پاکستان

سانحہ امر کوٹ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت

قمرالزماں خاں

امیر علی شاہ تھرپارکر  سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کا رکن ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے بے گناہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے پولیس حراست میں بہیمانہ قتل کے بعد ڈی آئی جی جاوید جسکانی و دیگر کو مبارک باد پیش کی اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ اس موقع پر موجود ایک مقامی صحافی نے امیر علی شاہ سے استفسار کیا کہ کیا اس حرکت سے سندھ مذہبی شدت پسندی کا شکار نہیں ہو جائے گا؟ آپ کے نزدیک وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہو رہی ہے اور بطور رکن قومی اسمبلی آپ ایسا کیا کہیں گے جس سے لوگ انتہا پسندی سے دور رہیں؟ ایسی کوئی بات کہیں جس سے لوگوں کو ترغیب ملے کہ وہ انتہا پسندی سے بچ سکیں۔ یہ بات پولیس ڈی آئی جی کا رنگ اڑا گئی جبکہ امیر علی شاہ کے پاس کوئی خاطر خواہ جواب نہیں تھا۔ چنانچہ وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور تصدیق کے بغیر ہی وہ الزامات دہرانے لگا جو بنیاد پرست جنونی بلوائی لگا رہے تھے۔ یاد رہے کہ اب تک بھی مقتول کو گناہ گار قرار دینے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آ سکا اور پیپلز پارٹی کا ایک رکن قومی اسمبلی پورے یقین کے ساتھ بنیاد پرست جنونیوں کی آواز میں آواز ملانے اور سستی شہرت حاصل کرنے نکل پڑا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس سنگین حرکت پر ابھی تک امیر علی شاہ سے کوئی جواب طلبی نہیں کی۔

قبل ازیں عمر کوٹ میں بلوائیوں کا سرغنہ پیر عمر جان سرہندی سرعام کہہ رہا تھا کہ ہم (سلمان تاثیر کے قاتل) ممتاز قادری کی بندوق استعمال کریں گے۔ عمرجان سرہندی نے بلوچستان میں ہونے والے اس واقعے کا ذکر بھی کیا جہاں ایسے ہی الزام میں ایک شخص کو جنونی ہجوم نے پولیس اسٹیشن سے نکال کر تشدد کے ذریعے قتل کر دیا تھا۔ آخر کار بنیاد پرست فسادیوں اور سندھ حکومت کی مشینری نے مل جل کر وہ بندوق استعمال کر ہی لی اور گورنمنٹ کے گریڈ 18 کے میڈیکل افسر ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو پولیس تحویل میں قتل کر کے ’پولیس مقابلے‘ کی ایک جعلی کہانی گھڑ لی گئی۔

مقتول کے لواحقین کی طرف سے دس رکنی وکلا ٹیم نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی اسد چوہدری، ایس ایس پی آصف رضا بلوچ، عمر جان سرہندی، ڈی آئی بی انچارج دانش بھٹی، سب انسپکٹر ہدایت اللہ ناریج و دیگر پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا۔ بعد ازاں متعدد دفعات کے تحت نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔ لیکن عوام کے شدید دباؤ اور احتجاج کے بغیر شاید یہ بھی نہ ہو پاتا۔

