نقطہ نظر

’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

فاروق سلہریا

ڈاکٹر اکمل حسین کا شمار ملک کے اہم ترین اور معروف ترین ماہرین اقتصادیات میں ہوتا ہے۔ وہ ان دنوں بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ ماضی میں کئی ملکی و غیر ملکی جامعات میں درس و تدریس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے معاشیات میں بیچلرز کی ڈگری کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ پی ایچ ڈی سسکس یونیورسٹی سے کی۔ وہ تین کتابیں اور درجنوں تحقیقی مقالے تحریر اور شائع کر چکے ہیں۔ ان کے کالم ’دی نیوز‘ میں شائع ہوتے ہیں اور گاہے گاہے وہ نیوز چینلوں پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا تفصیلی تعارف ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

ملک کی حالیہ معاشی صورت حال میں انہوں نے روزنامہ جدوجہد کو ایک انٹرویو میں تفصیلی اظہار خیال کیا جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:

ہر روز میڈیا پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ بتائیں کہ ڈیفالٹ ہوتا کیا ہے اورعام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟

ڈاکٹراکمل: بالکل سادہ طریقے سے اگر اس کا جواب دیا جائے توڈیفالٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو آپ نے قرضے لئے ہوئے ہیں ان کی قسطیں اور سود ادا کرنے کے آپ قابل نہ رہیں۔ جن لوگوں نے آپ کو قرضے دیئے ہوئے ہیں، انہیں آپ یہ کہہ دیں کہ آپ قرضے واپس نہیں کر سکتے۔ یہ ساورن ڈیفالٹ (Sovereign Default) ہے، یعنی ملک یا ریاست کا ڈیفالٹ ہے۔

جہاں تک عام آدمی پر اس کے اثرات کا تعلق ہے، تو یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ روز مرہ زندگی کی ضرورت کی اشیا قرض لیکر یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے خریدتے ہیں اور اگر آپ کا کریڈٹ کارڈ منسوخ ہو جائے تو آپ روز مرہ کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے۔

جہاں تک معاشیات کا تعلق ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ باہر کے ملکوں سے کوئی چیز بھی درآمد نہیں کر سکیں گے کیونکہ جب آپ ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ (فارن ایکسچینج) یا ڈالر ہی موجود نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ملک آپ کو مصنوعات نہیں دے گا۔ اس وقت پاکستان کے اندر بننے والی 40 فیصد اشیا کا خام مال وغیرہ باہر سے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 40 فیصد مصنوعات تیار ہونی بند ہو جائیں گی۔ جو مصنوعات باہر سے درآمد کرتے ہیں وہ تو مکمل بند ہو جائیں گی۔

باہر سے آپ سب سے بڑی چیز تیل درآمد کرتے ہیں۔ تیل کے ساتھ آپ کی بجلی کا تقریباً 60 فیصد حصہ بنتا ہے۔ تیل سے بننے والی بجلی بند ہو جائیگی تو بجلی کی قلت ہو جائے گی۔ تیل نہ آنے سے ٹرانسپورٹ نہیں چل سکے گی۔ اس کا قومی دفاع پر بھی اثر پڑے گا۔ ایئرفورس کے لئے بھی فیول چاہیے، فوج کی نقل و حمل کیلئے، ٹینکوں اور گاڑیوں کیلئے بھی تیل چاہیے ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ فوج کے پاس کچھ سٹریٹجک ذخائر ہوتے ہیں، وہ مجھے نہیں پتہ کتنے عرصہ تک چل سکتے ہیں۔ اسی طرح کھاد اور کیڑے مار ادویات درآمد نہیں ہو سکیں گے، جس سے زراعت پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ٹیوب ویل نہیں چلیں گے، بہت سے علاقوں میں ٹیوب ویل کی بنیاد پر کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ اس طرح گندم کی پیداوار جو پہلے ہی ناکافی ہے، اور زیادہ کم ہو جائے گی۔

