تاریخ

سپارٹیکس: یادگار ہالی وڈ فلم بھی، کیمونسٹ مزاحمت کا استعارہ بھی

فاروق سلہریا

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا تھا۔ نوے کی دہائی نصف سے زائد گزر چکی تھی۔ میرے ہم جماعت اوردوست مسعود کو جب پتہ چلا کہ میں نے ’سپارٹیکس‘ نہیں پڑھا تو چند روز بعد انہوں نے مجھے یہ ناول پڑھنے کے لئے دیا۔ مزاحمت، بغاوت اور بہادی کا سبق دیتا ہوا یہ ناول جب تک میں نے ختم نہیں کر لیا، میں سویا نہیں۔ میں نے ایسا ناول اس سے قبل پہلے نہیں پڑھا تھا۔ ان دنوں میں ’جدوجہد گروپ‘ کا رکن بن چکا تھا اور جو بھی نئی کتاب پڑھتا، اپنے ساتھیوں سے اُس کا ذکر کرتا۔ گروپ کے مٹھی بھر تمام ساتھیوں نے یہ ناول پڑھ رکھا تھا۔

ایک روز، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں اپنے استاد ڈاکٹر مہدی حسن مرحوم سے بھی اس ناول کا ذکر کیا۔ وہ بولے: ’ناول پڑھ لیا ہے تو اب اس ناول پر بنی فلم بھی دیکھ لو ‘۔ انہی کی زبانی پتہ چلا کہ کہ کرک ڈگلس کون ہے۔ اُن دنوں وی سی آر اور فلمی کیسٹ کرائے پر ملتے تھے۔ جب جیب نے فرصت دی تو یہ یاد گار فلم بھی دیکھ لی۔

اِنہی دنوں کی بات ہے کہ لاہور میں ایبٹ روڈ پر واقع ’جدوجہد‘ کے دفتر میں ’سنگت‘ نامی ایک جریدہ بلوچستان سے بذریعہ ڈاک موصول ہوتا تھا۔

ایک دن سر ورق پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ اس جریدے کے مدیر شاہ محمد مری ہیں۔ میں نے ریلوے میں کام کرنے والے ساتھی اور ٹریڈ یونین کے معمر رہنما مرحوم یوسف بلوچ سے پوچھا: ’کیا یہ وہی شاہ محمد مری ہیں جنہوں نے سپارٹیکس کا ترجمہ کیا ہے‘۔ جب یوسف بلوچ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے مجھے یہ بھی بتایا کہ شاہ محمد مری پکے مارکس وادی ہیں تو یک گونہ خوشی ہوئی۔ نوے کی دہائی میں مارکس وادی کہلانا آسان کام نہ تھا۔ لوگ باقاعدہ مذاق اڑاتے تھے۔ میں نے بھی ان دنوں ترجمے کے کچھ کام کئے تھے۔ ’سپارٹیکس‘ ترجمے کے کام میں ہمیشہ انسریشن کا کام دیتا۔ ’سپارٹیکس‘ کا ترجمہ اس قدر شاندار تھا کہ بطور قاری یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے یہ ناول انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ یہی اچھے ترجمے کی بنیادی خوبی ہوتی ہے۔ قاری کو نہیں لگنا چاہئے کہ وہ ترجمہ پڑھ رہا ہے۔

گو سالہا سال جب بھی نئے ساتھیوں سے، یا بطور معلم طالب علموں کے ساتھ، کبھی اس موضوع پر بات ہو کہ کون سی فلم دیکھی جائے،کون سا ناول پڑھا جائے تو میں ’سپارٹیکس‘ کا نام ضرور تجویز کرتا ہوں۔ ساتھ ہی اس بات کا اضافہ بھی کرتا ہوں کہ اردو ترجمے میں پڑھنا۔ سچ پوچھئے مجھے ’سپارٹیکس‘ کے ساتھ ہمیشہ شاہ محمد مری کا نام ذہن میں آیا نہ کہ اس کے امریکی مصنف ہاورڈ فاسٹ کا۔ میں نے کبھی کھوج لگانے کی کوشش بھی نہ کہ ہاورڈ فاسٹ ہیں کون؟

