دنیا

سنسر شپ، جنوبی ایشیا کا مہلک ترین وائرس!

خصوصی رپورٹ: قیصرعباس

گزشتہ تین دہائیوں میں جنوبی ایشیا کے آٹھ ملکوں میں سے پانچ میں 226 صحافی اور اور میڈیا کارکن ہلاک ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق انڈیا میں 91، افغانستان میں 79، پاکستان میں 73، سری لنکا میں 25 اوربنگلہ دیش میں 34 میڈیاکارکن اور صحافیوں کی ہلاکت ہوئی (CPJ, 2023)۔

ان تشویشناک اعدادوشمارکو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی تنظیمیں کن بنیادوں پر جنوبی ایشیا کو صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک خطہ قرا ردیتی ہیں۔ اظہار رائے پر قدغنوں اور صحافیوں پر سرکاری اور غیر سرکاری پابندیوں کے پیش نظریہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خطے میں میڈیا سنسرشپ ایک مہلک وائرس کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ یہاں کبھی قانونی موشگافیوں، کبھی میڈیا پر اقتصادی دباؤ، کبھی تشدد اور کبھی صحافیوں پر قاتلانہ حملوں کے ذریعے ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریا ں محدودکی جارہی ہیں۔ ان سب کوششوں کا مقصد ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کو مجبورکرنا ہے تا کہ وہ سرکاری اور سول اداروں کی عائد کی ہوئی پابندیوں کو تسلیم کرتے ہوئے صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں۔ لیکن خوف و ہراس کے اس ماحول میں بھی ہر ملک میں صحافیوں کی بڑی تعدادزندگی خطرے میں ڈ ال کر سچ لکھ رہی ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں سنسرشپ کا جائزہ لیتے ہوئے اس بڑھتے ہوئے رجحان کاجائزہ سیاسی نظام کے حوالے سے کیا جائے گا۔ پہلے حصے میں آزادی ء اظہار کے مفہوم کی تشریح، دوسرے حصے میں خطے کے ملکوں میں طرزحکومت کے حوالے سے سنسرشپ کاجائزہ اورآخری حصے میں ذرائع ابلاغ کو خاموش رکھنے کے سیاسی و سماجی عوامل کا تجزیہ شامل ہوگا۔ تجزیے سے پہلے یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ آزادیء اظہار کا مفہوم اوراس کی اہمیت کیاہے۔

اکیسویں صدی میں آزادی ء اظہار

ذرائع ابلاغ پر بندشیں قانونی، سماجی اور سیاسی نظام کے سہارے عائد کی جاتی ہیں۔ نام نہاد جمہوری نظام میں عدالتیں اور حکومت میڈیا کو قانونی طریقوں سے جکڑتی ہیں تاکہ وہ سرکاری اداروں، سیاسی کارکنوں اور سماجی گروہوں کے موقف کی حمایت کریں اور ان پر تنقید سے باز رہیں۔ رائج سماجی روایات کے ذریعے بھی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاًروایتوں کے سہارے خواتین کے مساویانہ حقوق سے انکار کیا جاتاہے اورمیڈیا کوبھی ان کا پابند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تیسری صورت میں ملک کا طرزحکومت میڈیا اور سیاسی اداروں کے درمیان تعلقات کی نوعیت طے کرتا ہے۔ ان براہ راست ہتھکنڈو ں کے علاوہ حکومت ذرائع ابلاغ کو بالواسطہ طریقوں سے بھی زیر اثررکھتی ہے۔ میڈیا پراقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں اور لائسنس فیس یا نیوزپرنٹ کی سپلائی کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔

آزادیء اظہاراور اس کے مختلف پہلوؤں کی بین الاقوامی اداروں نے مختلف انداز میں تشریح کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق”ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ ہرشہری کوکسی مداخلت کے بغیراپنی رائے اورملکی یا بین الاقوامی سطح پر میڈیا سے معلومات حاصل کرنے کے حقوق حاصل ہیں“ ((UN, 2002اس مفہوم کے مطابق آزادی ء اظہار کوبھی بنیادی انسانی حقوق کا حصہ سمجھا جاتا ہے ”انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی“نے ا ظہار رائے کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کچھ اس طرح کی ہے:

