خبریں/تبصرے

سرینگر میں جی 20 ٹورازم اجلاس سے وابستہ خوش فہمیاں اور حقائق

التمش تصدق

جی 20 دنیا کے 19 بڑی معیشتوں اور یورپی یونین کا ایک بین الحکومتی فورم ہے، جس کا قیام 1999ء میں عمل میں آیا۔ رواں سال جی 20 کی صدارت اور میزبانی بھارت کے پاس ہے۔ ستمبر میں نئی دہلی میں منعقد سمٹ سے قبل انڈیا نے ملک بھر میں متعدد اجلاس منعقد کروائے ہیں۔ اس سلسلے میں 22 سے 24 مئی تک جی 20 رکن ممالک ٹورزم ورکنگ گروپ کا اجلاس سرینگر کی ڈل جھیل کے کنارے پر منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے چرچے سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پڑنٹ میڈیا پر بڑے پیمانے میں ہو رہے ہیں۔

مودی سرکار جموں کشمیر میں جی 20 تقاریب کا انعقاد کر کے اپنی سفارتی فتح کا اعلان کرنا چاہتی ہے، تاکہ داخلی طور پر مظلوم قومیتوں پر جبر کو جاری رکھنے کے لیے اکھنڈ بھارت کے رجعتی نعرے کے گرد ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر اکثریتی آبادی میں اپنی ساکھ مضبوط کر سکے۔ اس کے علاوہ مودی سرکار 5 اگست 2019ء کو اپنے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سامراجی اجارہ داریوں اور بھارتی سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ ریاست جموں کشمیر کے پرانے قوانین کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ جموں کشمیر کی زمین اور شہریت حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ یہ قوانین سامراجی لوٹ مار کی راہ میں رکاوٹ تھے، جنہیں 5 اگست 2019 ء کو مودی سرکار نے جموں کشمیر کو کھلی جیل میں بدلتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔

اس اجلاس سے کشمیری قوم پرست بھی، بالخصوص پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے قوم پرست، ترقی اور خوش حالی کی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونے والی لائٹنگ کی تصوریریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جن کو بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی ترقی کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس اجلاس کے بعد کشمیر میں ترقی کے نئے راستے کھلیں گے، سیاحت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہو گی۔ اگر واقعی ایسا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جو ملٹی نیشنل کمپنیاں سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں گی، اس سے ہونے والے منافع میں سے کشمیری عوام کو حصہ دیا جائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو جو ترقی ہو گی، اس سے جموں کشمیر کے باسیوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟

حقیقت یہ ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری ہوتی بھی ہے، تو اس سے مقامی معیشت برباد ہو تی ہے۔ سیاحت، زراعت اور باغبانی کی شعبے، جن سے مقامی آبادی کا روزگار وابستہ ہے، عالمی اجارہ داریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ سیاحتی مقامات، جو جموں کشمیر کی ریاستی ملکیت ہیں، وہ عالمی اجارہ داریوں اور بھارتی سرمایہ داروں کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ مقامی ہوٹل انڈسٹری کی جگہ ملٹی نیشنل انڈسٹری لے لے گی۔ اسی طرح سے زراعت کے شعبے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے کسان تباہ ہو جائیں گے۔ جموں کشمیر کے محنت کشوں کی زندگی سہل ہونے کی بجائے مزید برباد ہو گی۔ مقامی آبادی پر قومی جبر کے علاوہ معاشی جبر میں بھی اضافہ ہو گا۔

کشمیر میں جی 20 ٹورازم اجلاس میں عالمی سامراجی طاقتوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ یہ وہی عالمی برادری ہے، جس سے گزشتہ 76 سالوں سے جموں کشمیر کی آزادی کی حمایت کی اپیل کی جا رہی ہے۔ پاکستان نواز مذہبی بنیاد پرست ہوں یا قوم پرست ان کے پاس آزادی کا واحد نسخہ عالمی برداری کی حمایت کے ذریعے جموں کشمیر کی آزادی حاصل کرنا تھا۔ یہ سیاسی رحجانات بائیں بازو کے اس نقطہ نظر کا تمسخر اڑایا کرتے تھے کے سرمایہ دارنہ نظام میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشی مفادات کی بنیاد پر حمایت کی جاتی ہے۔ مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کو سرمایہ دار حکمران طبقہ نہیں بلکہ محنت کش طبقہ ہی غیر مشروط حمایت کر سکتا ہے۔ محنت کش طبقہ ہی وہ واحد طبقہ ہے، جس کا کسی قوم کو غلام بنائے رکھنے میں کوئی مفاد نہیں ہے۔ ساری دنیا کے سرمایہ دار حکمرانوں کو مظلوم کشمیری عوام پر ظلم نظر نہیں آتا ہے۔ ان کو ہندوستان کی ڈیڑھ ارب انسانوں کی منڈی میں اپنے منافعے نظر آتے ہیں۔ اس اجلاس میں اگر چین حصہ نہیں لے رہا، تو اس کی وجہ کشمیری عوام کی ہمدردی نہیں ہے بلکہ چین اور بھارت کا سرحدی تنازعہ ہے۔

جی 20 دنیا کی دو تہائی آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار اور تجارت کا ذمہ دار ہے۔ اس فورم کے قیام کا مقصد عالمی سطح پر مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے ثابت کر دیا کہ منڈی کی بے لگام قوتوں پر مبنی نظام میں کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی، جس سے عالمی مالیاتی استحکام قائم کیا جا سکے۔ حکمران اور اس کے نمائندے نظام کو نہیں چلاتے، بلکہ یہ نظام کے تقاضے ہیں، جن کو یہ حکمران اور ان کے نمائندے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظام 2008ء کے بحران کے اثرات سے ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ ایک اور بحران منڈلا رہا ہے، جس کو حکمرانوں کا کوئی اجلاس روک نہیں سکتا ہے۔ وہ نظام جو تاریخی طور متروک ہو جائے، اسے ٹھیک کرنے کی ہر کوشش اسے مزید بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ نظام آج عالمی سطح پر انسانوں کو بھوک، بیماری، بیروزگاری، جہالت، سامراجی جنگوں اور ماحولیاتی بربادی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا ہے۔

جن کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی پیلٹ گن کے چھروں سے چلی گئی، وہ سرینگر کی چکاچوند روشنیوں سے بحال نہیں ہو سکتی ہے۔ جن ایک لاکھ نوجوانوں اور محنت کشوں کو ہندوستانی ریاستی جبر کے ذریعے قتل کر دیا گیا، ان کی جان کی قیمت کشادہ سڑکیں اور مصنوعی روشنی کے برابر نہیں ہے۔ مودی سرکار اگر کشمیری عوام کو سونے کے پنجرے میں قید کر دے، تو بھی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔

کشمیری محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کو منظم کرتے ہوئی بھارت سمیت ساری دنیا کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی۔ حقیقی آزادی کے حصول کا واحد طریقہ طلبہ، مزدوروں اورکسانوں کے اتحاد کی بنیاد پر اس خطے سے سرمایہ دارنہ نظام کو شکست دے کر جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہے۔

تعارف
التمش تصدق کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے ہے۔ وہ ٹریڈ یونین رہنما ہیں اورمحنت کش طبقے کے مسائل کے حل کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