یوں ایک صورت ہوتی ہے کہ افراط زر ہو، یعنی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لیکن ایک صورتحال یہ ہوتی ہے کہ چیزیں ملتی ہی نہیں ہیں۔ پٹرول اور گندم ملنا بند ہو جائینگے، بیشتر ضروریات زندگی کی اشیا بننی بند ہو جائیں گی۔ اس طرح سے سارے ملک میں اشیا کی ایک ہمہ گیر قلت آئے گی، جو پاکستان کی تاریخ میں نہیں آئی ہے۔

جب آپ کے گھروں، فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں بجلی نہیں ہو گی۔ ادویات کا زیادہ تر خام مال باہر سے ہی درآمد ہوتا ہے، وہ بھی بنی بند ہو جائیں گی۔ اس سب کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں، یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

ہماری فوج دو تین مہینے کے بعد اپنا کام کرنے سے قاصر ہو جائے گی۔ یہ سب ایک خوفناک نتائج لے کر آئے گا۔ ڈیفالٹ نہ بھی کریں تو قحط کا خطرہ ہے۔ ڈیفالٹ ہونے کے بعد تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس کے پھر سیاسی نتائج بھی ہونگے۔

ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں ہی ڈالر کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ اسحاق ڈار کی نااہلی ہے کہ وہ ڈالر کو کنٹرول نہیں کر پا ئے، یا گلوبل حالات کی وجہ سے ہے، یا دونوں رجحانات ایک ساتھ چل رہے ہیں؟ اور جب ڈالر اوپر جاتا ہے تو عام شہری پر اس سے کیا فرق پڑتاہے؟

ڈاکٹر اکمل: یہ درست ہے کہ ڈالر کی قیمت دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے، لیکن یہ صرف ایک عنصر ہے۔ اس کے علاوہ دو اور اہم فیکٹرزہیں۔ دنیامیں ڈالر کی قیمت اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہی ہیں، جتنی پاکستان میں بڑھ رہی ہیں۔ ایک فیکٹر یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت کا انحصار اس پر ہے کہ تجارتی خسارہ کتنا ہے…یعنی جو آپ بیرون ملک سے چیزیں خریدنے پر ڈالر خرچ کرتے ہیں اور جو ملک میں بننے والی اشیا بیرون ملک بھیج کر ڈالر کی آمدن ہوتی ہے، اس میں فرق کتنا ہے۔ خرچہ زیادہ ہو جاتا ہے، آمدن کم ہوتی ہے، جب یہ فاصلہ ہوگا تو مطلب یہ ہے کہ ڈالر کی مانگ زیادہ ہے اور سپلائی کم ہے۔ پھر ظاہر ہے ڈالر کی قیمت بڑھے گی۔ تجارتی خسارہ جب بڑھتا چلا جائے گا تو ڈالر کی قیمت بھی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔

تیسرا فیکٹر یہ ہے کہ کاروباری اور صنعت کار لوگ جنہیں خام مال اور دیگر درآمدات کی ضرورت ہوتی ہے وہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے خدشے کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ ڈالر خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ضرورت سے زیادہ لوگ ڈالر خریدیں گے تو اس سے بھی مانگ بڑھے گی اور قیمت بھی بڑھ جائیگی۔ اس کے ساتھ کرنسی ٹریڈرز بھی ہوتے ہیں، جن کا منافع ہی اسی میں ہے کہ سستے ڈالر خرید کر مہنگے فروخت کئے جائیں۔ جب انہیں قیمت بڑھنے کا پتہ چلے گا تو وہ ڈالر خرید لیں گے۔

جہاں تک بات عام آدمی پر اثرات کی ہے، جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خام مال یا تیل ڈالر سے خریدے جاتے ہیں، ان کیلئے زیادہ روپے دینے پڑیں گے۔ اس طرح بجلی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔ تیل اور بجلی وہ دو سوئچ ہیں جو ہر چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا سمیت ہر چیز جو پاکستان کے اندر بنتی ہے، اسکی قیمت بڑھ جائے گی۔ یوں عام آدمی پر اثر یہ ہوگا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو جائے گی۔

