خبریں/تبصرے

امریکہ کی آسٹریلیا کو ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے میں شامل ہونے پر دھمکی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکہ نے آسٹریلیا کو ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے میں شامل ہونے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان دفاعی انتظامات کو متاثر کر سکتا ہے۔

تاہم نیوزی لینڈ نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے ووٹ میں آسٹریلیا کی پوزیشن میں ایک مثبت تبدیلی کا مشاہدہ کرنے پر خوش ہے اور بلاشبہ جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے حصول کیلئے ایک اہم قدم کے طور پر کسی بھی نئی توثیق کا خیر مقدم کرے گا۔

’گارڈین‘ کے مطابق یہ تبصرے اس کے بعد ہوئے ہیں کہ آسٹریلیا کی البانی حکومت نے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے پر آسٹریلیاکی ووٹنگ پوزیشن کو اتحادی حکومت کی طرف سے 5 سال کی مکمل مخالفت کے بعد ابسٹین کرنے کیلئے تبدیل کر دیا ہے۔

جوہری معاہدہ ہتھیاروں کو تیار کرنے، جانچ کرنے، ذخیرہ کرنے، استعمال کرنے یا استعمال کرنے کی دھمکی دینے یا اس طرح کی سرگرمیوں کو انجام دینے میں دوسرے ممالک کی مدد کرنے پر مکمل پابندی عائد کرتا ہے۔ تاہم اب تک اسے تمام جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاستوں اور ان کے بہت سے اتحادیوں نے روک رکھا ہے۔

کینبرا میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ ’یہ معاہدہ امریکی توسیعی ڈیٹرنس تعلقات کی اجازت نہیں دے گا، جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کیلئے اب بھی ضروری ہیں۔‘

یہ اس بات کا حوالہ ہے کہ آسٹریلیا کسی بھی جوہری حملے کو روکنے کیلئے امریکی جوہری قوتوں پر انحصار کرتا ہے۔ حالانکہ آسٹریلیا کے پاس اپنا کوئی جوہری ہتھیار نہیں ہے۔

سفارتخانے نے کہا کہ ’اس معاہدے سے بین الاقوامی برادری کے اندر تقسیم کو تقویت دینے کا بھی خطرہ ہے۔‘

امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے بتایا کہ ’امریکہ جوہری تخفیف اسلحہ کے اہداف کو آگے بڑھانے کی خواہش کو سمجھتا ہے اور اس کا اشتراک کرتا ہے۔ ہم جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے کی حمایت نہیں کرتے۔‘

یہ تبصرے اس بات کی علامت ہیں کہ آسٹریلیا کو اپنے اعلیٰ سکیورٹی اتحادی کی طرف سے اس پش بیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر وہ معاہدے پر دستخط کرنے اور اس کی توثیق کرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ابھی بھی دور لگتا ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی جوہری ہتھیاروں کے خلاف وکالت میں شامل رہے ہیں اور انہیں اب تک بنائے گئے سب سے تباہ کن غیر انسانی اور اندھا دھند ہتھیار قرار دیتے ہیں۔

اس معاہدے پر اب 91 دستخط کنندگان ہیں، جن میں سے 68 نے اس کی باضابطہ توثیق کر دی ہے اور یہ گزشتہ سال نافذ ہوا تھا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts