قیصر عباس
(واشنگٹن ڈی سی) کشمیر ی صحافی انورادھا بھیسن نے کہا ہے کہ مودی سرکارنے کشمیر کوہندو ریاست کا حصہ بنا کر شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر دیے ہیں اور اب وہ پورے انڈیا میں یہی ماڈل نافذ کر رہی ہے۔ ان کے خیال میں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے بعد علاقے میں مسلمانوں کے استحصال کو قانونی اور سیاسی شکل دی جا رہی ہیں۔
ان کے مطابق انڈین دستور کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے بڑے پیمانے پرسیاسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں تاکہ علاقے کوہندو اکژیت میں تبدیل کر کے مسلم آبادی کو اقلیت بنادیا جائے: ”یہا ں سرکار مسلمانوں سے وہی سلوک کر رہی ہے جو چین میں مسلمان آبادی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے ہندو توا کو ایک سیاسی ہتھیار بنا کر پورے انڈیا کو ایک منتخب آمریت میں تبدیل کر دیا ہے۔
انورادھا بھیسن سری نگر سے شائع ہونے والے ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر اور امن کارکن کی حیثیت سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی علم بردار کے طور پر معروف ہیں۔ وہ اسٹنفوورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ فیلو ہیں اور عالمی اخباروں میں کالم لکھتی ہیں۔ وہ ہفتے کے دن انڈین ڈائسپرا واشنگٹن ڈی سی (Indian Diaspora Washington DC)کے زیر اہتمام کشمیر کی موجودہ صورت حال پر ایک ورچوئل مزاکرے سے خطاب کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہاکہ سیاحت اور صنعت کو مکمل طور پر بھارت سے لائے گئے ہندو تاجروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ علاقے کی ترقی کے لئے حکومت کے دعوے کے مطابق 33,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ منصوبوں پر کیا عمل درآمد ہو رہا ہے۔ انہوں نے سرکار سے سوال کیا: ”ہمیں بتا یا جائے کہ یہ سرمایہ کاری کہاں ہو رہی ہے اور کیسے کی جا رہی ہے۔“ انورادھا کے مطابق بھارت کے کرونی سرمایہ داروں کو کشمیرلانے کے منصوبے بن رہے ہیں جبکہ مقامی لوگو ں کے گھروں کومسمار کیا جا رہا ہے، لینڈمافیا مقامی زمینیں ہتھیا رہی ہے اور مقامی آبادی کو خوف زدہ کر کے پرامن مزاحمت کی اجازت بھی نہیں جا رہی۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری حکمت عملی تین اداروں ’سیاست، سول سوسائٹی اور صحافت‘ کو کمزور کر کے کشمیر کو مکمل طور پر کالونی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سیاسی محاذ پر کشمیر کے سیاسی پس منظر کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ علاقے کوملک میں ضم کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہاں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا لیکن 2014ء کے بعد کشمیر میں انتخابات نہیں ہوئے۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر جغرافیائی حد بندیوں ذریعے ہندو حلقوں کومستحکم کیا جا رہا ہے تاکہ ریاستی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
دوسری جانب علاقے کی سول سوسائٹی کو بے اختیار کر دیا گیا ہے اور کارکنوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن خرّم پرویز ایک عرصے سے زیر حراست ہیں اور حکومت لوگوں کے ردعمل سے اتنی خائف ہے کہ پرامن جلوسوں کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔
تیسری حکمت عملی کے تحت میڈیا اور صحافیوں کی آواز بند کر دی گئی ہے اورآزادی اظہار کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ میڈیا کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے اور صحافیوں کی گرفتاری اب روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ جیسی تکنیکی سہولتوں اور ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کے ماحول میں بیشتر صحافی سیلف سنسرشپ پر مجبور ہو گئے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