فاروق طارق
خانیوال میں کارپوریٹ فارمنگ کا آغاز ”خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم“ کے نام پر جس دھوم دھام سے کیا گیا اس سے نظر آتا ہے کہ ریاست اب صنعتی ترقی کی بجائے زرعی ترقی کے خواب دیکھ رہی ہے۔
”خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم“ 90 مربع زمین یا 2250 ایکڑ زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ گرین انیشی ایٹو یا گرین انقلاب پاکستان کی سرکاری زمینوں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے حوالے کرنے کا پروگرام ہے۔
اس سے قبل 1960ء کی دھائی کا گرین انقلاب پاکستان کی زمینوں کو کھاد اور زہریلی دوائیوں کے حوالے کر گیا۔ ٹریکٹر کے بے جا استعمال سے زمین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ ایوب آمریت نے ورلڈ بینک گروپ کے صدر رابرٹ میکنامارا کے گرین انقلاب کو زراعت کے لیے لازمی قرار دیا۔ جس کے دوران ٹیوب ویل ٹریکٹر اورکھادوں کے استعمال کے ذریعے زرعی پیداوار کو بڑھانے کا دعویٰ کیا گیا اور ترقی یافتہ ممالک نے زرعی ٹیکنالوجی کو تیسری دنیا کی جانب شفٹ کرنے کا اعلان کیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح دیہاتوں سے بھوک، بے روزگاری اورغربت کا خاتمہ کیا جائے گا۔ گرین انقلاب اس مقصد کے حصول کے لیے بری طرح ناکام ہوا۔ یہ انقلاب ”نیچر“ کے دفاع میں نہیں تھا بلکہ بھوکوں کو کھانا دینے کے اعلان سے شروع ہوا۔ ایک ٹریکٹر کے استعمال سے تقریباً 12 زرعی مزدور، ہاری یا مزارع بے روزگار ہو گئے۔ گرین انقلاب کے وقت پاکستان کے 6 فیصد جاگیردار 40 فیصد زمین کے مالک تھے اور دیہی آبادی کا نصف حصہ صرف 6 فیصد زمین کا مالک تھا۔ اس عدم مساوات پر توجہ نہ دی گئی، جاگیرداری کو چھیڑا نہ گیا اور جاگیرداروں کو مغربی ٹیکنالوجی، کھادوں اور زرعی زہر (ادویات) پر لگا دیا گیا۔
تاہم جس مقصد کے لیے یہ گرین انقلاب کا نعرہ لگایا گیا تھا وہ پورا نہ ہوا۔ ایوب آمریت کے اس پروگرام نے عدم مساوات کو جنم دیا، جاگیرداری کو مضبوط کیا، دیہی زرعی زمینیں برباد ہوئیں، ان کو کھادوں کی عادت پڑ گئی اور قدرتی زرعی طریقہ کار کی قربانی پر یہ گرین انقلاب پاکستان سے غربت اور بھوک ختم کرنے میں ناکام ہوا۔ پھر 62 19ء سے شروع ہونے والی پاکستان کی پہلی بڑی عوامی تحریک نے ایوب آمریت کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یحییٰ آمریت کوبھی جانا پڑا اور ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی دباؤ پر،جس کا اظہار 23 مارچ 1970ء کو لاکھوں کسانوں پر مشتمل ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس سے ہوا، کے دباؤ تلے 1972ء میں زرعی اصلاحات کرنا پڑیں اور زمینیں مزارعین اور چھوٹے اور بے زمین کسانوں میں تقسیم ہوئیں۔
دوسرے گرین انقلاب کے داعی بھی وہی زبان استعمال کر رہے ہیں، جو پہلے گرین انقلاب سے پہلے ایوب آمریت کرتی تھی۔ ملک کو غربت سے باہر نکالنا ہے تو زمین مزارعین اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کرو، نہ کہ یہ بڑے جاگیردار نئی ٹیکنالوجی کے نام پرسرکاری زمینوں کے مالک بن جائیں۔ خانیوال میں جو نیا فارم بنایا گیا وہ 90 مربع زمین پر ہے اوراس کا مالک ابھی مزید زمین کا مطالبہ کر رہا ہے۔
پاکستان کا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ تمام بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ اس کا حل خوراک کی خود مختاری ایگروایکالوجی اوردوستانہ یکجہتی میں پوشیدہ ہے۔
اب دوسرے گرین انقلاب کے نام پر سرکاری زمینیں سرمایہ داروں کے حوالے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کی جارہی ہیں جو ان پر دوسرے کاموں کے علاوہ ہاوسنگ سوسائٹیاں بھی تعمیر کریں گے۔
اس سے زرعی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ خوراک اور زرعی اجناس مزید مہنگی ہوں گی، عوام مساوات اور طبقاتی جبر میں اضافہ ہو گا۔
زرعی انقلاب لانا ہے تو چھوٹے اور بے زمین کسانوں، مزارعوں اور ہاریوں میں سرکاری زمین مفت تقسیم کی جائے۔ انہیں ریاست زمین آباد کرنے میں مدد دے، جاگیرداروں کی ہزاروں ایکڑ زمین کو زرعی اصلاحات کر کے 25 ایکڑ سے زیادہ زرخیز زمین کسی کے پاس نہ رہنے دی جائے۔
سرمایہ دار طبقات 72 سالوں میں تمام تر سرکاری اعانت کے باوجود ملک کو ترقی کی راہ پر نہ ڈال سکے تو اب کیا ڈالیں گے۔ کشکول توڑنے کی بجائے اس مزید وسیع کیا جا رہا ہے۔
کشکول توڑنا ہے تو سامراجی اداروں کو قرضہ جات کی ادائیگی بند کر کے اسے عوام کی فلاح پر لگایا جائے۔ صنعتی ترقی کے لئے زرعی اصلاحات اور سرکاری و غیر سرکاری بڑی زمینوں کی چھوٹے اور بے زمین کسانوں میں تقسیم لازمی ہے۔