14 ستمبر کو معروف مارکس وادی امریکی جریدے ’جیکوبن‘ نے ہاورڈ فاسٹ اور ’سپارٹیکس‘بارے ایک شاندار معلوماتی مقالہ شائع کیا۔ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہاورڈ فاسٹ ایک عظیم ناول نگار ہی نہیں بلکہ کیمونسٹ بھی تھے جنہیں میکارتھی پیریڈ میں، دیگر کیمونسٹ کارکنوں کی طرح، شرمناک ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ ہاورڈ فاسٹ نے ’Being Red‘ کے عنوان سے اپنی سوانح حیات بھی تحریر کی۔

انہوں نے اپنا پہلا ناول اٹھارہ سال کی عمر میں لکھا اور دوسری عالمی جنگ تک وہ امریکہ کے ان لکھاریوں میں شمار ہوتے تھے جنہیں قبول عام حاصل تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ فاشسٹ مخالف تحریک میں متحرک تھے اور پورے امریکہ میں کیمونسٹ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ امریکی کی فرسٹ لیڈی ایلینور روزویلٹ جیسے لوگ بھی ہاورڈ فاسٹ کو چندہ دینے والوں میں شامل تھے۔ 1946ء میں جب نیو یارک میں یوم مئی کا جلوس نکلا تو ڈیڑھ لاکھ افراد شامل تھے۔ لگتا تھا کہ امریکہ میں کیمونسٹ نظریات کی مقبولیت کا وقت آ چکا ہے۔ ایسا نہیں ہوا۔ دو سال بعد، یوم مئی کے موقع پر جلوس نکلا تو کئی مزدور نعرہ لگا رہے تھے: حضرت عیسی ٰ کے لئے، کیمونسٹوں کو مار ڈالو۔

میکارتھی پیریڈ کا آغاز ہو چکا تھا۔ امریکہ جیسی طاقتور ریاست پوری شدت کے ساتھ کیمونسٹوں کو غدار قرار دے کر ان کے پیچھے پڑی تھی۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم ’اوپن ہائمر‘ میں بھی میکارتھی پیریڈ میں کیمونسٹوں پر جبر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جوزف میکارتھی ایک امریکی سینیٹر تھے جو اس کیمونسٹ دشمن ریاستی مہم کی نظاہر قیادت کر رہے تھے جبکہ ایف بی آئی کے سر براہ جے ایڈگر ہوور (J Edgar Hoover) اس مہم میں پیش پیش تھے۔ اس مہم کا زوال پچاس کی دہائی کے وسط میں اس وقت ہونے لگا جب پتہ چلا کہ کیمونسٹوں پر بنائے گئے مقدمات جھوٹ پر مبنی تھے۔

ہاورڈ فاسٹ اس کی ایک مثال تھے۔ جب 1946ء میں ہاورڈ فاسٹ نے یوگو سلاویہ کے کیمونسٹ رہنما مارشل ٹیٹو پر کتاب بعنوان ’The Incredible Tito‘ شائع کی تو وہ زیر ِعتاب آ گئے۔ اُن دنوں ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی پروفیسر، دانشور، صحافی اور ہالی وڈ کے سکرپٹ رائٹر کیمونسٹ پارٹی اور نظریات سے وابستہ تھے یا ہمدردی رکھتے تھے۔ اگلے سال ہاورڈ فاست کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ دوران اسیری ہاورڈ فاسٹ نے جرمنی کے ’سپارٹیکس گروپ‘ بارے تحقیق شروع کی۔ اس گروپ کے دو اہم رہنما، روزا لکسمبرگ اور کارل لیبکنیخت تھے جنہیں جرمن انقلاب کی ناکامی کے بعد 1918ء میں شہید کر دیا گیا تھا۔ 1950ء میں، جب ہاورڈ فاسٹ جیل سے باہر آ چکے تھے، انہوں نے اپنا ناول ’سپارٹیکس‘ لکھنا شروع کیا۔ سپارٹیکس بارے کہا جاتا ہے کہ وہ عہد روم میں غلاموں کی بغاوت کا رہنما تھا۔ یہ بغاوت ناکام ہو گئی تھی۔ پیشے کے اعتبار سے سپارٹیکس ایک گلیڈی ایٹر تھا۔

