قمرالزماں خاں/عمران کامیانہ
نہ مارکسزم ختم ہو گا، نہ تاریخ ختم ہو گی… سماج کو سمجھنے کے لئے مارکسزم کا علم ہی سب سے زیادہ موزوں اوزار ہے۔ ہر استحصال زدہ انسان کو گلوبلائزیشن، سامراجی نظام اور دنیا بھر میں لاگو سرمایہ دارانہ پالیسوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مارکسزم کے اوزار کو بروئے کار لانا ہو گا۔ پاکستان بھر کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ بھارت، سری لنکا، پاکستان اور جنوب ایشیا بھر کے محنت کشوں کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کو مل کر جدوجہد کا لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ جنوب ایشیا بطور خاص بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف جنگی جنون کے خاتمے اور دوستی اور امن کی طرف بڑھنا ہو گا۔ مذکورہ بالا سوچ کا مبلغ اور زندگی بھر مزدوروں کے حقوق کے لئے بے تکان جدوجہد کرنے والا کرامت علی، جسے اس کے ساتھی اور عام محنت کش چاچا کرامت کے محبت بھرے نام سے جانتے تھے، اپنی طبعی عمر گزار چل بسا!
کرامت علی 1946ء میں مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور خاندان ہجرت کر کے ملتان آن بسا۔ 1962ء میں ایمرسن کالج ملتان میں ہی طلبہ سیاست میں متحرک ہوئے اور جب ایوب خان نے طلبہ یونین پر قدغن لگائی تو احتجاجی تحریک میں ہراول کردار ادا کیا۔ اسی دوران جب معراج محمد خان اور سید علی مختار رضوی جیسے انقلابی طلبہ لیڈروں کو کراچی سے نکالا گیا تو کرامت علی ملتان میں ان کی پناہ کا بندوبست کرنے والے نوجوانوں میں پیش پیش تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کمشنر آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی منظم کیا جس کے بعد کمشنر کو ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے کراچی بدر ہونے والے طلبہ کو ملتان رہنے کی اجازت دینا پڑی۔ یہ شاید ان کی زندگی کی پہلی بڑی سیاسی جدوجہد تھی۔ تعلیم کے لئے بعد ازاں وہ خود کراچی چلے گئے۔ یوں زندگی بھر وہ بٹے ہی رہے۔ لیکن برصغیر کی تقسیم کو انہوں نے کبھی تسلیم نہ کیا۔ اگرچہ اس خونی تقسیم کے خاتمے کے حوالے سے وہ دونوں ریاستوں کی دوستی اور امن پر مبنی ترقی و خوشحالی کا راستہ تجویز کرتے تھے۔
اپنے والد کی طرح خود بھی ایک مزدور کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔ ابتدائی زندگی میں ہی وہ غریب اور امیر کے فرق اور سماج کی طبقاتی تقسیم سے واقف ہو گئے تھے۔ کچھ ذاتی تجربات نے ان کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جن کی بنا پر انہوں نے اس ظالمانہ اور استحصالی طبقاتی تقسیم کے خاتمے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ بنگال سے لے کے بلوچستان تک انہوں نے نہ صرف طبقاتی بلکہ قومی استحصال کے خاتمے کے لئے بھی فکری اور عملی جدوجہد کی۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار بھی ہمیشہ رہے۔ الغرض آخری وقت تک طبقاتی، قومی، صنفی حوالے سے سماج کے پسے ہوئے حصوں کے دکھ درد کو ہمیشہ اپنا سمجھا۔ اس حوالے سے وہ ظالم، چاہے وہ ریاست کے آقا ہوں، کرپٹ پارٹی قیادتیں ہوں یا رئیل اسٹیٹ کے بڑے ٹائیکون ہوں، کے سامنے ڈٹ جانے سے کبھی نہیں ڈرے۔ متعدد مرتبہ جیل گئے۔
