں میں لینے کاعمل ہی اس خطے سے ہر طرح کی بربادی کے خاتمے کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