ڈیفالٹ کی بڑی وجہ قرضوں کی واپسی نہ کر پانا سامنے آ رہی ہے۔ کیا حکمران عالمی اداروں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ سیلاب اور دیگر مسائل کی وجہ سے قرض منسوخ یا موخر کر دیئے جائیں، جیسے افریقہ کے کچھ ملکوں میں ہوا؟ سیلاب کے بعد جو ہمدردی موجود تھی، اس کے پیش نظر اگر ایک سٹرکچرل مدد دی جاتی تو اس سے معیشت کو سانس لینے کا موقع نہیں مل سکتا تھا؟ کیا حکمرانوں کے پاس یہ مطالبات کرنے کیلئے بنیادی معلومات نہیں یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے؟

ڈاکٹر اکمل: یہ معلومات کا مسئلہ نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انہیں آئی ایم ایف سے مدد مل جاتی ہے تو فوری ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا اور دو تین سال مل جائیں گے۔ جب آئی ایم ایف مدد دیتا ہے تو پھر بہت سی کثیر الجہتی ایجنسیاں آپ کو رقم دینے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سخت شرائط عائد کئے جانے کے باوجود حکومت آئی ایم ایف کی ان شرائط کو پوری کر رہی ہے، تاکہ منی بجٹ آئے اور آئی ایم ایف کا پروگرام پھر سے شروع ہو جائے۔ اس لئے ڈیفالٹ کا فوری خطرہ اس طرح کا نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ صورتحال تو بار بار آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا قرضہ 130 ارب ڈالر کے قریب ہے، جو اتنا زیادہ ہے کہ آپ اپنی آمدن کی بنیاد پر وہ واپس کرنے کے قابل نہیں ہیں…حتیٰ کہ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہر سال قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی بھی حکومت خود سے نہیں کر سکتی اور اس کیلئے بھی نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ یعنی پرانے قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کیلئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔

اگر آپ 20 سال کے عرصہ میں دیکھیں کہ باہر سے کتنے قرضے اور گرانٹس آئیں اور ان کیلئے پاکستان سے کتنی رقم باہر گئی، تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان سے جو باہر گیا وہ زیادہ ہے اور جو ملک میں آیا وہ کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باہر کے ملکوں نے پاکستان کو ایک ’ڈیٹ ڈریپ‘ (قرضوں کے جال) میں پھنسا لیا ہے۔ وہ قرض دیکر پاکستان سے آمدن کماتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کا ایک طریقہ کار بن چکے ہیں۔ ماضی کے کلونیل ازم میں وسائل لوٹنے کا اور طریقہ تھا، یہ نیو کلونیل ازم کا طریقہ ہے کہ اب قرضوں کے ذریعے سے وسائل لوٹتے ہیں۔

پاکستان جو غیر ملکی زرمبادلہ کماتا ہے، جس سے قرضوں کی قسطیں واپس کی جاتی ہیں، وہ زرمبادلہ زرعی اشیا کی فروخت سے کماتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زمینوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے، زیادہ کھاد، ادویات اور پانی کا استعمال کرنے سے پیداواری صلاحیت ہمیشہ کیلئے ختم ہوتی جاتی ہے۔ دوسرا آپ کے مزدوروں اور کسانوں کی محنت کا پھل باہر جا رہا ہے۔

یہ ایک صورتحال بنی ہوئی ہے۔ بحران میں ڈیفالٹ کی فکر اور شور شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم ڈیفالٹ نہیں بھی ہوتا تو وسائل اور محنت باہر منتقل ہو رہی ہے۔ کوئی ملک کیسے زندہ رہ سکتا ہے اگر اس کا خون چوسا جا رہا ہو۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالنا یا اس مصیبت سے نکلنا ہے تو اس کیلئے تین بنیادی اقدامات کرنا ہونگے۔