”انفرادی طور پرہر شہری، سماجی گروہ ا ور ذرائع ابلاغ کواپنی رائے کی تشکیل اوراس کے اظہارکے مکمل حقوق حاصل ہیں۔ کسی قسم کی حدود یا پابندیوں کے بغیر شہریوں، گروپس اور ذرائع ابلاغ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طورپر اپنی رائے قائم کریں اور سیاسی مسائل پر کسی بھی ذریعے سے اطلاعات حاصلکرکے انہیں عوام الناس تک پہنچائیں“ (International Idea,2019)۔

انسٹی ٹیوٹ نے سات پہلوؤں کے ذریعے آزادیء رائے کے تصور کو مزید واضع کیا ہے: میڈیا سنسرشپ کے طریقے، صحافیوں کی ہراسانی، خود سنسرشپ یا سیلف سنسرشپ کی نوعیت، خواتین کو اظہاررائے کی آزادی، مردوں کو آزادیء اظہار کا حق، ثقافتی اور علمی سطحوں پر اظہار رائے کا حق اور اظہار رائے پر پابندیوں اور آزادی کی حدود۔ اس کے علاوہ میڈیا پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائدکی گئی ہیں جن میں سیاسی مسائل کے گوناگوں پہلوؤں کی کوریج اور آبادی کی تمام اکائیوں کی یکساں طورپر میڈیا میں نمائند گی شامل ہیں۔

مثالی جمہوریتوں میں میڈیا کی آزادی سیاسی نظام کاجزوہوتی ہے جس کا مقصد سنسر شپ اورمیڈیا پردباؤ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ صحافیوں کو تمام ذرائع سے خبریں حاصل کرنے کا حق حاصل ہو اورادارتی فیصلوں میں میڈیا کے مالکان کاعمل دخل ختم کیا جا ئے۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے ضابطوں اور قوانین پر عمل کیا جائے اور صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ عام شہریوں کے حقوق اور ان کے خلاف قانونی کاروائیوں سے تحفظ کی ضمانت دی جاسکے۔ صحافیوں کی تنظیموں کے تشکیل کردہ ضابط ء اخلاق ان کے پیشہ ورانہ معیار کے اصول مقر رکرتے ہیں، انہیں جواب دہ بناتے ہیں اور قومی اور مقامی سطحوں پر سماجی مسائل کی بہتر کوریج کو یقینی بناتے ہیں۔

امریکہ میں بیشتر ذرائع ابلاغ نجی کمپنیوں کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی معاشرتی ہم آہنگی کے لئے سماجی ذمہ داریوں کے ماڈل (Social Responsibility Model) کے تحت بھی کچھ ذرائع ابلاغ اس اصول پر قائم کئے گئے ہیں کہ ان پر سماجی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، یہ ماڈل مغربی یورپ کے ملکوں میں بھی مقبول ہے جہاں مین اسٹریم میڈیاکے علاوہ نیم سرکاری طور پر قائم کیے گیے متبادل میڈیاکی خبروں اور پروگرام میں سماجی اکائیوں اور ان کے مسائل کونمائندگی دی جاتیہے۔ مثلاً برطانیہ اور سویڈن میں اسی ماڈل کو پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی صورت میں اپناکر سرکاری اثر و رسوخ کم کیاجاتاہے۔ برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کو اسی ماڈل کے تحت سرکاری اثر و رسوخ سے آزاد رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مغرب میں جمہوریت کی آبیاری اور استحکام کے لئے میڈیا کی آزادی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ترقی پذیر معاشروں میں ملکی آئین میں آزادی ء اظہار سمیت تمام انسانی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے مگر عملاً حکومت وقت اور سماجی دباؤکے تحت اظہار رائے کی حدود مقرر ہوتی ہیں جو سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

