رچرڈ سیسل
انگریزی سے ترجمہ: قیصر عباس
رچرڈ سیسل (Richard Cecil) جانے پہچانے امریکی شاعر ہیں اور آج کل انڈیانا یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات پڑھاتے ہیں۔ ’Twenty First Century Blues‘ اب تک شائع ہونے والا ان کا آخری مجموعہ 2004ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاہ ان کے چا ر اور مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا کلام امریکہ اور برطانیہ کے ادبی رسائل میں شائع ہوتا ہے جن میں انگلینڈ رویو، امیریکن پوئٹری رویو، پوئٹری اور دیگر جریدے شامل ہیں۔
رچرڈ کی نظم ”داخلی جلا وطنی“ ہم عصر شعرا کے کلام پر مشتمل کتاب ’Good Poems For Hard Times‘ سے لی گئی ہے۔ نظم سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادی بے بسی کی داستان سنا رہی ہے جہاں ہر فردمعا شی نظام کا ایک پرزہ بن کر اپنے وطن میں داخلی جلا وطنی کے دن پورے کر رہا ہے:
ایک عرصہ پہلے
”ضرورت“ نام کی ایک جج نے
میرے کچھ جاننے والوں کو
شہر کی بڑی شاہراہ کے قریب
ٹریفک جام کے اس پار
ملازمت کی سزا سنائی تھی
جو انہیں پسند نہیں تھی
پھر بھی مجھے یاد نہیں کہ جلا وطنی کی سزا سن کر کوئی بھی قیدی
اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر چیخا ہو گا ”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا“
بلکہ جب انہیں عدالت کا محافظ ملازمت کے فارم بھرنے
اور مسکراتے چہرے کے ساتھ شناختی کارڈ بنوانے لے جا رہا تھا
تو انہوں نے ”کوئی بات نہیں، سزا تو اس سے بھی بری مل سکتی تھی“
منہ ہی منہ میں کہہ کر اسے قبول بھی کرلیا تھا۔
پھر ہر صبح جب سرہانے رکھا کمبخت گھڑی کا الارم
انہیں ساحل سمندر پر کسی خوبصورت اداکارہ کے ساتھ
سرمستیاں کرتے ہوئے حسین خواب سے باہر لے آتا
تو منہ ہی منہ میں یہ کہتے ہوئے اٹھتے:
”کوئی بات نہیں، سزا تو اس سے بھی بری مل سکتی تھی“
وہ صبح پانچ بجے اٹھتے، بلیوں کو کھانا کھلاتے ہی
دفتر پہنچتے
سارا دن کام کر کے گھر واپس آتے
بلیوں کو کھانا کھلاتے
اور ٹی وی پر شام کی خبروں میں
تازہ حادثات
تین ہزار سالوں سے صحر امیں بکھرے انسانی اعضا کے ٹکڑے
اور سمندری طوفان کی لپیٹ میں گھرے کسی خوبصورت جزیرے پر
لاکھوں ڈالر سے تعمیر کئے گئے گھروں کے اڑتے ٹکڑ ے دیکھتے
گہری نیند میں ڈوب جاتے۔
واقعی جب آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہوں جہاں دیکھنے کی کوئی چیز نہ ہو
نہ پہاڑ، نہ ساحل سمندر، نہ تاریخی مقامات
جہاں کسی ذی روح کو رہنے کی خواہش نہ ہو
مگر پھر بھی یہا ں رہنا پڑے
تو آپ کیا کریں گے؟
مجھے یاد ہے
انیس سال پہلے اس جگہ کی تعریف کرتے ہوئے
ملازمت کے انٹرویوکے دوران باس نے مجھے کہا تھا:
”یہ کام کرنے کے لئے ایک مثالی جگہ ہے، کوئی آپ کی توجہ مبذول نہیں کر سکتا۔“
کچھ غلط تو نہیں کہا تھا
کہ یہاں زندگی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے کام کرنا بہت آسان ہے
شاید اسی لئے
اپنی ریٹائرمنٹ کے پہلے دن ہی
وہ پہاڑوں میں گھری ایک حسین وادی میں کہیں دورجا بسا تھا۔
کیا آپ بھی کسی ایسی ہی جگہ جلا وطنی کے دن تو پورے نہیں کر رہے؟
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