سندھ تاریخی طور پر امن، مذہبی رواداری، برداشت اور سیکولر سماجی اقدار کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس دھرتی کے لوگ بالعموم مذہبی بنیاد پرستی، منافرت اور فساد کے رویوں کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے عمومی سماجی، سیاسی اور معاشی زوال پذیری اور رجعتی عناصر کی ریاستی پشت پناہی کی وجہ سے یہاں بھی مذہبی تشدد اور بلووں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ بہرحال ایسے واقعات پر سندھ کے ترقی پسند عوام اور سیاسی کارکنان ہمیشہ متحرک کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اس خوفناک اور سنگین نوعیت کے واقعے کے بعد اگرچہ ابتدائی ایک دو دنوں میں بالخصوص امر کوٹ (جو پہلے سے زیر عتاب ہندو آبادی کا علاقہ ہے) میں شدید خوف و ہراس اور وحشت کی فضا طاری تھی۔ لیکن کچھ دردِ دل اور زندہ ضمیر رکھنے والے لوگوں نے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر انتہائی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی آوازیں بلند کیں اور وحشی بنیاد پرستوں کو للکارا۔ جس کے بعد بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی حوصلہ ملا۔ ان حالات میں یہ بھی واضح ہوا کہ اس خطے میں انسانیت کی تکریم اور ترقی پسند اقدار کے محافظ اور ہیرو یہاں کے منافق اور رجعتی حکمران طبقات کے لوگ نہیں بلکہ پریم کوہلی جیسے انتہائی غریب اور کچلے ہوئے پس منظر سے تعلق رکھنے والے محنت کش ہیں۔ جس نے ہندو ہوتے ہوئے جنونی بنیاد پرستوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی جلی ہوئی لاش کو باعزت طریقے سے دھرتی کے سپرد کیا۔ پھر پورے سندھ سے انسانیت کا درد رکھنے والے سیاسی کارکنان اور عام لوگ‘ جنونی ملائیت کے خوف کو پیروں تلے روندتے ہوئے امر کوٹ پہنچنے لگے گئے۔ ڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر امن کے گیت گائے گئے اور احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ جو بتدریج حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ امر کوٹ میں پریس کلب، مرکزی چوراہے اور ڈاکٹرشاہنواز کی قبر پر احتجاجی جلسے ہوئے۔ یوں عوام کے بڑے حصے نے تھر سمیت ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندی کو مسترد کیا اور مطالبہ کیا کہ اس شدت پسندی اور قتل و غارت گری کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے ۔

اسی دوران سندھ اسمبلی میں ایک طرف ’’توہین ‘‘ کی آڑ میں ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کو درپردہ جواز فراہم کیا گیا۔ دوسری طرف اسی علاقے کے ایک رکن صوبائی اسمبلی (صوبائی وزیر تعلیم) نے اس سارے واقعے پر تشویش اور خود اپنے خوف اور ڈر کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک پورا دن اور پوری رات سو نہیں سکا کہ اگر مجھ پر ایسا الزام لگ جائے تو (جنونی مشتعل ہجوم سے بچنے کے لئے) میں پولیس کے پاس بھی نہیں جا سکتا کہ وہاں تحفظ کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ہے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج حکمران طبقے کے اپنے لوگ خود اپنے پالے ہوئے عفریت سے کس قدر خوفزدہ اور بے بس ہو چکے ہیں۔

سندھ سمیت پورے ملک کا ہر ذی شعور انسان اس وقت ڈاکٹر شاہنواز کے قتل ناحق پر افسردہ اور پریشان ہے۔ لیکن اس صورتحال میں دو مختلف کیفیات دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک متعلقہ وزیر کے علاوہ سندھ سمیت پیپلز پارٹی کی ساری مرکزی قیادت خاموش ہے۔ اسے ایک مجرمانہ خاموشی ہی کہا جا سکتا ہے۔ بالخصوص بلاول بھٹو زرداری (جنہیں کچھ کاسہ لیس بڑا ترقی پسند اور ’’بائیں بازو‘‘ کا علمبردار بنا کے پیش کرتے ہیں) اور انسانی حقوق کی مبینہ علمبردارآصفہ بھٹو کی خاموشی معنی خیز ہے۔ صدر مملکت آصف زرداری صاحب، جن پر ان حالات میں دہری تہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بھی شاید ’کومے‘ میں چلے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی یا سندھ حکومت کے کسی قابل ذکر آدمی نے متاثرہ خاندان سے اظہار یکجہتی کے لئے جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یہ لوگ، جو ان نازک حالات میں ایک مذمتی بیان بھی جاری نہیں کر سکے، تب بھی ’کومے‘ میں چلے گئے تھے جب ایسے ہی جھوٹے اور بے بنیاد الزام کے تحت پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن و رہنما سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری بہت بولتے ہیں۔ خاص طور پر 26ویں ترمیم پر تو موصوف بولتے چلے جا رہے ہیں کہ ریاست کی خوشنودی کو مزید پختہ کر کے اپنے ’’خوابوں‘‘ کی تعبیرکی طرف بڑھنا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر شاہنواز کے واقعے میں عوام دباؤ کے تحت کاٹی جانے والی ایف آئی آر کو بڑا احسان اور کارنامہ بنا کے پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسی ایف آئی آرز پہلے بھی ملک کے طول و عرض میں کٹتی رہی ہیں۔ جن کا انجام سب جانتے ہیں۔