جنوبی ایشیا میں سنسر شپ کا وائریس

بر صغیر میں انڈیا کی پارلیمانی جمہوریت، پاکستان کی ہائبرڈ جمہوریت اور افغا نستان کے آمرانہ نظام سمیت جمہوری اورنیم جمہوری نظام مختلف طرز حکومت کے ساتھ رائج ہیں۔ یوں تو ہر ملک کا دستورمیڈیا کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے مگر آزادی ء اظہارکی نوعیت عملی طرز حکومت سے معین ہوتی ہے اورقانونی یا غیرقانونی حربے استعمال کرکے آزادی اظہار کے پیمانے تشکیل دئے جاتے ہیں۔ بیشتر مشرقی ممالک خود کوسرکاری طور پر جمہوریہ قراردیتے ہوئے عملی طورپرطرز حکومت کے مختلف فارمولوں پر عمل کرتے ہیں۔ اکانومسٹ انٹیلی جینس نے ان فارمولوں کی ڈیماکریسی انڈیکس ترتیب دی ہے جسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے (Democracy Index, 2020)۔ ان میں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ملی جلی یا ہائبرڈ جمہوریت اور آمرانہ نظام شامل ہیں۔ مکمل جمہوری نظام میں لوگوں کے حقوق اور آزادی ء اظہار کی ضمانت دی جاتی ہے جب کہ ناقص جمہوریت میں حکومت منتخب نمائندے چلاتے ہیں لیکن ملک کی اکژیت کے ذریعے اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ ہائبرڈ نظام میں فوج، بادشاہت یا آمرجمہوریت کی آڑ میں قومی ذر ائع پر کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں۔ آمرانہ نظام میں مقتدرگروہ یا فرد واحد شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے علاوہ میڈیا پربھی مکمل کنٹرول قائم رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں ان چاروں طرز حکومت کے ذریعے آزادی اظہار کی نوعیت کو بہتر طورپرسمجھا جاسکتا ہے اگرچہ دوسرے عوامل بھی سنسرشپ کے دائرے تشکیل دینے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ٹیبل 1: جنوبی ایشیا میں جمہوری نظام اور میڈیا سنسر شپ

ٹیبل 1 میں جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک کے جمہور ی نظام، ان میں رائج طرزحکومت او ر میڈیا سنسرشپ کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اورکہا جاسکتا ہے کہ خطے کے آٹھ ملکوں میں ایک آمریت، تین ہائبرڈ اور چار میںناقص جمہوریت رائج ہے لیکن مکمل جمہوریت کہیں موجود نہیں ہے۔

جنوبی ایشیا ئی آمریت: افغانستان

ؒخطے کے تمام ملکوں میں افغانستان میں آمریت مکمل طورپر نافذ ہے۔ 2020ء میں امریکی اتحادیوں کے انخلاکے بعد طالبان کی حکومت نے جمہوری روایات کے نفاذ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اگرچہ امریکی تسلط کے دوران بھی صحافی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک کیے گئے تھے، طالبان نے برسراقتدار آنے کے بعد میڈیاکوپوری طرح سنسرشپ کے آہنی ہاتھوں میں جکڑ لیاہے اور خواتین صحافیوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس خطرناک صورت حال کے پیش نظربیشترافغان اور بیرونی صحافی نقل مکانی کرگئے ہیں۔

