اکبر نوتزئی
کہتے ہیں بلوچستان میں افسوسناک خبروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ خان محمد مری کی بیوی اور دو بیٹوں کی لاشیں بارکھان میں کنویں سے برآمد ہونے کی خوفناک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
توقع کے عین مطابق سفید کپڑے میں لپٹے تابوتوں میں رکھی خاتون اور خان محمد مری کے دو بیٹوں کی لاشیں اسی رات کوئٹہ لائی گئیں، جہاں ان کے ساتھی قبائلی افراد نے شہر کے ریڈ زون میں زرغون روڈ پر احتجاج کا آغاز کر رکھا تھا۔
یہ وہ جگہ ہے، جہاں وزیر اعلیٰ اور گورنر کی سرکاری رہائش گاہیں واقع ہیں اور یہ وہ جگہ ہے جہاں لاپتہ ہونے والوں کے اہل خانہ سے لیکر احتجاج کرنے والے اساتذہ اور حتیٰ کے ارکان پارلیمنٹ تک ہر کوئی اپنی آواز سنانے کیلئے جمع ہوتا ہے۔
ماضی کے دیگر مظاہرین کی طرح مری قبیلے کے تین افراد کے قتل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے بھی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
پس منظرکے انٹرویوز بتاتے ہیں کہ بارکھان سانحہ کے پیچھے کی کہانی ایک دھوکہ ہے۔ خان محمد مری عبدالرحمن کیتھران کا باڈی گارڈ ہوا کرتا تھا۔
تاہم وہ اس وقت ضلع سے بھاگنے پر مجبور ہوا، جب سردار نے اسے اپنے ہی بیٹے انعام شاہ کے خلاف گواہ بننے کا حکم دیا، کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے دستبردار ہو چکے تھے۔ اس کے انکار کا مطلب اس کی موت تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ صوبہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔
خان محمد مری کے فرار ہونے کے بعد سردار نے مبینہ طور پر مری کی بیوی گراناز اور اس کے 7 بچوں کو اپنی نجی جیل میں غیر قانونی طورپر قید کر رکھا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں بدحواس گراناز کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ انہیں قرآن ہاتھ میں اٹھائے مدد کی التجا کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ تاہم ویڈیو سامنے آنے کے فوری بعد ایک خاتون اور خان محمد مری کے دو بیٹوں کی لاشیں سامنے آئیں۔ مری خاندان سمیت دیگر مظاہرین سردار کیتھران کو قتل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، جبکہ وہ اس الزام کی تردید کر رہے ہیں۔
بدھ کے روز تینوں مقتولین کی لاشیں زرغون روڈ پر کھڑی دو ایمبولینسوں میں پڑی تھیں۔
ایک وسیع شامیانے کے نیچے مظاہرین کے بیٹھنے کیلئے قالین بچھائے گئے ہیں۔ ایسے بینر اور پلے کارڈبھی آویزاں ہیں، جن پر سردار اور ریاستی حکام کی ناکامیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہاں جمع ہونے والے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کا ایک مضبوط دستہ بھی موجود ہے، جو متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہیں۔
آل پاکستان مری اتحاد کے رہنما مہر الدین مری نے بتایا کہ جب سے ان کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، مری قبیلہ متاثرین کی رہائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ’عدالتوں اور میڈیا سمیت کسے نے بھی توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ سردار سردار نے انہیں قتل کرایا۔‘
ان کی طرح اجتماع میں موجود دوسرے لوگ بھی غصے میں تھے۔ مری اتحاد کے جنرل سیکرٹری جہانگیر نے کہا کہ ’ان کے گھر پر چھاپے محض ایک ڈرامہ تھے۔‘
جب انفرادی طور پر کچھ مظاہرین سے رابطہ کرنے پر یو ں لگتا ہے کہ ان سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سردار عبدالرحمن کیتھران کو گرفتار کیا جائے۔
منگل کی رات سے احتجاج میں موجود ایک نوجوان یونیورسٹی طالبہ حاجرہ سے جب پوچھا گیا کہ کس چیز نے انہیں اس مظاہرے میں آنے پر مجبور کیا ہے، تو وہ بتاتی ہیں کہ ’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ انصاف کی بالادستی ہو، تاکہ خواتین اور ان کے بچوں کے خلاف اس طرح کے المناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔‘ انکا کہنا تھا کہ ’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو روکا جا سکے۔ میں امید کے خلاف سردار عبدالرحمن کیتھران کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے آئی ہوں، کیونکہ انہوں نے صوبائی حکومت میں وزیر ہونے کے باوجود قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ میں یہاں اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے آئی ہوں، جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔‘
مظاہرین سے بات کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ دھرنے میں ہجوم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت شام ہو چکی ہے اور کچھ لوگ مقامی دکانداروں سے چائے خرید رہے ہیں۔ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ وہاں تھوڑی دیر کیلئے ہیں رہیں گے۔
وہاں سے نکلنے سے قبل میں متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایمبولینس کی طرف گیا۔ شام کی ہوا میں ایک خوفناک خاموشی تھی۔ کچھ فاصلے پر لاؤڈ سپیکر پر ایک آدمی سردار کیتھران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
بعد ازاں رات کو اطلاع ملی کہ گراناز اپنے دو بچوں کے ساتھ زندہ برآمد ہوئی ہیں، جبکہ کنویں سے ملنے والی لاش، ان سے بہت زیادہ کم عمر خاتون کی تھی، جس کی عمر 17 یا 18 سال کے قریب تھی۔
سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا سفید کپڑے میں لپٹے تابوتوں کو انصاف ملے گا؟
بشکریہ: ’ڈان‘، ترجمہ: حارث قدیر