ملک کے اندر پے درپے مذہبی انتہا پسندی اور لنچنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی بہیمانہ لنچنگ کے بعد بھی مقدمات درج ہوئے تھے۔ خصوصی تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔ ملزمان کا تعین، گرفتاریاں اور سزائیں تک ہوئی تھیں۔ اس واقعے نے پورے ملک کو تڑپا کے رکھ دیا تھا۔ لیکن آخر کار بیشتر مرکزی کرداروں کو بچاؤ کی راہداری مہیا کر دی گئی۔ پھر سانحہ سیالکوٹ پیش آ گیا۔ ایسے واقعات یہاں بھی نہیں رکے۔ جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے گھروں کو جلا دیا گیا۔ مذہبی اقلیتوں کے لوگ قتل کیے جاتے رہے۔ بلوے جاری رہے۔ ابھی حال ہی میں سوات کے علاقے بحرین میں ایک سیاح کو ہوٹل مالکان سے تکرار کے بعد ’’توہین‘‘ کے الزام کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوائی پولیس کی تحویل سے یورپ پلٹ شہری کو چھین کے لے گئے اور پھر اس کو پورے ہجوم نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا اور جلا دیا۔ تلمبہ (جہاں سے ایک مشہور سرکاری ملا کا تعلق بھی ہے) میں میونسپل کمیٹی کے وصولی پر معمور ایک مسیحی اہلکار پر’’ توہین‘‘ کا الزام لگا کر ہراساں کیا گیا۔ ایک اور واقعے میں کراچی میں ایک سرکاری ادارے کی غیر مسلم خاتون کو محض مذہب کی بنیاد پر دھمکایا گیا۔ غرضیکہ ایک طویل فہرست اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جس کا آغاز پھر ضیاالحق کے دور میں ہوا تھا جب برطانوی دور کے بلاسفیمی قوانین میں ترامیم کر کے انہیں ریاست اور بنیاد پرست عناصر کے ہاتھوں میں ایک اوزار کے طور پر تھمایا گیا تھا۔ 2021ء تک پاکستان میں 89 لوگوں کو ’’توہین‘‘ کے الزام میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے جن میں سے 60 سے زائد واقعات 1990ء کے بعد ہوئے ہیں۔ 1987ء سے 2021ء تک 1885 افراد پر بلاسفیمی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ 2011ء میں گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو بھی انہی الزامات کے تحت قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کو ان کے چیمبر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے دو مسیحی بھائیوں کو بلاسفیمی کے الزامات سے بری کیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے قاتل کو گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بری کر دیا گیا تھا۔

’ڈان‘ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 215 افراد بلاسفیمی کے الزامات کے تحت ہراست میں ہیں جن میں سب سے زیادہ کا تعلق پھر سندھ سے ہے۔ بیشتر افراد کو موت کی سزا یا عمر قید کا سامنا ہے۔ حالیہ عرصے میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اچھی خاصی شہرت اور اثر و رسوخ رکھنے والے مولوی حضرات بھی ان الزامات کی زد میں آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں کچھ دن پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور مولانا کو کینیڈا بھاگنا پڑ گیا ہے۔

توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے بہت سے لوگوں کو ان کے مقدمے کی سماعت ختم ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ جج اور وکلا ایسے مقدمات سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ڈر رہتا ہے کہ ایڈووکیٹ راشد رحمان کی طرح انہیں دن دہاڑے قتل کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ان قوانین کی مخالفت یا ان پر معمولی تنقید کرنے والی کئی معروف شخصیات کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ایسے زیادہ تر الزامات کے پیچھے سیاسی دشمنی، مالی تنازعات یا ذاتی چپقلش اور رنجش وغیرہ کارفرما ہوتی ہے۔