زہرہ نادر بھی ان خواتین صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں طالبان کے پہلے دور میں ایران اور موجودہ دور میں کینیڈا نقل مکانی کرنی پڑی۔ زہرہ آج کل آن لائین اخبار ”زن ٹائمز“ کی ادارت کے فرائض انجا م دے رہی ہیں۔ انہوں نے نیشنل پریس کلب واشنگٹن ڈی سی کے نمائندے کو دیے گیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بیشتر کام کرنے والے صحافی قلمی ناموں سے ان کے اخبار میں لکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے لیکن اس کے باوجود وہ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ زہرہ کا کہنا ہے کہ ”ہم ملک کے پس ماندہ طبقوں کی آواز ہیں۔ ہمارے نزدیک عورتوں کے مسائل، معاشرے کے ہم جنس پرستوں کے حقوق اور ماحولیاتی تحفظ افغانستان کے اہم مسائل ہیں۔ طالبان ٹی وی پر اعلان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ سب جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ملک میں جو کچھ ہورہاہے اس سے ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ عام لوگوں کو قومی مسائل کی بحث سے دور رکھا جائے مگر ہم اپنے پس ماندہ شہریوں کوبھی قومی بیانیے کاحصہ بنانا چاہتے ہیں“ (Cowart ,2023)۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور افغانستان انڈی پنڈنٹ جرنلسٹز ایسوسی ایشن کے ایک سروے کے مطابقملک میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد 231 میڈیا کے اداروں کو بند کردیا گیا اور 6,400 صحافی بے روزگارہوئے۔ ملک میں مجموعی طور پر 60 فیصد مرد اور 80 فیصد خواتین صحافی اپنی ملازمت کھوچکے ہیں (Reporters Without Borders, 2021)۔

ہائبرڈ جمہوریتیں:بھوٹان، بنگلہ دیش اور پاکستان

خطے میں پاکستان، بھوٹان اور بنگلہ دیش میں ملے جلے یا ہائبرڈ سیاسی ڈھانچے موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں اگرچہ انتخابات جیتنے والی جماعت حکومت بناتی ہے لیکن ہر برسراقتدار جماعت آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے میڈیا اورمخالف سیاسی کارکنوں کو بزور دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ ملک کی دو بڑی جماعتیں، عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی برسر اقتدار آکر میڈیا اور حزب اختلاف کو کنٹرول کرتی ہیں۔

صحا فیوں، بلاگرز، کارٹونسٹ اور میڈیا کے کارکنوں پرحملے کرکے انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹوگرافر شاہد العالم کے مطابق عالمی سطح پر احتجاج کے باوجود زیر حراست صحافی مشتاق احمد کے قاتل کو ابھی تک پکڑا نہیں گیا۔ ایک اور صحافی کشور پر تشدد کی اطلاعات بھی ہیں (U.S. Institute for Peace, 2020)۔

بھوٹان میں آئینی بادشاہت قائم ہے جہاں شہریوں کو بر صغیر کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سب سے زیاد ہ اظہار رائے کے حقوق حاصل ہیں۔ ملک کے بیشتر میڈیا ادارے سرکار چلا رہی ہے جن میں صحافیوں کی ملازمتوں میں بہتری کے اقدامات نظر آتے ہیں۔ ریڈیو ملک میں خبروں کی ترسیل کا مقبول ترین ذریعہ ہے اور صرف بیس سال پہلے یہاں ٹی وی متعارف کرایا گیا تھا۔

ملک میں انفارمیشن، کمیونی کیشن اینڈ میڈیا ایکٹ(Information, Communication and Media Act) کے تحت ذرائع ابلاغ کو آزادی رائے کے حقوق حاصل ہیں لیکن میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے بھی کئی طریقہ کار موجود ہیں۔ ہتک عزت کے موثرقانون کے علاوہ سیکورٹی قوانین میڈیا کو زیر نگیں رکھنے کے لیے اکثر استعمال کئی جاتے ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ تیزی سے مقبول ہورہا ہے تاہم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی ورلڈ فریڈم انڈیکس کے مطابق تحقیقی یا تنقیدی رپورٹ لکھنے والے صحافیوں کو سیاسی کارکن آن لائین مہم کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ادھر پاکستان میں سیکورٹی انتظامیہ ملکی سیاست اورمیڈیا کو پابندرکھنے کے لیے ان پر غیر قانونی اور قانونی طریقے آزمائے جارہے ہیں۔ طاقت ور انتظامیہ سول حکومت کے پردے میں تشدد، اغواء اور اقتصادی دباؤ سمیت ہر قسم کے حربے استعمال کرکے میڈیا کوقابو میں رکھتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں بھی صحافیوں کے اغوااور تشددکے واقعات روز مرہ کا معمول تھے۔