گزشتہ سال ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ لکھی ہے۔ اس رپورٹ میں انہوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان سالانہ 2.66 ٹریلین روپے کی اشرافیہ کو مراعات دے رہا ہے۔ یہ مراعات تنخواہوں کے علاوہ ہیں، جن میں زمینوں سمیت مختلف طرح کی مراعات شامل ہیں۔

عرض یہ ہے کہ اس قوم پر رحم کریں، قرض اتنا ہے، ڈیفالٹ کا خطرہ لاحق ہے اور آپ2.66 ٹریلین روپے عیاشی پر خرچ کر رہے ہیں۔ ان مراعات کو فوری بند کرنا چاہیے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ لوگ اس کا بوجھ برداشت کرینگے، یہ کوئی نہیں مانے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اشرافیہ بتائے کہ یہ 2.66 ٹریلین روپے اب وہ نہیں لینگے۔ یوں پہلا اقدام یہ ہے کہ جو رقم ایلیٹ کو عیاشیوں کیلئے دی جا رہی ہے، جس کیلئے وہ کام بھی کچھ نہیں کرتے، یہ بند کی جائے تو قرضوں کا چکر کافی حد تک حل ہو جائے گا۔

دوسرا یہ کہ آپ گلبرگ جا کر دیکھیں کئی سو ایکڑ زمین پرائم اربن لینڈ حکومت کی ہے اور پرانے وقتوں کے دفتر کھول رکھے ہیں۔ یہ دفتر کہیں اور جا کر کھولیں اور اسی طرح کی 5 یا 6 بڑے شہروں کی زمینیں انٹرنیشنل پراپرٹی ڈویلپرز کو 30 سال کیلئے لیز آؤٹ کریں۔ وہ ہائی رائز عمارتیں بنائیں اور 30 سال میں وہ اپنی سرمایہ کاری پر منافع بھی کمال لیں گے اور حکومت کو مفت میں زمینیں ڈویلپ ہو کر مل جائیں گے۔ اس سے بھی قرض اتارنے میں مدد ملے گی۔

تیسرا اقدام یہ ہے کہ جو پبلک سیکٹر کی انٹرپرائزز آپ کی مالی صلاحیت سے اتنا خون چوس رہی ہیں کہ آپ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ مثال کے طور پر پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز وغیرہ خساروں میں جا رہی ہیں اور اربوں روپے کے خسارے ٹیکس دہندگان برداشت کرتے ہیں۔

یہ تین اقدام کر دیں تو آئی ایم ایف کی شرائط کے بوجھ تلے لوگوں کو ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آب کے پاس بہترین مالیاتی سپیس آجائے گی۔ ریونیو کا 50 فیصد سے زیادہ قرضوں کی ادائیگی پر جا رہا ہے، اس سے چھوٹ مل جائے تو پھر آپ عام لوگوں کیلئے بہت کچھ کر سکیں گے۔

اگر فی الحال دیوالیہ ہونے سے بچ بھی جائیں تو یہ صورتحال دوبارہ پیدا ہو جائے گی۔ مستقبل میں ڈیفالٹ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر اکمل: اس کیلئے آپ کو معیشت کی سمت کو بھی بدلنا پڑے گا، اسکا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس وقت جو ڈھانچہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہ معیشت اشرافیہ کے اتحاد کیلئے چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرض دہندگان کے قرضے واپس کرنے کیلئے چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ عالمی اور ملکی اشرافیہ کی معیشت ہے۔ اصل میں اس معیشت کو عوام کیلئے چلنا چاہیے، عوام کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہیے۔ اس کیلئے اسکی سمت اور ڈھانچہ بدلنا پڑے گا۔

اس کیلئے بیرونی قرضوں کی بنیاد پر ترقی کی بجائے لوگوں کی صلاحیتیں نکھار کر اور بروئے کار لا کر ترقی حاصل کی جائے۔ لوگوں کی صلاحیتوں کو سرمایہ کاری کر کے ابھاریں اور پھر انہیں ترقی کیلئے بروئے کار لائیں۔

