دنیا

ایرانی صحافت پابندیوں کی زد میں!

قیصر عباس

صحافیوں اور انسانی حقو ق کے عالمی ادارے دو ایرانی صحافیوں نیلوفر حامدی اور الہہِ محمدی کی حراست اور ان پر چلائے جانے والے مقدمات کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ دونوں خواتین صحافیوں نے گزشتہ سال پولیس کے ہاتھوں مہسا امینی کی ہلاکت پر سب سے پہلے خبر دی تھی۔ وہ اس وقت سے پولیس کی حراست میں ہیں اور ان پر خفیہ مقدمات چل رہے ہیں۔

اس سال مئی میں دونوں صحافیوں پرامریکہ سمیت دشمن ملکوں کے ایماپر قومی مفادات کو نقصان پہنچا نے کے الزامات میں مقدموں کی سماعت شروع کی گئی تھی جو اب تک جاری ہے۔ یہ مقدمات تہران اسلامی انقلابی عدالت میں چلائے جا رہے ہیں جوسخت سزاؤں کے لئے جانی جاتی ہے۔

نیلوفر حامدی نے اس ہسپتا ل تک رسائی حاصل کرکے تصاویر بنائی تھیں جہاں مہسا امینی کو ہلاکت سے پہلے زخمی حالت میں رکھا گیا تھا۔ یہ تصاویر آن لائین وائرل ہوئیں۔ الہہِ محمدی نے مہسا امینی کی تدفین پر رپورٹنگ کرتے ہوئے شرکاء کے غم و غصے کو لوگوں تک پہنچایا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافیوں کے ادارے عالمی پیمانے پر ان دونوں صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیشنل پریس کلب، واشنگٹن ڈی سی نے دونوں صحافیوں کے لیے’International Abuchon Award‘ ایوارڈ کا اعلان کیا ہے۔ کلب کی صدر آئلین و رائلی (Eileen O’ Reilly) نے اس سالانہ ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ”ایران اس سال صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک ثابت ہواہے۔ ان دونوں صحافیوں نے مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاج کو دنیا تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“

ادھرصحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے کے پروگرام ڈائرکٹر نے ایرانی صحافیوں کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی کمیونٹی کو ایران میں صحافیوں پرجبر و ستم پر شدید رد عمل کا اظہار کرناچاہیے کیوں کہ ”ان صحافیوں پر خفیہ مقدمات چلانا انصاف کے خلاف کھلا مذاق ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ ان پر لگا ئے گیے الزامات بے بنیاد ہیں۔“

ایران آج پوری دنیا میں صحافیوں کی حراست کے لیے سرفہرست ہے جہاں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاجی جلوسوں کی رپورٹنگ کے جرم میں اب تک 95 صحافی زیر حراست ہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