پاکستان کے معروف صحافی رضا رومی نے، جو خود بھی ایک قاتلانہ حملے کے بعد امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں راقم کوبتایا کہ بے روزگاری سے بچنے کے لئے صحافی وہی لکھنے پر مجبور ہیں جو حکومت چاہتی ہے اور سینکڑوں صحافیوں کی بے روزگاری اور درجنوں پر قاتلانہ حملوں کے بعد بھی صحافیوں کی تنظیمیں اس جبرکے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہیں کرسکیں، انہیں کئی حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔پیمرا (Pakistan Electronic Media Regulatory Authority)آئے دن ٹی وی چینیلز کی نشریات بند کرتی ہے اور سرکاری اشتہا رات کو سنسرشپ کے حربے کے طورپر استعمال کیا جاتاہے۔ اس صورت حال میں سیلف سنسرشپ اب صحافیوں کی مقبول حکمت عملی بن گئی ہے۔

ناقص جمہوریتیں: انڈیا، سری لنکا، مالدیپ اور نیپال

برصغیر میں انڈیا، سری لنکا، مالدیپ اور نیپال کو ناقص جمہوریت کے خانے میں رکھا گیا ہے کیونکہ ا ن ملکوں میں جمہوری روایات اورباقائدہ انتخابات کے باوجود آزادی ء رائے اورشہریوں کے بنیادی حقوقکو بڑے پیمانے پر پامال کیا جارہاہے۔ یہاں سرکارملک کی اکژیتی آبادی کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے مذہبی، نسلی اور پس ماندہ اقلیتوں کے حقوق کا استحصال کررہی ہیں اور اس مقصد کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروپیگنڈہ، موجودہ قوانین اوردیگر سیاسی حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آنے کے بعدمیڈیا پر مختلف طریقوں سے پابندیاں عائد کررہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اکثریتی آبادی کے مذہبی جذبات کو ہوا دے کر انتخابی کامیابی کا نسخہ پالیا ہے اور سیکولرزم کے اصولوں کو بتدریج لپیٹا جارہا ہے۔ بھارتی محققین کھوسلہ اور وشنے کے مطابق قومی د ستوراور قوانین وضوابط میں ترامیم کرکے ملک کوسیکولر جمہوریت سے اکثریتی جمہوریت میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب سرکار پارلیمان کے اراکین کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرتی ہے (Khosla & Vaishnay,2021)۔

انڈیا میں صحافیوں پر پولیس کا تشدد، بی جے پی پارٹی کے اراکین کے حملے اور سیاسی لیڈروں کی جانب سے صحافیوں پر مقدمات آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے ایک آن لائین پروگرام میں انڈیا کے معروف صحافی سدھارتھ وردا راجن کا کہنا تھا کہ مودی سرکارنے میڈیا سنسر شپ کے نت نئے طریقے نکال لیے ہیں:

”آج انڈیا میں بڑھتے ہوئے سیاسی ہتھکنڈوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان رویوں کا سراغ میڈیا کے خلاف بی جے پی پارٹی کے وزراء کے بیانیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک نیا رجحان یہ بھی دیکھا گیاہے کہ ملک کے ٹی وی چینل اب سرکاری ترجمان نظر آتے ہیں“( US Institute for Peace, 2020)۔

بر صغیر کے ایک چھوٹے ملک مالدیپ میں کچھ نئے اقدامات کے تحت تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں کوقانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ عبداللہ یامین کی سابق حکومت نے پریس اور میڈیاکو سخت پابندیوں میں رکھامگرصدر محمد صالح نے ان آزادیوں کو بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ ہتک عزت کے قوانین، جنہیں ماضی میں بڑے پیمانے پر صحافیوں اور میڈیا کے خلاف استعمال کیا گیا، اب ختم کردیے گئے ہیں، صحافیوں پر پولیس کا تشداب بھی جاری ہے۔

