قمر الزماں خاں
17 اگست 1988ء کی سہ پہر بہاول پور کے نزدیک بستی لال کمال کے اوپر پاکستان ائیر فورس کا ’پاک‘ طیارہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس طیارے میں موجود پاکستان کا بدترین آمر ضیا، اس کے ساتھی اور امریکی آقاؤں کے نمائندگان، لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے سے پاکستان میں گیارہ سال سے مسلط خونی دور کا بظاہر اختتام ہو گیا تھا مگر ضیائی آمریت کے گیارہ سالہ تاریک اور مہلک دور کے گہرے اثرات سے پاکستان آج تک نہیں نکل سکا۔ 1988ء سے 2022ء تک کا عہد، سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی طور پر ’ضیائی ظلمت‘ کے زیر اثر چلا آ رہا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 88ء میں ضیا کے جسمانی خاتمے کے باوجود اس کے نظریات، سیاسی، سماجی آلودگی اور کالے دھن کے زیر اثر جنم لینے والی بے ہودہ ثقافتی وراثت کا راج آج تک نہ صرف قائم ہے، بلکہ مقدار اور معیار میں کئی گنا بڑھ کر ہر سیاسی، معاشی اور سماجی مظہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک طرف ضیا الحق کی نرسری کے انڈوں سے نکلنے والے بچے پاکستانی سماج، صحافت، اداروں، سیاست و ثقافت پر چھا چکے ہیں تو دوسری طرف 88ء سے پہلے اور بعد والی ضیا مخالف نظریاتی، سیاسی جماعتیں اور قیادتیں عملی طور پر ضیائی ورثے سے شکست کھا چکی ہیں، بلکہ اسی کے نظریات، سیاسی رنگ روپ اور وڑن کو اپنا کر، جل کر بھسم ہونے والے ضیا الحق کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ضیا آمر کا عہد، ظلمت اور بربریت کا دور تھا۔ اس سیاہ دور میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو عقوبت خانوں میں پھینک دیا گیا۔ اپنے خیالات کا اظہار، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کا پرچم لہرانے پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ درجنوں کارکنوں کو ملٹری کورٹس کی سماعت کے بعد پھانسی لگا دی گئی۔ شاہی قلعے میں لرزا خیز مظالم ڈھائے گئے۔ زبان، قلم، خیالات کے اظہار، سیاسی سرگرمی، واقعات کی آزادانہ رپورٹنگ پر کڑی پابندی تھی۔ ضیا نے اپنی آمریت کا آغاز ہی مزدور تحریک پر حملہ آور ہو کر کیا تھا۔ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے سینکڑوں نہتے احتجاجی مزدوروں کو ضیا کے حکم پر شہید کر کے پورے ملک کو دہشت زدہ کر دیا گیا۔
ضیا آمر، پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ ایوب خان کے بعد امریکی گماشتگی کے طوق کو گلے میں ڈال کر افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں کرائے کے قاتل کا کردار ادا کیا۔ اسکی سامراجی اطاعت اور ’بھاڑے کے ٹٹو‘ کے کردار والی خارجہ پالیسی کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی بنیاد پرستی، دہشت گردی اور دیگر مضر رجحانات کی وحشت کی نذر ہو کر تاراج ہوتا گیا۔ منشیات، اسلحے اور پرائی جنگوں کے معاوضے پر مبنی کالے دھن کی پاکستان کی معیشت، سیاست اور سماج میں سرائیت نے ایک نسبتاً صحت مند سماج کو مجروح و پامال کر دیا۔ پاکستانی سماج، کاروبار، تجارت، معیشت کے درمیان سے تقریباً 100 ارب ڈالر سالانہ کے برابر (منشیات ٹریفکنگ کے باعث) کالے دھن کی روانی اور ترسیل نے جائز، ناجائز، کالے اور سفید، قانونی اور غیر قانونی، اخلاقی اقدار اور گراؤٹ کے فرق کو مٹا دیا۔ درست اور غلط بہتے ہوئے کالے دھن کے سیلاب میں شیر و شکر ہو گئے۔ ایک دوسرے سے الٹ اور متضاد اخلاقیات اور اصطلاحیں ’مفاہمت‘ کے باعث قابل قبول شکل میں ڈھل گئیں۔ معیشت سرکاری ہی تھی مگر مارکیٹ میں سرمایہ کالے دھن سے آ رہا تھا۔ بازار حصص کے سرکاری جوا خانے سے اخبارات، کپڑے، ٹائروں کی تجارت، ٹرانسپورٹ، تعلیم و صحت اور جائیداد کے کاروبار میں کالا دھن حاوی کردار ادا کرتا اور جگہ بناتا گیا۔ یہ سب غیر سرکاری طور پر ہونا ممکن نہ تھا، یوں سرکاری مشینری، ادارے، حکام منشیات، اسلحے اور کالے دھن پر مبنی غیر سرکاری معیشت کی نقل و حرکت کے معاون بن گئے۔ یوں ان اداروں کا اپنا طے شدہ کردار، ہیئت، نفسیات، اخلاقیات بیرونی اظہار کالے دھن کی ضروریات کے مطابق بدل کر مسخ ہو گیا۔ ان اداروں سے منسلک افراد بغیر کسی محنت، معاشی تگ و دو، پیداواری عمل اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے ارب پتی بن گئے۔ یہ سماج میں ایک نئے گروہ اور اس کی اپنی طرز کی ثقافت کا آغاز تھا۔ جس کی وضع ہونے والی نئی اخلاقیات کسی بھی اخلاقیات سے مشابہ نہ رہی۔ اخلاقی گراوٹ اور کالے دھن کے انباروں سے پہلے پہل ایوان بالا کے لئے ’سینٹرز‘ ظہور میں آئے، یہ کالے دھن کے ارب پتی تھے جنہوں نے ہر بکنے والے ووٹ کو ڈبل قیمت میں خریدا اور سیاسی مشاہیر کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ پھر دھن دولت اور حاکمیت کا رشتہ پکا ہوتا گیا اور کالے دھن کی بدولت کثیر تعداد ’قانون ساز‘ اداروں میں پہنچنا شروع ہو گی۔ چھوٹے بڑے شہروں کے چیمبر آف کامرس، غلہ منڈیوں کے عہدے دار، مارکیٹوں کے عہدے داران، بلدیاتی اکابرین کی اکثریت، امن کمیٹیاں، خیراتی ٹرسٹوں کے سرپرست، میڈیا ہاوسز مالکان، مذہبی پارٹیاں اور مبلغین اور قوم کے بیشتر رہبر و رہنماؤں کی بے پناہ دولت اور اسکے اثرات کا رنگ سیاہ ہی نظر آتا ہے۔ یہ سب ضیا آمر کے ترکے ہیں اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی کے دور کی متعین شدہ معیشت، ثقافت، اخلاقیات اور سیاست کے پیروکار ہیں۔ ضیا مبینہ طور پر اپنے سامراجی مالکوں کی جلائی چتا میں زندہ جل کر خاکستر ہو گیا، مگر ابھی تک مرا نہیں بلکہ لگتا ہے کہ دوام ہو گیا۔ یہ دراصل ایک نیا پاکستان تھا جس میں سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی آنجہانی ضیا کی (امریکہ کی افغانستان میں ترقی پسندانہ انقلابی کاوشوں کے خلاف) فرنٹ لائن اسٹیٹ کے تشخص کا دفاع کرنے تک گر گئی اور پھر تب سے اب تک مرحوم اور زندہ قیادتیں اسی پالیسی پر سب براجمان چلی آ رہی ہیں۔ ضیا کی جانشین سیاسی وراثت مسلم لیگ تھی جس کے تمام دھڑے اسی کے رہنما اصولوں پر چلنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ ضیا آمر مطلق العنان تھا، نواز شریف ہزار کوششوں سے اس کے رتبے سے نیچے ہی رہ گیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ظاہری اور پس منظر ضیائی قوتوں نے کالے دھن، متروک نظریاتی اثاثوں اور اخلاقی گراوٹ کی بے اصولی کے ستونوں پر تحریک انصاف کو گود لے کر ضیا الحق کے ادھورے مشن کو پروان چڑھانے کی ٹھانی ہے۔ ضیا آمر کے جل مرنے کے 34 سال بعد بھی ضیائی قوتیں کئی گنا بڑھ کر سماج سے برسر پیکار ہیں۔ سر دست یہ کالی قوتیں حاوی ہیں، سیاسی میدان میں انکی ہم نوا اور مسابقت کرنے والی قوتیں ہیں، ٹکرانے والی ہم پلہ قوت موجود نہیں ہے، یوں یہ ظلم و تاریکی کی تاریخ (کم یا زیادہ) جاری و ساری ہے۔ آج جھوٹ، تہمت، منافقت، یو ٹرن، مذہبی عقائد کا سیاسی استعمال، کردار سے عاری شخصیات، دھوکہ دہی پر فخر و اطمینان جیسے مظاہر ضیائی ثقافت کا بد ترین ورثہ ہیں۔ رائج سیاست ان سیاہ اطوار و کردار کے تابع رہ کر ہی پنپ سکتی ہے۔ انہی کے مابین لڑائی بھی ہے اور ’مفاہمت‘ بھی۔ عمرانی سیاست والا دھڑا ’ضیائی جانشینی‘ کے قریب تر ہے، اسی لئے تمام ظلمت کے اثاثے اس کے ہم نشین ہیں۔
پاکستان کے سماج پر تاریکی کا سفر 45 سالوں سے جاری ہے۔ تاریکی کے تسلسل کا خاتمہ خود بخود نہیں ہو گا۔ اجالے اور صبح امید کے خواستگاروں کو صف آرا ہونا پڑے گا ورنہ اندھیروں میں لگنے والی ٹھوکریں زخم بڑھاتی رہیں گی۔