زندگی کی شروعات سے ہی بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہو گئے۔ ماؤازم سے متعارف ہو کر ’نیپ‘ (بھاشانی) میں شامل ہوئے۔ ترقی پسند تحریکوں اور پارٹیوں میں ہراول کردار ادا کیا۔ اسی جدوجہد کے دوران جواں عمری کے وقتوں میں ماؤازم اور سٹالنزم کی مرحلہ واریت اور مصالحانہ روش سے سخت مایوس بھی ہوئے۔ پھر لیون ٹراٹسکی کی تصنیفات پڑھیں۔ اس عظیم انقلابی کے نظریات اور سٹالنزم کے خلاف اس کی لازوال جدوجہد کو جانا۔ لندن میں قیام کے دوران طارق علی اور دیگر نامور ٹراٹسکی اسٹوں سے مل کر تنظیمی و سیاسی کام کیا۔ یہیں ان کی ملاقات کامریڈ لال خان اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ جو جلاوطنی میں جنرل ضیاالحق کی آمریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کی شروعات میں تھے۔ کامریڈ لال خان اور کرامت علی کی یہ ملاقات‘ جلد ایسی دوستی میں تبدیل ہو گئی جو زندگی بھر اٹوٹ رہی۔ کرامت علی نے ہی کامریڈ لال خان کو عظیم انقلابی کامریڈ ٹیڈ گرانٹ سے متعارف کرایا۔ جس کے بعد پاکستان، جنوب ایشیا اور دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد اور مارکسی تنظیم سازی کے کئی نئے راستے کھلے۔
کرامت علی نے اپنی زندگی محنت کش طبقے پر جبر و استحصال کے خاتمے کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ یہ درست ہے کہ اپنی زندگی کی آخری دہائیوں میں انہوں نے سماج کی تبدیلی کی نسبتاً اصلاح پسندانہ اور ارتقائی روش اختیار کی۔ لیکن دوستوں کے ساتھ بے تکلفی پر مبنی محفلوں میں وہ اس ارتقائی عمل کو انقلابی جست کا پیش خیمہ ہی قرار دیتے تھے۔ یہ سیاسی و نظریاتی نقطہ نظر اختیار کرنے کا انہیں پورا حق حاصل تھا۔ جس طرح ان کے انقلابی دوستوں نے اس سے اتفاق نہ کرنے کا حق ہمیشہ استعمال کیا۔ اس کے باوجود رشتوں میں کبھی تلخی آئی نہ چاچا کرامت نے انقلابی قوتوں کی تعمیر میں جو انتظامی و سیاسی سہولت وہ دے سکتے تھے‘ دینے سے کبھی انکار کیا۔
کرامت علی پاکستانی ریاست کی طفیلی ہیئت، سامراجی اطاعت گزاری اور نیولبرل پالیسیوں کی ناگزیریت کے باوجود سمجھتے تھے کہ ٹریڈ یونین کا ادارہ منظم کر کے ہی مزدوروں کے خلاف ناانصافی اور استحصال کا مداوا ہوسکتا ہے اور آگے کی جدوجہد کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان میں صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بڑی تعداد ٹریڈ یونین کی تنظیم سے باہر ہے اور مزدور انجمنوں کی وسعت اور مضبوطی سے مزدوروں کے لئے اپنے حقوق حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ مشرف دور کے متنازعہ آئی آر او 2010ء سمیت مزدور دشمن قانون سازی کے خلاف لڑائی میں انہوں نے ہمیشہ بھرپور کردار ادا کیا۔ اسی طرح محنت کشوں اور خواتین سمیت سماج کی کچلی ہوئی پرتوں کے حق میں قانون سازیوں کے لئے ہمیشہ لابنگ میں سرگرم رہے اور مہمات چلاتے رہے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ اس نظام کی حدود میں قانون سازی، یونین سازی یا دوسرے بورژوا طریقہ ہائے کار سے جہاں کہیں مظلوم انسانوں کی زندگی میں بہتری کی کوئی گنجائش بنتی ہے‘ اسے بروئے کار لایا جائے۔ اس سلسلے میں ملک گیر ورک شاپوں، سیمیناروں اور دوسری نشستوں کا انعقاد کرواتے رہتے تھے اور اسی سلسلے میں انہوں نے ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘ (پائلر) کی بنیاد بھی رکھی۔ مزدور تحریک، لیبر قوانین، محنت کشوں کی حالت زار وغیرہ کے حوالے سے اعداد و شمار، سرویز اور تجزیات پر مبنی اہم مطبوعات کی لمبی فہرست ہے جو یہ ادارہ شائع کرتا رہا ہے اور جن سے سیاسی، تنظیمی اور درسی حوالوں سے مستفید ہونے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن پھر اسی ’پائلر‘ کے دروازے ملک بھر کے انقلابیوں کے لئے بھی کبھی بند نہیں ہوئے۔ ان کٹھن معروضی حالات میں جہاں ایک انقلابی تنظیم کے لئے سیاسی، سماجی و ثقافتی کٹھنائیوں کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات کا بھی کوئی شمار نہیں اور اس مسلسل بڑھتی مہنگائی اور تنگی میں کوئی بڑا تنظیمی اجلاس کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ چاچا کرامت کے ادارے کا سستا (بلکہ ان کے انقلابی دوستوں کے لئے تقریباً مفت) ہاسٹل، ہال اور کچن کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اسی طرح دنیا بھر میں اکیڈیمیا سے وابستہ مارکسی رجحانات رکھنے والے اساتذہ، جنہیں ریسرچ کے لئے پاکستان آنا پڑتا، کے لئے بھی یہ ادارہ ایک طرح کا دوسرا گھر رہا ہے۔
اگر کہا جائے کہ کراچی اور بالعموم پاکستان بھر میں چاچا کرامت مروجہ مزدور تنظیموں، یونینوں، فیڈریشنوں اور کنفیڈریشنوں کے سرپرست، تذویراتی ماہر اور نظریہ دان کا کردار نبھاتے رہے تو مبالغہ آمیزی نہیں ہو گی۔
بٹوارے میں سامراجی طاقتوں کی سوچ کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ایک سابق نوآبادیاتی ملک، جس میں تمام تر اداروں کی ساخت اور طریقہ کار اب بھی نوآبادیاتی طرز پر ہی مبنی ہے، میں بتدریج جمہوریت اور بورژوا جمہوری اداروں کا قیام اور مزدور یا انسان دوست قوانین کی منظوری و اطلاق وغیرہ اگر یکسر ناممکن نہیں تو اس کی گنجائش انتہائی محدود ضرور ہے۔ مزید برآں نظام کے بحران کے ساتھ یہ گنجائش بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ مزدور دوست اصلاحات کی مانگوں اور جدوجہدوں میں مارکس وادی ان حقائق کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔ یوں ہمارے نزدیک چاچا کرامت کی بہت سی مہمات اور کاوشیں‘ خاصی غیر حقیقی شمار کی جا سکتی ہیں۔ جیسے سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستوں کی موجودہ کیفیت کے رہتے ہوئے برصغیر میں امن، دوستی اور بھائی چارے کی کوششیں۔ یا پھر اٹھائیس لاکھ بے گناہوں کے خون سے کھینچی ہوئی سرحدوں کے ہوتے ہوئے ایٹمی اسلحے کے بغیر برصغیر کا خیال۔ چاچا کرامت نے یہ خواب بہرحال دیکھے اور یہ ان کی بڑائی تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان خوابوں کی انقلابی تعبیر کے لئے سرگرداں نوجوان انقلابیوں کی طرف ہمیشہ شفقت، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور سہولت کا رویہ اپنایا۔ پرانی ماؤسٹ یا سٹالنسٹ تنظیموں اور مزدور تحریکوں کی تاریخ اور اسباق کے حوالے سے وہ ایک انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتے تھے۔ مزید برآں ان کی 78 سالہ زندگی توانائی، حوصلے اور امید سے بھرپور تھی۔ صحت کی خرابی اور علالت کے آخری سالوں میں بھی نظریاتی مباحث اور سماجی و ثقافتی تبادلہ خیال پر مبنی محافل کو وہ رات گئے تک جوان رکھتے۔ گراوٹ، جبر، گھٹن اور تعفن سے بھرے اس ماحول میں ان وفات یقینا ایک دردانگیز واقعہ ہے۔ ان سے تمام تر سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی اور ان کی طویل سیاسی و تنظیمی زندگی سے سیکھتے ہوئے ایک مختلف طریقے اور انداز سے ہی سہی لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر کی جدوجہد جاری رہے گی۔