نیپال بادشاہت سے جمہوری ریاست کے دور میں داخل ہورہا ہے اور سیاسی ادارے تشکیل پارہے ہیں۔ اس دوران آزادیء اظہار پر پابندیاں بھی جاری ہیں۔ ملک میں مذہب کے خلاف اظہار رائے پرسخت ترین پابندیاں ہیں اور ذرائع ابلاغ، کتابوں اور فلموں پر سنسر شپ کے ذریعے رائے عامہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اگرچہ پہلے کی نسبت صحافیوں کے ساتھ حکومت کے رویوں میں بہتری دیکھی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر یہاں ذرائع ابلاغ اور صحافی زیر عتاب ہیں۔ ماضی قریب میں چودہ صحافیوں کی گم شدگی اور پولیس کے ہاتھوں صحافیوں پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے۔

نیپال کے صحافی سلوک گیوالی ملک میں سنسرشپ پر تبصر ہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”نیپال کے عبوری آئین میں اظہار رائے پر پابندیوں کی توجیہات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ دستور میں اظہار رائے کی ضمانت دی گئی ہے، اس میں ان موضوعات کی ایک لمبی فہرست بھی شامل ہے جس کے ذریعے پابندیوں کو جائزقرار دیا جاسکتا ہے او ر اس طرح آزادی اظہار ایک بے معنی تصور بن کے رہ گیا ہے“ (Gyawali, 2014)۔

آزادی اظہار پر قدغنیں لگانے کے لئے ملک میں مختلف قسم کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو الگ تھلگ کردیا جاتا ہے جب کہ سرکار کے حمایتی میڈیاکے اشتہاروں میں اضافہ ہوتاہے۔ 2018ء میں متعارف کئے گیے کرمنل کوڈ میں سرکاری کارندوں پر تنقید پر پابندیاں لگائی گئیں اور تحقیقی رپورٹس کی حدود مقرر کر دی گئی ہیں۔

سری لنکامیں طویل خانہ جنگی کے دوران ذرائع ابلاغ دونوں فریقین کے نشانے پرتھے مگر اب منتخبحکومتیں بھی انہیں خاموش رکھناچاہتی ہیں اورسنسرشپ سیاست کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔ معروف صحافی Dilrukshi Handunnetti یو ایس انسٹی ٹیوٹ کے آن لائین پروگرام میں اپنے ملک میں صحافیوں پر ہونے والے جبرکا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: ”سری لنکا میڈیا انڈسٹری کو کنٹرول کرنے اور ا ن پر سخت دباؤ کی ایک جیتی جاگتی مثال بن گیا ہے۔ پہلے ہم ان میڈیا کی نشاندہی کرتے تھے جنہیں زیر نگیں رکھا گیا اور اب تو یہ کہنا چاہئے کہ میڈیا کے تمام ادارے سرکاری سنسر شپ کا شکار ہیں، یہاں تک کہ مین اسٹریم میڈیا بھی“ (US Institute for Peace, 2020)۔

تجزیہ

گزشتہ دس سالوں میں عالمی پیمانے پر 318 صحافی ہلاک ہوئے ہیں جن میں 86 فیصدقاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹز (CPJ) نے Impunity Index میں ان رجحانات کے اعدادوشمار شائع کیے ہیں۔ اگرچہ انڈکس میں افریقہ اور مشرق وسطی کے علاوہ کچھ اور ممالک سر فہرست ہیں لیکن جنوبی ایشا میں بھی صورت حال کچھ کم خطرناک نہیں۔ انڈکس میں جنوبی ایشیا کے چارممالک بھی شامل ہیں جن میں پاکستان میں 16 جرائم، افغانستان میں 11، انڈیا میں 17 اور بنگلہ دیش میں 7 جرائم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان میں صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش میں بہتری نہیں دیکھی گئی(Impuinity Report, 2022)۔