اگر ہم تاریخی پس منظر کو نظر انداز کر دیں تو اس سنگین مسئلے کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو تقسیم اور منتشر کرنے کے لئے مذہبی منافرت کو استعمال کرنے کی روش برطانوی سامراج نے اپنائی تھی۔ جو آخر کار 1947ء کے بٹوارے پر منتج ہوئی۔ پہلے دن سے ہی ریاستی طاقت کے ایوانوں نے مذہب کو پاکستان میں ایک سیاسی حربے اور اقتدار کے ستون کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ یہاں کے حکمران طبقات کی تاریخی کمزوری بھی تھی اور ضرورت بھی۔ جہاں اس اوزار کو فوجی حکمرانوں، آمروں اور کہنہ پالیسی سازوں نے استعمال کیا وہیں نام نہاد جمہوری سیاسی قیادتیں بھی اس جرم میں شریک رہیں۔ حتیٰ کہ بعض صورتوں میں آمروں سے بھی آگے بڑھ گئیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی جن معروضی حالات میں تشکیل دی جا رہی تھی وہاں محض جماعت اسلامی کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشلسٹ نظریات کے پروگرام میں ایک مورچہ مذہبی بھی بنا لیا گیا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا۔ آئین بناتے ہوئے بھی ملائیت کے سامنے بہت زیادہ مصالحت اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملک کے سرکاری نام کو بھی مذہبی بنا دیا گیا۔ پھر اس آئین میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ (جو پاکستان بننے کے بعد رجعتی مذہبی حلقوں کی تخلیق تھی) کو بھی شامل کر دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر 70ء کے الیکشن میں تمام مذہبی جماعتوں نے مل کر کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جن کو عوام نے مسترد کر کے مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ خود بنیاد پرست مذہبی سیاسی قوتیں اس الیکشن میں یکسر مسترد ہو چکی تھیں۔ اس سب کے باوجود بھٹو صاحب کے تحت نظریاتی انحراف اور طبقاتی مفاہمت و مصالحت کی روش کے تحت ملاؤں کو خوش کرنے کا عمل آگے بڑھایا گیا۔ یہ ایک خطرناک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد انہی ملاؤں کا کام پیپلز پارٹی نے خود سنبھال لیا جنہوں نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف کفر کے فتوے دئیے تھے۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں پھر رجعتی اقدامات اور قوانین کے نفاذ کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ عوام سے کیے گئے وعدوں اور پارٹی کے بنیادی پروگرام سے انحراف اور پھر ملاؤں کی خوشنودی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات نے ہی آخر کار بھٹو حکومت کے خلاف ملائیت کو زور آور اور بے لگام کیا۔ بھٹو مخالف نام نہاد ’’نظام مصطفیٰ تحریک‘‘ کا سارا نظریاتی مواد اور دلائل وغیرہ 73ء کے آئین اور اس کے دیباچے سے ہی اخذ کیے گئے تھے۔ جس کے پیچھے ظاہر ہے کہ مقامی حکمران طبقات اور امریکی سامراج کے مفادات اور ڈالر کارفرما تھے۔ ضیاالحق نے بعد ازاں اسی سارے سلسلے کو زیادہ شدت اور وحشت سے آگے بڑھایا۔ لیکن پیپلز پارٹی کی بعد کی قیادتوں نے ماضی سے کچھ نہ سیکھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاست، وضع قطع، بات چیت اور نشست و برخاست میں ضیاالحق کی ریاکارانہ اخلاقیات کو ہی اپنایا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ریاست کے مقتدر حلقوں اور امریکی سامراج کو افغانستان میں ثور انقلاب کے خاتمے اور بنیاد پرستی کی وحشت کو رائج کرنے کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ افغانستان میں نام نہاد جہاد اور ردِ انقلاب کے اثرات پلٹ کر پھر پاکستان میں بھی آئے۔ مذہبی پراکسیوں کے آپریشن افغانستان میں ہوتے تھے تو ٹریننگ پاکستان کے شہر شہر ہوتی تھی۔ سیاہ ڈالر، اسلحے اور منشیات کے سیلاب نے پاکستان کے سماج پر بدترین معاشی، معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ کالے دھن کی سرایت سے معیشت کا رنگ ڈھنگ بدل گیا اور اس کالی معیشت کو کنٹرول کرنے والوں نے سماج کے کلیدی شعبوں کو اپنا مطیع بنا لیا۔ مدرسوں میں پڑھنے والے غریب، لاوارث طلبہ کو وسیع پیمانے پر اس مکروہ کھلواڑ کا ایندھن بنایا گیا۔ پھر جہاد کشمیر کا سلسلہ شروع کروا دیا گیا۔ ماضی میں بھڑکائی گئی اس آگ میں یہ پورا خطہ آج تک جل کر رہا ہے۔ سامراجی و ریاستی پشت پناہی رکھنے والے بنیاد پرستوں اور جہادیوں کے جاہ و جلال، دہشت، شان و شوکت، مہنگی گاڑیوں اور جدید ترین اسلحے کے ساتھ دندنانے والے کاروانوں نے غربت اور بے روزگاری کی شکار اور دھتکاری ہوئی نوجوان نسل کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے۔