ناول کی خوبصورتی یہ ہے کہ سپارٹیکس عہد قدیم کا کوئی کردار نہیں لگتا۔قاری کا تعلق کسی بھی ملک سے کیوں نہ ہو، اسے لگے گا کہ سپارٹیکس اس کے ملک کا مزدور اور کسان ہے، یا وہ خود گلیڈی ایٹر ہے۔ کسی ناول یا فلم کی کامیابی اورخو بصورتی ہے یہ ہوتی ہے کہ قارئین یا ناظرین اس کے کرداروں کے ساتھ خود کو ایسوسی ایٹ کرنے لگتے ہیں۔

ہاورڈ فاسٹ نے ناول مکمل کر لیا تو کوئی پبلشر اسے شائع کرنے پر تیار نہیں تھا۔ امریکہ میں ان دنوں ایڈگر ہوور سے ٹکر لینے کا مطلب یہی سمجھ لیجئے کہ جیسے پاکستان میں آپ ڈی جی آئی ایس آئی کے احکامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہوور نے تو سکولوں اور پبلک لائبریریوں سے دیگر کیمونسٹوں کی طرح، ہاورڈ فاسٹ کی کتابیں بھی غائب کروا دی تھیں۔ ان دنوں کے کتنے ہی اہم ادبی نام ہیں جنہیں امریکی تاریخ سے غائب کر دیا گیا۔ کتنے ہی مسودے تھے وہ اس لئے شائع نہ ہو سکے کہ ان کے مصنف مارکس وادی تھے۔

ہاورڈ فاسٹ کے سابق پبلشر ’لٹل براون اینڈ کمپنی‘ نے حامی بھری مگر ایف بی آئی کی دھمکی کے بعد مکر گئے۔ آخر کار ہاورڈ فاسٹ نے ناول کو خود ہی شائع کر کے ڈسٹری بیوٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ انہیں پہلے سے جانتے تھے۔پھر دورانِ اسیری ان کو عالمی شہرت بھی مل چکی تھی۔ پابلو نرودا جیسے شہرہ آفاق شاعر نے ان کے لئے نظم لکھ کر انہیں جیتے جی امر کر ڈالا تھا۔ ناول بھی تخلیق کا ایک شاہکار تھا۔ ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا۔ صرف چالیس ہزار کاپیاں تو ہاورڈ فاسٹ کے گھر سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئیں۔ بعد ازاں، مین اسٹریم پبلشرز نے بھی اسے شائع کیا۔ 56 زبانوں میں شائع ہونے والے اس ناول کے ایک سو ایڈیشن شائع ہوئے۔ ’سپارٹیکس‘ جوزف میکارتھی ازم کے منہ پر ایک طمانچہ تھا اور ہے۔ اس کہانی کو ایک ڈرامائی موڑ ہالی وڈ نے دیا۔