پاکستان کی صحافی اور سماجی کارکن ماروی سرمد جو آج کل واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک میں فیلوشپ کررہی ہیں، نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم کو بتایاکہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ملکوں میں ریاستیں اپنے شہریوں کی حفاظت کے بجائے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان پر کیے گیے تشدد کونہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ اکثر خود بھی اس کھیل میں شامل ہوتی ہیں اور اس کے برعکس مغربی ممالکاپنے شہریوں پر کئے گیے تشدد کو خود ریاست پر حملہ تصور کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت علاقے کے دوسرے ملکوں میں یہ رجحانات ایک خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔

بر صغیرکے تمام ملکوں میں آزادی صحافت کے تجزئے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ نام نہاد جمہوریت کے دعوؤں کے باوجود یہاں میڈیا کومختلف بالواسطہ اور بلا واسط حربوں خاموش رکھاجاتا ہے۔ کووڈ کے بعد ان ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں اور بھی بڑھ کر دودھاری تلوار بن گئی ہیں۔ بد قسمتی سے عالمی پیمانے پر یہ ممالک دوسرے ملکو ں کے مقابلے میں سب سے نچلے درجے پرہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ بھوٹان، مالدیپ اور نیپا ل میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صحافیوں کے لیے ساز گار ماحول پیدا ہوا اور ان نسبتاً چھوٹے ملکوں نے بڑی ”جمہوری“ ریاستوں، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں صحافیوں کو بہتر ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جب کہ ان تینوں ملکوں میں صحافتی اداروں پرمزید پابندیاں لگائی گئیں۔

اس تقابلی جائزے سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خطے میں آمرانہ، ناقص یا ہائبرڈ طرز حکومت میں آزادی رائے پر مختلف انداز میں قدغنیں لگائی جاتی ہیں لیکن آمرانہ سیاست میں یہ پابندیا ں ناقابل یقین حدتک بڑھ جاتی ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک میں صحافتی آزادیاں کسی نہ کسی صورت اس کے سیاسی نظام سے منسلک ہیں؟ یہ خیال اس لیے بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکمل جمہوری نظام میں صحافتی اداروں کو جمہوری نظام کا چوتھا ستون سمجھتے ہوئے حکومت اور اس کے ادارے تنقید برداشت کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس بحث کاصرف ایک پہلو بھی ہوسکتا ہے۔

ریاستوں کے طرز حکومت کے علاوہ کیا اور عوامل بھی ہر معاشرے میں صحافتی آزادی کے پیمانے تشکیل کرتے ہیں؟ کچھ محققین کے نزدیک صرف سیاسی ڈھانچے ہی نہیں، ملکی معیشت، غربت، قانونی محرکاتاور سماجی رسوم و روایات بھی آزادیء رائے کی راہیں استوار کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب معیشت بدحالی کا شکار ہو، ملک کے عوام غربت اورعدم مساوات میں پس رہے ہوں تو حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ میڈیا کے ذریعے عوام کو صحیح صورت حال سے بے خبر رکھا جائے اور سنسرشپ ان کا اہم ہتھیار بن جاتا ہے۔

