صائمہ بتول
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں جہاں پسماندگی اپنی تمام تر شکلوں میں موجود ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود اس خطے کے باسی سسک سسک کر اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بنیادی انفراسٹراکچر کی عدم تعمیر سے لے کر صحت اور تعلیم کی سہولیات کی خستہ حالی اور عدم موجودگی تک مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ جو اس خطے کے باسیوں کی زندگیوں کو اجیرن کیے ہوئے ہے۔
معاشی و قومی جبر و استحصال میں پروان چڑھنے والی پود اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ سماجی گھٹن نے نوجوانوں سے زندگی کی رمق چھین لی ہے۔ زندگی جیسی انمول نعمت سے لطف اندوز ہونے کی بجائے نوجوانی میں اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے موت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔
ایک غیر سرکاری ادارے (آئی سی آر ڈی) نے دعویٰ کیا ہے کہ 2021ء اور 2022ء کے پہلے پانچ ماہ کے دوران گلگت بلتستان میں خودکشی کے تقریبا 225 واقعات رپورٹ ہوئے۔ گلگت بلتستان کے ایک صحافی رجب کے مطابق 2021ء اور 2022ء کے دوران خودکشی کرنے والوں میں 116 مرد اور 110 خواتین شامل ہیں۔ گلگت کے مختلف علاقہ جات میں ہونے والی خود کشیوں میں غذر پہلے نمبر پر ہے،جہاں تقریبا 132 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔گلگت بلتستان کے باقی اضلاع، جن میں ہنزہ، نگر، دیامر، استور، گانچھے، شگر، ہرمنگ وغیرہ شامل ہیں، جہاں کل ملا کر خود کشی کے تقریبا 70 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں ایسے کیس ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ محکمہ پولیس بھی صحیح اعداد و شمار بتانے سے گریزاں نظر آتا ہے۔ خود کشی کے زیادہ تر معاملوں کے متعلق مقامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی لاشوں کو دریا میں بہا کر خود کشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لاشوں کو مسخ کرنے کے لیے پانی کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے بھائی، باپ یا منگیتر کے ہاتھوں غیرت کے نام پہ قتل ہونے والی خواتین کی لاشوں کو دریا کے سپرد کر دیا جاتا ہے تاکہ قتل کا کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ دریا میں کود کر جان دینے والوں میں نوجوان لڑکے بھی شامل ہیں۔ خود کشی کے ان تمام واقعات کو بنا پوسٹ مارٹم ہی خود کشی کا نام دے کر محکمہ پولیس اپنی فائلیں بند کر دیتا ہے۔
گلگت میں ذہنی صحت کے بحران کے حوالے سے محکمہ صحت کا کہناہے کہ پہاڑوں کے درمیان واقع اس خوبصورت علاقے میں مختلف مسائل موجود ہیں۔ جن میں غربت و بے روزگاری جیسے مسائل سر فہرست ہیں، جو نوجوانوں کو موت کی دہلیز پہ لے جاتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی خود کشی کے واقعات میں بتدریج اضافہ نظر آ رہا ہے۔ یہاں ہونے والے زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ محکمہ پولیس کے پاس درج شدہ واقعات بہت کم ہیں۔ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ خود کشی جیسے واقعات کے اعداد و شمار پر کام نہیں کرتا۔ خود کشی کے واقعات میں میڈیا کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاتا۔ جس خاندان کے گھر میں خود کشی جیسا واقع رونما ہوتا ہے، اس خاندان کو معاشرے کی طرف سے مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے گھر کا ایک فرد کھو کر بھی ایسا خاندان کھل کر اپنے غم کا اظہار نہیں کر پاتا۔ معاشرے کی طرف سے بنائی گئی رسموں نے ایسے خاندانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
اس خطہ میں خود کشی کے زیادہ تر واقعات ایسے ہیں جو معلوم وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں۔ ان وجوہات میں سر فہرست بلیک میلنگ، ہراسمنٹ،محبت میں ناکامی، امتحان میں نمبر کم آنا، یا فیل ہو جانا، معاشی دباؤ، روزگار کی عدم دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔
سال 2019ء میں ضلع پونچھ کی تحصیل ہجیرہ میں ایک لڑکی نے بینک منیجر کی طرف سے ہونے والی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر خود کشی کی۔ سال 2019ء میں ہی راولاکوٹ کے ملحقہ علاقے دریک میں پانچ بچوں کی ماں نے گھریلو تشدد سے مجبور ہو کر خود کشی کی۔ 2020ء میں ایک 36 سالہ خاتون نے گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت دریائے پونچھ میں خود سوزی کی کوشش کی۔ 2020ء میں ہی تتہ پانی کے ایک نواحی علاقے میں 18 سالہ لڑکی کی پراسرار موت ہوئی جسے خود کشی کہا گیا۔ 2021ء میں پونچھ کی تحصیل ہجیرہ کے نواحی گاوں سیراڑی میں ایک سکول جانے والی طالبہ نے زہر کھا کر خود سوزی کی۔ تاہم اہل علاقہ کی طرف سے اس طالبہ کی موت کو قتل قرار دیا گیا۔ پولیس کی طرف سے معاملے کی صاف شفاف تحقیقات نہ ہونے کی بنا پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ سیراڑی میں موجود ایک ویلفیئر فورم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ طالبہ کو تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ 2021ء میں باغ کے نواحی گاؤں کھرل عباسیاں کی رہائشی خاتون نے خود سوزی کی۔ باغ میں ایک طالبہ نے امتحان میں نمبر کم آنے کی وجہ سے زہر کھا کر زندگی ختم کی۔ 2019ء میں راولاکوٹ کالج کے طالب علم نے پھندا ڈال کر خود کشی کی۔
2019ء میں ہی حویلی میں ایک قیدی کی دوران حراست موت کو خود کشی بتایا گیا۔ 2019ء میں باغ کے ملحقہ علاقے ارجہ میں نوجوان نے بے روزگاری سے تنگ آ کر خود سوزی کی۔
عباس پور ضلع پونچھ میں رواں برس اگست میں میٹرک کے امتحان میں نمبر کم آنے کی وجہ سے میٹرک کے طالب علم نے خود کشی کی۔ رواں برس عباسپور سے ملحقہ علاقے میں ایک نوجوان نے گھریلو مسائل سے تنگ آ کر زندگی کا خاتمہ کیا اور ایک نوجوان نے محبت میں ناکامی کی وجہ سے خود سوزی کی۔ اسی سال ہجیرہ کے نواحی گاؤں میں نوجوان کی پر اسرار موت کو خود کشی بتایا گیا۔
رواں برس مظفرآباد یونیورسٹی کے طالب علم نے سوشل میڈیا پر تحریر لکھ کر کہا کہ اس کوبلیک میل کیا گیا جس کی وجہ سے وہ خود کشی کر لے گا۔ مظفر آباد میں 2020ء میں بھی خود کشی کا ایک ایسا واقع رونما ہوا تھا۔ جس کے بارے میں ورثا نے کہا تھا کہ ان کے بیٹے نے پولیس کے ڈر سے خود کشی کی۔ 2020ء میں (امبور) مظفر آباد کے ایک نوجوان کا دریائے نیلم میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے کا کیس رپورٹ ہوا۔ 19 نومبر 2022ء مظفر آباد (پرانے کوہالہ پل) سے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرنے والے آدمی کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہے۔ پراسرار اموات کی تحقیق کیے بنا ایسی اموات کو خود کشی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قوی امکانات ہیں کہ ایسے بے شمار واقعات ہیں، جن کا کسی بھی میڈیا پر پرچار نہیں ہوا۔
بے حسی ایک عمومی رجحان کی صورت سماج پر حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کو اس خطے میں بسنے والوں کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ اپنے اقتدار کے حصول سے لے کر اسے مستحکم رکھنے تک کے لیے یک نکاتی ایجنڈے پر کار فرما ہیں، جس کے مطابق اپنے مالکان کی خوشنودی کرتے جانا ہے اور اس خطے کے عوام پر ظلم، جبر و استحصال کے لیے ہر ممکن حد تک مددگار ثابت ہونا ہے۔
عالمی معاشی بحران کے اثرات نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہاں اسے خطے کے باسی بھی بدترین شکل میں ان بحرانات کے متاثرین میں شامل ہیں۔ غربت اور امارت کے درمیان خلیج جو ماضی میں ان علاقوں میں بہت زیادہ نہیں تھی، اس میں اب دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی طور پر کسی بھی صنعت کی عدم موجودگی کی وجہ سے روزگار تو سرے سے موجود ہے ہی نہیں۔ جو روزگار کے مواقع دیگر ممالک میں موجود تھے، وہ بھی اب مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ ایسے میں مستقبل نوجوانوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے بڑھ کرکچھ نہیں رہ گیا ہے۔
مستقبل کے حوالے سے پائی جانی والی غیر یقینی کیفیت کے باعث ایک اضطراب، بے چینی اور بیگانگی سماج پہ حاوی ہے۔ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت نے لے لی ہے اور انفرادیت نے انسان کو لاکھوں کے ہجوم میں اکیلا کر دیا ہے۔
اس اضطراب، اس بیگانگی کا سدباب اسی صورت ممکن ہے کہ ان تمام تعصبات کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ اس معاشی ڈھانچے کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جائے، جو موجب ہے اس قومی و صنفی جبر کا، جس نے بین الاقوامی طور پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ان تعصبات کو پروان چڑھایا ہے اور جب تک یہ قائم و دائم رہے گا، نہ حکمرانوں کی روش بدلے گی، نہ اس خطے کے حالات بدلیں گے۔ ہر گزرتا دن ان میں مزید شدت لائے گا۔ انفرادیت کی اس اذیت کو اشتراکیت کی آغوش میں ہی استراحت نصیب ہو گی۔