اس کیلئے پہلا قدم یہ ہے کہ بین الاقوامی معیار کا پبلک ایجوکیشن سسٹم بنایا جائے۔ کوئی ملک ایسا نہیں ہے، جس نے ترقی کی ہو اور اسکے پاس بہترین پبلک ایجوکیشن سسٹم نہ ہو۔ بین الاقوامی سطح کے سکولز، کالجز اور کم از کم دو تین عالمی معیار کی یونیورسٹیاں تو بنائیں۔ اس وقت ملک میں عالمی معیار کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔ سکول جانے والے بچوں پر ظلم ہے، انہیں جو تعلیم دی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے نہ دی جائے۔ ان کے دماغ بند کئے جا رہے ہیں۔ تعلیم جدید خطوط سے ہم آہنگ اور مفت ہونی چاہیے۔ بچوں کو سکول نہ بھیجنے والوں کو جرمانہ ہونا چاہیے۔ بچوں کو سکول لانے کیلئے دن کا کھانا اور سٹیشنری مفت دی جائے تاکہ ماں باپ خوشی سے بچوں کو سکول بھیجیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب آپ کی قوم تعلیم یافتہ ہو جائے گی، ان کے دماغ کھل جائیں گے تو وہ انوویشن (Innovation) کے قابل ہو جائیں گے، جدید ہنر سے آراستہ ہو جائیں گے۔ اس کا نتیجہ پھر معاشی ترقی ہی ہو گا، جس کی بنیاد انوویشن ہے۔ اس طرح آپ کی ترقی لوگوں کے ذریعے ہو گی، قرضوں کے ذریعے سے نہیں ہو گی۔

دوسرا اقدام یہ ضروری ہے کہ عالمی معیار کا پبلک ہیلتھ سسٹم بنایا جائے۔ اگر لوگوں کی صحت بہتر ہو جاتی ہے، تو ان کی پیداواریت بھی بہتر ہو گی۔ تعلیم اور صحت معاشی ترقی کیلئے اہم ذرائع ہیں۔

تعلیم دینے کے بعد ان لوگوں کو ملک کے اندر رکھنے کیلئے مواقع فراہم کرنے ہونگے کہ وہ اپنی انٹرپرائزز بنائیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ انہیں پیداواری ذرائع اور مالیاتی سیکٹر تک رسائی دینا ہو گی، تاکہ بینک انہیں آسانی سے رقوم فراہم کریں۔ اس طریقہ سے ملک کی معیشت کی سمت تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس طرح سے ملکی معیشت کی سمت بدلی جائے کہ عالمی و ملکی اشرافیہ کیلئے کام کرنے کی بجائے معیشت عام لوگوں کیلئے کام کرے۔ لوگوں کی صلاحیت کو استعمال کر کے جو ترقی ہو گی، وہ لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کیلئے ترقی ہو گی۔

پوری دنیا کو پتہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ عام آدمی اٹھا رہا ہے اور یہ ہر جگہ ہے۔ کیا آئی ایم ایف کو نظر نہیں آتا کہ اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈیز اور مراعات مل رہی ہیں؟ آئی ایم ایف کیوں اشرافیہ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ان پر بوجھ کیوں نہیں ڈلواتا؟