دوسری جانب کووڈ کی وباء کے بعد پوری دنیا میں پاپولزم کی تحریکوں نے جنم لیا جن کے لیڈروں نے روایتی سیاست کو خیر باد کہہ کرنئے قدامت پسند بیانئے کوملکی سیاست کا حصہ بنایا۔ حکومت، سیکورٹی کے اداروں اورمیڈیا پر عدم اعتماد اس بیانیے کے بنیادی ستون تھے جسے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے عالمی سطح پر پھیلانے میں خاصی مدد کی۔ بر صغیر میں، جہاں ذرائع ابلاغ پہلے ہی سیاسی جبرکا شکار تھے، پاپولزم نے بر سر اقتدار طبقوں اور عوام کے درمیان حائل خلیج کو مزید بڑھا نے میں مدد کی اور کسی حد تک ان ہی تحریکوں کے زیر اثر آزادیء صحافت کو نشانہ بنایا جارہاہے۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آزادی کے سترسال بعد بھی جنوبی ایشیا میں آزادی ء اظہارکی ضمانت کیوں نہیں دی جاتی اور پورے خطے میں کچھ فرق کے ساتھ میڈیا پر پابندیاں عروج پر ہیں؟ تاریخی طورپر بر طانوی سامراج کے دور میں ہندوستان کے اخباروں اور رسالوں نے تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا اوراس تنقید کی روک تھام کے لیے بر طانوی سرکارنے سخت ترین قوانین نافذ کیے۔ آزادی کے بعد بر صغیر میں سرکار اور عوام کے درمیان یہ خلیج اب تک موجود ہے اور یہی قوانین استعمال کرتے ہوئے میڈیا پر پابندیا ں لگائی جارہی ہیں بلکہ ان کی بنیاد پرمزید جابرانہ قوانین تشکیل دئے جارہے ہیں۔ مجموعی طورپر خطے کی حکومتیں اور ادارے اب تک سامراجی ذہن سے نجات نہیں حاصل کرسکے اور شہریوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے خلاف صف آرا ء نظر آتے ہیں۔ جب تک مقتدر حلقوں کی یہ ذہنی کیفیت تبدیل نہیں ہوتی میڈیا اور حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات اتنے روشن نہیں ہیں۔بر صغیرمیں جمہوری نظام گز شتہ آدھی صدی سے ناتواں بنیادوں پر کھڑا ہے اور اس کا سب سے کمزور ستون آزادیء اظہار ہے۔ سنسر شپ کے اس مہلک وائرس کو روکنے کے لیے خطے میں جمہوری روایات مستحکم کرنا ہوں گی تاکہ ذرائع ابلاغ کو آزادی کی فضا میں کام کرنے کے مواقع مل سکیں۔

حوالے
Cowart, Jeff. (2023). Exiled Afghan Journalist on the Power of Good Journalism. National Press Club Washingoton, May 1. Link:
https://www.pressclubinstitute.org.2023/05/01/we-are-going-to -let-the-world-know.
CPJ. (2023). Press Release. Link: https://mail.google.com/mail/u/0/#inbox/FMfcgzGsnBZnNmVPHxfzpKDKjhRjrtTqC

CPJ. (2023).Committee to Protect Journalist Archive. Link: cpj.org.
Democracy Index. (2021). In sickness and in health. Link: https://www.eiu.com/n/campaigns/democracy-index-2020/.
Gyawali, Slok. (2014). Censorship in Nepal: Forms and Evolution. Fair Observer Website. Link: https://www.fairobserver.com/region/central_south_asia/censorship-in-nepal-forms-evolution-73208/
Impuinity Report (2022). CPJ.Killing with Impunuty. Link: https://cpj.org/wp-content/uploads/2022/10/CPJ_2022-Global-Impunity-Index.pdf
International IDEA. (2019). The global state ofdemocracy, IN FOCUS: Press Freedom and the Global State of Democracy Indices. Link: https://www.idea.int/sites/default/files/publications/press-freedom-and-global-state-democracy-indices.pdf
Khosla, Madhav & Vaishnay, Milan. (2021). The three faces of Indian state. Journal of Democracy,32(1),January,111-125.
Reporters without Borders. (2021). Since the Taliban takeover, 40% of Afghan media have closed, and 80% of women journalists have lost their jobs. December 21, 2021. Link: https://rsf.org/en/news/taliban-takeover-40-afghan-media-have-closed-80-women-journalists-have-lost-their-jobs
U.N. (2022). Universal Declaration of Human Rights. Link: https://www.un.org/en/
U.S. Institute for Peace.(2020). Vanishing media freedoms across South Asia, Virtual Panel Discussion, December 20. Link: https://www.usip.org/events/vanishing-media-freedoms-across-south-asia.

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