یوں ضیاالحق مر کر بھی پیپلز پارٹی کو کنٹرول کرتا رہا۔ خود پیپلز پارٹی کالی دولت کے دھنوانوں کی جھولی میں گرتی چلی گئی۔ نظریات کو پس پشت ڈال کر ’’عملیت پسند‘‘ بن جانے کے بعد یہ سب ناگزیر تھا۔ اگرچہ بلاول بھٹو کی لانچنگ کے مراحل میں اس کو مختلف قسم کے ترقی پسند اور بعض اوقات ’’انقلابی‘‘ گیٹ اپ اور لفاظی میں پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی لیکن پارٹی قیادت کی نظریاتی اساس مزید زوال پذیری کا شکار ہی رہی۔ ضمنی الیکشن ہوں یا نئی سیاسی صف بندی اور گٹھ جوڑ‘ آج پیپلز پارٹی کو ’’لبیک‘‘ کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔ جبکہ سندھ کا سیاسی حاکم اور پارٹی کا اکلوتا وارث بلاول بھٹو زرداری اب تک چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان سارے حالات نے سندھ حکومت کی ’’ترقی پسندی‘‘ کی حقیقت کو عوام کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کے خلاف ایک ایف آئی آر کٹنے پر’’سرکاری سندھ‘‘ کو ’’سیکولر‘‘ کہا جانا کتنا مضحکہ خیز ہے۔ یہ گہری سیاسی و نظریاتی گراوٹ بلکہ دیوالیہ پن ہے جس نے ایک بار پھر عوام کے سامنے متبادل کا سوال لا کھڑا کیا ہے۔

ملائیت اور بنیاد پرستی پاکستانی سرمایہ داری کے اندر اس قدر رچ بس چکی ہے کہ اس پورے نظام کو چیلنج کیے بغیر سیکولرازم اور ترقی پسندی کی باتیں ایک ڈھونگ بن کے رہ جاتی ہیں۔ پاکستان ہو یا ہندوستان‘ اس بوسیدہ، رجعتی اور متروک سرمایہ داری کی حدود و قیود میں مقید کوئی سیاست بنیاد پرستی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن سندھ کے عام لوگوں نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بلند آہنگ آواز اٹھائی ہے۔ یہ آواز ایک شہر یا گاؤں سے نہیں پورے سندھ سے اٹھ رہی ہے۔ جس کی بازگشت پورے ملک میں سنی جا سکتی ہے۔ ظلم، استحصال اور بنیاد پرستانہ تشدد کے خلاف اٹھنے والی یہ بے باک آوازیں جلد یا بدیر اس وحشت کے پشت بانوں اور سرپرستوں کو بھی للکار کے نہ صرف سندھ بلکہ پورے خطے کے وسیع تر عوام کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھائیں گی۔

Qamar Uz Zaman Khan
+ posts

قمر الزماں خاں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین  کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں اور ملکی سطح پر محنت کشوں کے حقوق کی طویل جدوجہد کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے پرچم تلے مزدور تحریک میں سرگرم ہیں۔