ڈاکٹر اکمل: اس کیلئے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ آئی ایم ایف کا ادارہ کس طرح کام کرتا ہے۔ بظاہر اس کا کردار یہ ہے کہ جن ملکوں کو بیلنس آف پے منٹ کے بحران کا سامنا ہو، تو وہ بیلنس آف پے منٹ کیلئے مدد دیتے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے کچھ شرائط عائد کرنی ہوتی ہیں۔ ان شرائط کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ملک کی لانگ ٹرم ڈویلپمنٹ ہو۔ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو رقم وہ دے رہے ہیں، وہ تین چار سالوں میں واپس کرنے کے قابل ہوں۔ اگلے 20 سال بعد ملک کے ساتھ کیا ہو گا، اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے مجھے بات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ پروگرام کاؤنٹر پروڈکٹو (Counter-Productive) ہے۔ بجٹ خسارا کم کرنے کی کوشش میں عوامی اخراجات کو کم کرنا اصل میں ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہے۔ اس سے جی ڈی پی گروتھ کم ہو جائے گی، معیشت سکڑے گی۔ گروتھ کم ہونے کی صورت میں ریونیو کم ہو جائے گا۔ آپ کے پیسے تو ملنے شروع ہو جائیں گے، لیکن تین چار سال بعد یہی خسارہ پھر سے نکل آئے گا، جو پہلے سے بھی زیادہ ہو گا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ آٹے، بجلی اوردیگرچیزوں پر سبسڈیز ختم کرنے سمیت شرح سود بڑھانے کے جو آپ جو سارے اقدامات کر رہے ہیں، ان کے بعد مہنگائی ہو جائے گی، پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری بھی کم ہو جائے گی۔ سرکاری ترقیاتی اخراجات کم کرنے سے بجٹ خسارہ کم ہو گا، لیکن اس سے بھی گروتھ کم ہو جائے گی۔ غریب ایک شکنجے میں پھنس جائیں گے۔ ایک طرف گروتھ کم ہونے کی صورت میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو گا، دوسری طرف افراط زر میں بھی اضافہ ہو جائیگا۔ ہم شکنجے میں پھنس جائیں گے اور آپ پیسے لیکر واپس چلے جائیں گے۔

میری بات سن کر وہ شخص غصے میں آ گیا اور کہنے لگا کہ ہم آپ کے پاس پیسے لینے نہیں آئے، آپ ہمارے پاس آئے ہیں۔ ہم فوری فرسٹ ایڈ دینے کیلئے آئے ہیں، باقی آپ بھول جائیں۔ یہ بات میں نے میڈیا کو بھی بتا دی، جس پر وہ مزید غصے میں آگیا اور بینظیر بھٹو کے آگے میری شکایت بھی لگا دی۔ تاہم بینظیر بھٹو صورتحال پوچھنے کے بعد ہنس پڑیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا لانگ ٹرم ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شارٹ ٹرم پر پیسے دیتے ہیں اور اسی عرصہ میں واپس لینے کی صلاحیت پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے اب کہہ رہے ہیں کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھائیں، کیونکہ ڈائریکٹ تھوڑا مشکل ہوتا ہے، ایگریکلچر انکم ٹیکس کی بات نہیں کی جاتی، کیونکہ وہ بھی مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے جنرل سیلز ٹیکس بڑھا دیا، جس سے ہر چیز کی قیمت بڑھ جائیگی۔ یہ لوگوں سے پیسے نکالنے کا آسان طریقہ ہے۔

آپ اکثر بات کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کے تین طرح کے سٹرکچرل مسائل ہیں۔ اس بارے میں آپ سنا ہے کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔ اگر مختصراً ہمیں یہ سمجھا سکیں کہ وہ کس طرح کے مسائل ہیں، جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے؟

ڈاکٹر اکمل: 12 سال کی تحقیق کر کے میں نے یہ ساری چیزیں اپنی تصنیف میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری اس گفتگو میں اس کتاب کا ایک پہلو بھی سامنے آجائے گا۔ وہ سٹرکچرل مسائل ہی ہیں، جن کے نتیجے میں بار بار ہمارا بیلنس آف پے منٹ کا بحران ہوتا ہے۔ یہ 14 ویں بار ہے جب ہمیں اس بحران کا سامنا ہے۔ تحقیقی میں ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ جب بھی گروتھ ہوتی ہے، چاہے وہ ایوب آمریت کے زمانے میں ہوئی، ضیا دور میں یا مشرف کے زمانے میں گروتھ ہوئی ہو۔ اس گروتھ کا ایک سپرٹ (Sprut) ہوتا ہے کہ وہ کچھ سالوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر معیشت کا پہیہ آہستہ ہو جاتا ہے۔ ہر گروتھ کا دور بیلنس آف پے منٹ کے بحران پر ختم ہوتا ہے۔ ہر بار حکومت کہتی ہے کہ ہمارا خزانہ خالی ہے۔

