بالآخر 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دے ہی دیا۔ اس فیصلے کو کئی دنوں سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کارکنان اور تحریک انصاف کے صحافی ’ریڈ لائن‘ قرارد یتے چلے آ رہے تھے۔ ان کے انداز اور چیلنج سے لگ رہا تھا کہ ایسے فیصلے پر تحریک انصاف کے ”ٹائیگرز“، کارکن، پارٹی اور دو درجن کے قریب ذیلی تنظیموں کے ملک گیر ڈھانچے سب طوفان برپا کر دیں گے۔ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف کسی بھی ’فیصلے‘ کے خلاف ایسا زبردست احتجاج کریں گے کہ ملک میں کہرام مچ جائے گا۔ ایسے میں سارے ملک کا نظام، کاروبار حیات اور روزمرہ زندگی کاانتظام و انصرام ہنگاموں سے ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس تاثر کو کئی مہینوں مضبوط کیا جا رہا تھا کہ عمران خان بہت پاپولر ہے۔ اتنا پاپولر ہے کہ اس سے قبل نہ کوئی تھااور نہ کوئی ہو گا۔ یہ پراپیگنڈا اس وقت بھی کیا جاتا تھا جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی۔ تب پے درپے ہر بائی الیکشن ہارنے کا عمل شروع ہوا تو حسب عادت عمران خان نے اپنے ہی نامزد کردہ الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس پر ’شریف فیملی‘ کا ملازم ہونے کا الزام عائد کرنا شروع کر دیا۔ عمران خان کی ’بے پناہ‘ مقبولیت کے دعوؤں کی جعل سازی کئی دفعہ طشت از بام ہو چکی ہے۔ بطور خاص 2014ء کے دھرنوں میں جب وہ ہجوم جو اس کے جلسوں میں ’رونق میلہ‘ دیکھنے اور لگانے کے لئے آتا تھا اس نے بھی آنا چھوڑ دیا اور پھر ’کیمرے‘ کو صرف اسٹیج کور کرنے کا حکم تھا۔ ایک وقت میں جلسہ گاہ تقریباً خالی ہو چکی تھی۔ پھر آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہو گیا۔ اس اندوہناک سانحہ کی وجہ سے عمران خان کو دھرنے سے فرار کا موقع مل گیا۔ جب جعل سازی سے عمران خان کو اقتدار سونپا گیا تو اس سے قبل ایک تاثر یہ بھی قائم کیا گیا کہ ’عمران خان ایک نجات دھندہ ہے‘ جس کے پاس ہر قسم کے مسائل کا جادوئی حل موجود ہے۔ اس تاثرکی ’شہرت‘ کے لئے بھی تشہیر کا ہر’میڈیم‘ استعمال کیا گیا مگر پھر تحریک انصاف کی حکومت پہلے مہینے ہی ناکامی کا شکار ہو گئی۔ ناقدین کو پہلے سو دن، پھر ایک سال اس کے بعد دوسرے سال تک انتظار کرنے کا کہا گیا۔ مگرجب اہداف ناکامی کا شکار ہو گئے تو پھر جعل سازی کا سہار ا لیا گیا اور غیر متعلقہ اعداد و شمار پیش کرنا شروع کر دیئے گئے۔ کووڈ 19 سے قبل معیشت کی نمو منفی ہو چکی تھی مگر اس کی وضاحت معاشی وجوہات سے کرنے کی بجائے اس کو ’کورونا‘ سے جوڑ کر پیش کیا گیا۔ کورونا میں بھی مختلف قسموں کے لاک ڈاؤن تقریباً سات ماہ تک جاری رہے۔ یہاں بھی جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے خود کو عالمی سطح کا بہترین منتظم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران تحریک انصاف کی حکومت کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی مگر سب سے بہترین کارکردگی ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی رہی۔ اس ٹیم نے مخالفین کے خلاف دشنام طرازی کے ریکارڈ قائم کیے اور جعل سازی سے ناکام حکومت اور ناکام قیادت کو دنیا کی بہترین کارگزاری والے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہی کوششوں کی مسلسل مشق سے انہوں نے عمران خان کو انسان سے دیوتا بنا دیا اور پھر خود ہی اس کی پوجا بھی شروع کر دی۔ یہ ٹیم جس کا آغاز چند درجن نوجوانوں سے ہوا تھا، نادیدہ اور دیدہ فنڈز، پراسرار قوتوں کی ٹریننگ اور اعانت اور پھر جدید’بوٹس‘کے ذریعے پاکستان بھر کے میڈیا کے بالمقابل طاقتور اور موثر ترین ٹول میں بدل گئی۔ ہر روز نئے سے نئے جھوٹے ٹرینڈز بنائے اور انہیں سرفہرست رکھنے کی تکنیکی مہارت بروئے کار لائی گئی۔ اس پراپیگنڈا مشینری کو ’تعلیم یافتہ‘ مڈل کلاس فالوونگ، جس کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، نے وسعت دینے میں بھرپور سرگرمی دکھائی۔ عمران خان جو جھوٹ کو پورے اعتماد سے بولنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا، نے ہر روز بے پر کا بیانہ اڑانے کا نیا ٹرینڈ قائم کیا۔ اس تکنیک کی وجہ سے عمران خان ہر روز اخبارات کی سرخیوں اور ٹاک شوز کے ایجنڈے پر رہتا ہے۔ ٹویٹر کے ساتھ یوٹیوب سے بھی جھوٹ پھیلانے کے لئے ’خفیہ ذرائع‘ کے تربیت یافتہ صحافی مہیا کیے گئے۔ جہاں ایک طرف آدھے چینلوں کو عمران خان کے ’موقف‘ کوسچ اور حق بنانے پر مامور کر دیا گیا، وہاں ریاستی اثاثوں کی طرز کے مخصوص صحافی پہلے ڈیوٹی کے طور پر اور پھر مستقل طور پر عمران خان کے جھوٹے پراپیگنڈے کے ساتھ اٹیچ ہوتے گئے۔ ساتھ ہی ایک ٹیم سابق فوجی جرنیلوں اور آفیسرز کی بھی دیگر (مکمل کنٹرول میں نہ آنے والے) چینلوں کے ٹاک شوز پر عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے موقف کی حمایت اور دفاع کے لئے بٹھا دی گئی۔ پاکستان میں یہ عہد (جو ابھی تک جاری ہے) رائی کو پہاڑ بنانے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں تبدیل کرنے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کئی سطحوں پر قائم اور ریاستی وسائل سے’فیض یاب‘اس سطح کی پراپیگنڈا ٹیم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اس پراپیگنڈے کے اثرات بہرحال مرتب ہوئے ہیں۔ اس سے کئی جعلی تاثر مضبوط ہوئے۔ خاص طور پر بیرون ملک پاکستانی اس سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا جینا مرنا یورپ اور امریکہ میں ہے اور وہ پاکستان میں گرم و سرد سے بہرحال محفوظ ہی رہتے ہیں۔ ان کی پاکستانی حب الوطنی اسی طرح دوغلے پن کا شکار ہے جیسے عمران خان کی پاکستان میں فالوونگ کی اخلاقیات۔ پاکستان میں تحریک انصاف نے ’سیاست میں سب کچھ جائز ہے‘ کا اصول بنا کر جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز ختم کر دی۔ عمران خان جہاں ہر روز خود کو ’کہہ مکرنی‘ کے گھٹیا اور پست طریقہ کار پر قائل کرتا اور ہر معاملے پر یو ٹرن لیتا ہے وہیں اس کی تقریباً ساری فالونگ ہی سماج کے اس حصے سے تعلق رکھتی ہے جن کو اپنی روزی روٹی اور معاشی سرگرمیوں کے لئے سارا دن ہی جھوٹ، دغابازی، ملاوٹ، فریب اور دھوکہ بازی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس غلیظ طرز زندگی کے روز و شب کی سیاہ کاریوں کا تدارک وہ مذہبی طرز بودوباش، وضع قطع، لفاظی اور ریاکارانہ عبادات سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود سے کی گئی اس دھوکہ دہی سے ان کی شخصیت اور زیادہ مکروہ ہوتی جاتی ہے اور وہ نیکو کاری کے زعم میں پورے وثوق سے دوغلی زندگی گزارتے ہیں۔ عمران خان سماج کے اسی دوغلی نفسیات و کردار کے حامل حصے کا نمائندہ ہے۔ جہاں یہ طبقہ دہائیوں سے قیادت سے محروم تھا وہیں پچھلے چوبیس سالوں سے عمران خان کی موقع پرستی اسی قسم کی فالونگ کی متلاشی تھی۔ بھٹو سے نواز شریف تک اسٹیبلشمنٹ کے تجربات ناگوار نتائج سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ لہٰذا ریاست کے طاقتور حلقوں کو کردار سے عاری اور نظریاتی بے سمتی کے شکار ’سیاسی آوارہ گرد‘ کسی ایسے ہی فرد کی تلاش تھی جو ان کی انگلیوں کے اشاروں پر چلنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہ کرے۔ جہاں ایک طرف ایسے طبقے کا تناسب 22 کروڑ کی آبادی میں دو ڈھائی کروڑ (مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس) افراد پر مبنی ہے وہاں اس طبقے کی طبیعت میں شو، شا رنگ بازی، جعلی گرم جوشی اور دکھاوا تو کافی ہوتا ہے مگر مصیبت مول لینے یا آسودگی سے محروم ہونا پسند نہیں ہوتا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے محنت کش طبقہ تحریک میں آ کر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا‘ اس قسم کا جذبہ اور حوصلہ مڈل کلاس میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایسے مناظر ہم 25 مئی کے مارچ میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ بددل کر دینے والی کم ترین شمولیت سے لے کر اختتامی پسپائی تک سب کچھ ’سونامی‘ کی حقیقت واضح کرنے کے لئے کافی تھا۔ ریاستی ردعمل پر پورا لانگ مارچ ہی الٹ گیا اور تب سے تادم تحریر یہ لانگ مارچ پینڈنگ ہی چلا آ رہا ہے۔ پہلے پنجاب کے صوبائی اور اب پنجاب و پختو خواہ میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح یابی کو پچھلے چھ سات ماہ کے حکومتی اقدامات اور عوام پر معاشی حملوں کے تناظر میں دیکھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کی اکثریت ’پی ٹی آئی‘ اسی قسم کے عوامل کی وجہ سے ہار چکی تھی۔ موجودہ انتخابات تب ہوئے جب عمران خان پچھلے چھ ماہ سے مسلسل جلسے، اجتماعات، انٹرویوز، روزانہ وار سوشل میڈیا مہمات، یوٹیوب پروگرامز اور ٹویٹس جاری رکھے ہوئے تھا اور اس کے بالمقابل بالخصوص مسلم لیگی قیادت پہلے سے ہی شکست خوردگی، متزلزل سوچوں اور ’مشکل فیصلوں‘ کے زیر اثر بددلی کا شکار تھی۔ انہوں نے درست معنوں میں الیکشن جیتنے کی غرض سے کہیں لڑا ہی نہیں۔ دوسری طرف قیادت اور تشہیری ٹیموں کی مسلسل رابطہ مہم سے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کسی قدر متحرک ثابت ہوا اور مسلم لیگ کی حمایت کو مہنگائی اور سامراجی احکامات کی تعمیل کرنے والی اپنی پارٹی کو ووٹ دینے میں تامل محسوس ہوا۔ نتائج پر مسلم لیگ کے معاشی فیصلوں نے اثر دکھایا۔ مگر ووٹ دینا ایک بات رہی۔ 16 اکتوبر سے 21 اکتوبر تک محض پانچ دن میں ہی تحریک انصاف کی حمایت کے سامنے عملی جدوجہد کا جو نیا امتحان آیا اس میں اس کو وہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی بڑھک بازی کی جا رہی تھی۔
الیکشن کمیشن نے وہ ’ممنوعہ ریڈ لائن‘ کراس کی اور عمران خان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کو بدعنوان بھی قرار دیا اور ڈی سیٹ بھی کر دیا۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے کے برعکس زمین پر ایسا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ گو پنجاب اور صوبہ پختونخواہ کی حکومتی مشینری کی مکمل حمایت انہیں حاصل تھی مگر کہیں بھی ایسا مجمع اکھٹا نہ ہو سکتا جو ریڈ لائن عبور کرنے والوں کے لئے کوئی مشکل پیدا کر سکے۔ ایک دو گھنٹوں میں ہی عمران خان کو بھی خود کو اس ’ٹرانس‘ سے نکالنا پڑا جس میں اس نے خود کو مبتلا کیا ہوا تھا۔ تین چار بڑے شہروں کے علاوہ کہیں بھی احتجاجی چالیس پچاس سے زائد نہ تھے۔ یہ لوگ ساری رات یا اگلے دن تک احتجاج نہیں کر سکتے تھے۔ کسی ریاستی مداخلت کے نہ ہونے کے باوجود چند گھنٹوں میں ہی یہ احتجاج تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔ عمران خان کو اس تشویش ناک صورتحال سے نکلنے کے لئے احتجاج کے خاتمے کی اپیل کرنا پڑی۔ ’پاپولرٹی‘ کے بھوت کی آزمائش نہ ہو تو وہ کافی لوگوں کو ڈرا سکتا ہے۔ یہ بھوت اس لئے بھی گردش کر رہا ہے کہ سماج کا اکثریتی محنت کش طبقہ چپ سادھے ہوئے ہے۔ جب وہ جاگا تو تحریک انصاف جیسی قوتیں اپنے سماجی و سیاسی تناسب کے لحاظ سے سکڑ کر اپنی حقیقی عددی حیثیت میں نظر آئیں گی۔ جب تک اکثریت خاموش اور ساکت ہے تب تک پراپیگنڈا اور سوشل میڈیا پر کسی بھی شور و غوغا کو تاریخی مقبول قوت ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مگر اصل فیصلہ سوشل میڈیا اور اقلیتی نظام سیاست کے انتخابات کی بجائے زمین پر ہو گا۔ ابھی متحارب قوتوں میں مقابلہ اقتدار تک رسائی کا ہے۔ جبکہ اصل لڑائی نظام کو بدلنے کی ہو گی اور تب موجودہ متحارب فریقین کا بڑا حصہ یکجا ہو کر محنت کشوں کے خلاف لڑے گا۔ مگر تاریخی شکست سے ہمکنا ر ہو گا۔