’سپارٹیکس‘ ہالی وڈ میں

ہوا یوں کہ ستر اسی سال پہلے، ہالی وڈ کے اہم ترین سکرپٹ رائٹر کیمونسٹ تھے۔ جب ہالی وڈ میں کیمونسٹوں کو بلیک لسٹ کیا گیا تو (وائے سر مایہ داری) بہت سے پروڈکشن ہاوسز نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہ فلم کا سکرپٹ تو کسی کیمونسٹ سے لکھواتے لیکن ٹائٹلز میں کوئی فرضی نام دے دیا جاتا یا کسی فرنٹ مین کا نام استعمال کر لیا جاتا۔ ڈیلٹن ٹرمبو (Dalton Trumbo) کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ ہالی وڈ کے سب سے بڑے سکرپٹ رائٹر مانے جاتے تھے۔ پابندی لگنے کے بعد انہوں نے مختلف ناموں سے سکرپٹ لکھے۔ ان کی لکھی ایک فلم ’The Brave One‘ کو 1956ء میں آسکر ایوارڈ مل گیا۔ ساتھ ہی خبر پھیل گئی کہ اس فلم کا سکرپٹ لکھنے والے رابرٹ رِچ اصل میں ڈیلٹن ٹرمبو ہیں۔ جب صحافیوں نے ڈیلٹن ٹرمبو سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے اقرار کرنے کی بجائے یہ کہا کہ ہالی وڈ کی بلیک مارکیٹ بہت بڑی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی ساتھ بلیک لسٹ ہونے والے کامریڈز کو بھی کام ملتا رہے۔

اس دوران کچھ تو میکارتھی اسٹ جبر میں کمی آئی،کچھ ’سپارٹیکس‘ کی مقبولیت کا نتیجہ تھا، کچھ ہالی وڈ کی کاروباری منطق کہ کرک ڈگلس نے ہاورڈ فاسٹ سے کہا کہ وہ اپنے ناول ’سپارٹیکس‘ کو فلمی مکالموں اور کہانی کی شکل دیں۔

جب کرک ڈگلس نے ’سپارٹیکس‘ بنانا شروع کی تو ایک اور پروڈکشن ہاوس نے ’گلیڈی ایٹرز‘ بنانا شروع کر دی۔ اس ڈر سے کہ دونوں کی کہانی ایک جیسی ہو سکتی ہے، کرک ڈگلس اپنی فلم جلد از جلد مکمل کرنا چاہتے تھے۔ ادہر، ہاورڈ فاسٹ سکرپٹ لکھنے میں زیادہ چستی نہ دکھا پائے۔ کرک ڈگلس نے اس کا حل یہ نکالا کہ ڈیلٹن ٹرمبو سے رابطہ کیا جو تیزی سے کہانیاں مکمل کرنے کے لئے بھی مشہور تھے۔ قصہ مختصر، 1960ء میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو سکرین پر سالہا سال بعد دو کیمونسٹ مصنفوں کا نام بھی نمودار ہوا۔ ہاورڈ فاسٹ کے ساتھ ساتھ ڈیلٹن ٹرمبو کو بھی بطور مصنف پیش کیا گیا۔

صدر کینڈی پکٹ لائن پھلانگ کر ’سپارٹیکس‘ دیکھنے پہنچے

فلم کو زبردست پزیرائی ملی۔ اس فلم کو اب ہالی وڈ کی کلاسیک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے البتہ جب فلم ریلیز ہوئی تو امریکی تحریک ِلبیک اور شیو سینا نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کر دئیے۔سینما گھروں کے باہر پکٹ لائن منظم کرنے والوں میں کیتھولک وار ویٹرنز (Catholic War Veterans) بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کیتھولک وار ویٹرنز نے ہالی وڈ میں ہی بنائی گئی اور ایک کیمونسٹ کی لکھی فلم کانسپریسی آف ہارٹس (Conspiracy of Hearts) کی مخالفت نہ کی تھی کیونکہ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کیتھولک نرسوں نے دوسری عالمی جنگ میں یہودی بچوں کی جانیں بچائیں۔

’سپارٹیکس‘ دیکھنے صدر کینیڈی بھی اپنے بھائی کے ہمراہ سینما گھر پہنچے۔ وہاں کیتھولک وار ویٹرنز کی پکٹ لائن تھی جسے پھلانگ کر کینیڈی برادرز ہال کے اندر پہنچے۔ فلم دیکھنے کے بعد جب وہ تھیٹر سے باہر نکلے تو صحافیوں نے فلم بارے ان کے تاثرات پوچھے۔ جان کینڈی کا جواب تھا: اِٹ واز گُڈ۔