جب بھی آپ کی گروتھ زیادہ ہوتی ہے تو درآمدی اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ مشینیں اور تیل زیادہ درآمد ہوتا ہے، صنعتی خام مال، زرعی کھاد وغیرہ زیادہ منگوانے پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ برآمدات ناکافی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ گروتھ کے درآمدی اخراجات کو فنانس کرنے کیلئے برآمدات کی آمدن ناکافی ہو جاتی ہے۔ اس لئے بیلنس آف پے منٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ اس فاصلے کو پورا کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، یا سٹیٹ بینک کے ذخائر نکالے جائیں یا قرضے اور امداد لی جائے۔ سٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کی صورت آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف ہی ایسی صورتحال میں آپ کو بچاتا ہے۔ تاہم وہ پھر آپ کی گروتھ کو سلو ڈاؤن (کم) کرتے ہیں۔ ان کا ایک ہی طریقہ ہے کہ درآمدی اخراجات کو کم کیا جائے، جس سے گروتھ کم ہو جاتی ہے، کیونکہ درآمدی اخراجات میں اضافہ ہی ہائی گروتھ کی وجہ سے ہوا ہے۔

برآمدی گروتھ میں اضافہ نہ ہونے پر کوئی تحقیقات ہوئی ہیں، تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ برآمدات اتنی بڑھ جائیں کہ 7 یا 8 فیصد شرح ترقی بھی ہو اور درآمدی ضروریات بھی برآمدات کے ذریعے سے آسانی سے پوری ہو سکیں۔ اس کیلئے بہت سارا لٹریچر بھی لکھا گیا۔ جن ملکوں نے شرح ترقی میں اضافہ کیا، انہوں نے برآمدات کو بھی بڑھایا۔ اس کیلئے ان ملکوں نے اپنا برآمدی سٹرکچر تبدیل کیا ہے۔

برآمدات کو لو ویلیوایڈڈ اور لو نالج ایکسپورٹس سے شفٹ کر کے ہائی ویلیو ایڈڈ اور نالج انٹینسو برآمدات پر منتقل کیا۔ اس سے مراد ڈائیورسیفیکیشن (Diversification) یا تنوع ہے۔ اس طرح سے جن ملکوں نے برآمدی ڈھانچے کو تبدیل کیا انہوں نے لمبے عرصے تک ہائی گروتھ کو بحال رکھا۔ ان ملکوں میں چین، بھارت، تائیوان، جاپان، ملائشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

اس تحقیق کا لب لباب یہ ہے کہ اگر آپ نے لانگ ٹرم ہائی گروتھ بحال رکھنی ہے تو آپ کو لانگ ٹرم ہائی گروتھ ایکسپورٹس کو قائم کرنا ہوگا۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے ایکسپورٹ سٹرکچر کو ڈائیورسیفائی کریں اور اسے لو ویلیو ایڈڈ گڈز سے ہائی ویلیوایڈڈ اور نالج انٹینسو گڈز سے تبدیل کریں۔ بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ 70 سال میں ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟ ایک ایسا وقت بھی تھا جب یہ سارے ملک ہم سے پیچھے تھے اور ہم آگے تھے، لیکن اب وہ آگے ہیں۔ ہم گروتھ کرتے ہیں تو تین یا چار سال بعد مصیبت پڑ جاتی ہے۔

اس سب کیلئے آپ کو کٹنگ ایج ریسرچ اینڈ نالج کا ایک بیس بنانا پڑے گا، جس کو صنعت استعمال کر سکے۔ ایک سمارٹ فون میں 6 اقسام کی سپیشلائزیشن ہیں۔ یہ نالج انٹینسو ایکسپورٹ کی ایک مثال ہے۔ اس کیلئے آپ کے سکولز میں ٹرین اور ایجوکیٹ نہیں کیا جائے گا تو اس قسم کا کام نہیں ہو سکتا۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ کو تنقیدی سوچ اور نئی ریسرچ کیلئے تربیت نہیں دی جاتی، فیکلٹیز بنیادی ریسرچ کیلئے تربیت نہیں فراہم کر رہیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کیلئے اور بھی بہت سے لوازمات درکار ہیں۔ برداشت اور تنقیدی فکر کا ایک ثقافتی ماحول پیدا کرنا پڑے گا۔ اگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرف بڑھنا ہے تو آپ کو اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو ڈویلپ کرنا پڑے گا۔ صلاحیتوں کو نکھارنے کا مطلب ہے کہ اوریجنل تھنکنگ اور انوویٹ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، تب ہی جا کر ایکسپورٹ سٹرکچر ڈائیورسیفائی ہو سکتا ہے۔

اس کیلئے صنعتی ڈھانچہ بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس وقت صنعتی مقابلے میں آنے کیلئے حکومت سے مراعات لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ڈھانچہ ایسا ہو کہ کمپنیاں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کوآپریشن، کوآرڈینیشن اور کمبی نیشن کو ڈویلپ کرنا پڑے گا۔ انہیں ایسا انسینٹو دینا پڑے گا کہ وہ یہ سب ڈویلپ کر سکیں۔ جب آپ اپنی صنعت کے ذریعے ایک نالج انٹینسو پروڈکٹ بنا لیتے ہیں تو پھر آپ کیلئے ایسی ہی دیگر پروڈکٹس کیلئے مواقع کھل جاتے ہیں۔ مزید کمپنیاں آتی ہیں اور آپ اس سمت میں چل پڑتے ہیں کہ برآمدی ڈھانچہ تبدیل ہو جائے۔

اس وقت پاکستان کی ہائی ٹیک نالج انٹینسو برآمدات کا کل ملکی برآمدات میں حصہ 2 فیصد ہے۔ ملائشیا میں یہ حصہ 26 فیصد، جنوبی کو ریا میں 28 فیصد، جبکہ چین میں 25 سے 30 فیصد۔ اس کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ ہمارا برآمدی گروتھ ریٹ کم ہوگا، تو پھر یہ خسارہ بھی رہے گا۔

عمومی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ معیشت بڑامشکل مضمون ہے، جو صرف معیشت دان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ معیشت کو آسان بنا کر میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا؟ کیا معیشت کو عام لوگوں تک پہنچانا ضروری نہیں ہے؟

ڈاکٹر اکمل: یہ ضروری تو ہے، لیکن ایسا نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا ڈھانچہ امیروں کیلئے ہے۔ یہ اشرافیہ کی معیشت ہے، اس لئے انہیں ہی مطمئن کیا جاتا ہے کہ ہماری پالیسی ٹھیک ہے اور آپ کے فائدے کی ہے۔ اشرافیہ کے لوگوں نے ٹیکنیکل قسم کی معیشت پڑھی ہوتی ہے۔ اب معیشت کا مضمون بھی زیادہ ٹیکنیکل بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف بھی اسی طرح کی ٹیکنیکل قسم بنا کر پیش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ گزشتہ 80 سال سے جو معاشیات پڑھائی جا رہی ہے، یا کتابیں لکھی جا رہی ہیں، وہ تنگ اور زیادہ ٹیکنیکل ہوتی گئی ہے۔ اس میں میتھا میٹیکل ٹیکنیکس کو زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ تنقیدی سوچ، وسیع مسائل اور سوالات نکال دیئے گئے ہیں۔ اب انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ معیشت تو ناکام ہو گئی ہے۔

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔

تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

یہ معیشت اور معاشی پالیسی عوام کو پہلی ترجیح رکھتی ہے۔ یہ معاشی سٹڈی اور تجزیے کا مقصد ہونا چاہیے، پبلک پالیسی کا بھی یہی مقصد ہونا چاہیے۔ اشرافیہ سے معیشت اور اشرافیہ کیلئے معیشت کے طریقے کو ختم کرنا ہوگا اور تبدیلی ضرور آئے گی۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