کیمونسٹ مینی فیسٹو سے سپارٹیکس تک

’سپارٹیکس‘ پڑھتے ہوئے اگر محنت کش طبقے یا محکوم حلقوں سے تعلق رکھنے والے ہر مرد عورت کو یہ لگتا ہے کہ وہ عہد حاضر کا گلیڈی ایٹر ہے تو دوسری جانب یہ ناول کامیابی کے ساتھ قارئین کی شاندار مارکسی تربیت بھی کرتا ہے۔ مجھے اس ناول میں دئے گئے دو پیغام ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

اؤل، ناول میں ناول کا مرکزی کردار، سپارٹیکس، اپنے گلیڈی ایٹر ساتھیوں کو یہ باور کرانے اور سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ گلیڈی ایٹر، چاہے ان کی روزی روٹی ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے وابستہ ہے، دوسرے گلیڈی ایٹر کا دشمن نہیں ہوتا۔ یہ وہی بات تھی جو کیمونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے یہ کہ کر سمجھائی کہ ’دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاؤ‘۔ اس نعرے کا مطلب یہ تھا اور ہے کہ حکمران مذہب، قوم، فرقے کے نام پر محنت کشوں کو تقسیم کرتے ہیں اور محنت کشوں کا اس دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ اصل چیز طبقہ ہے نہ کہ تعصب جس میں حکمران ہمیں ڈالتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب مزدور کی نوکری چلی جاتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ دوسرے مزدور نے، کم تنخواہ پر کام کرتے ہوئے، اس کی نوکری چھین لی۔ مغرب کے مزدور کو لگتا ہے کہ تارکین وطن آ کر اس کی نوکری چھین رہے ہیں۔ مزدور فوری طور پر یہ دیکھنے میں ناکام رہتا ہے کہ یہ سب تو سر مایہ دارانہ نظام کا جبر ہے۔ جس طرح عہد روم میں گلیڈی ایٹر کو گلیڈی ایٹر سے لڑایا جاتا تھا۔ دونوں کی آپس میں کوئی دشمنی نہ تھی۔ اس کے برعکس جب سپارٹیکس انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ گلیڈی ایٹر دوسرے گلیڈی ایٹر کا دشمن نہیں ہوتا تو ایسی بغاوت برپا ہوتی ہے کہ سلطنت روم کی بنیاد ہل جاتی ہے۔ عہد حاضر کا سپارٹیکس وہ مارکسی تنظیم ہو گی جو آج کے گلیڈی ایٹر کو یہ باور کرا سکے گی کہ دوسرے گلیڈ ی ایٹر اس کے دشمن نہیں۔

ناول میں اس بارے میں بھی بات کی گئی ہے کہ سپارٹیکس کی قیادت میں بغاوت کامیاب کیوں نہ ہو سکی۔ در اصل یہ ناول کا دوسرا اہم پیغام ہے۔ نوے کی دہائی میں جب میں ’جدوجہد‘ گروپ کے ساتھ منسلک ہوا تو روس کو ٹوٹے پانچ سات سال ہوئے تھے۔ روایتی ترقی پسند حلقوں میں سخت مایوسی کا دور تھا۔ ہمارے سینئر ساتھی مقصود مجاہد ’سپارٹیکس‘ کا وہ مکالمہ دہراتے جس میں ایک گلیڈی ایٹر سپارٹیکس سے پوچھتا ہے کہ ہم کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟ جواب میں شعیب بھٹی مرحوم ہمیں مارکسی تاریخ دانی کے نقطے سمجھاتے۔ ہم تازہ دم ہو کر ’جدوجہد‘ کے کام میں جت جاتے اور حسب ِ توفیق آج تک جتے ہوئے ہیں کہ بقول اصغر گونڈوی:

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے، خود برباد ہوتا ہے

اس ناول کا تیسرا اہم پیغام جس نے ہمیشہ رہنمائی کی وہ یہ تھا کہ گلیڈی ایٹر خود کشی نہیں کرتا۔ گلیڈی ایٹر مزاحمت کرتا ہے۔

(اس مضمون میں معلومات کے لئے ’جیکوبن‘ کے اس مضمون کا سہارا لیا گیا ہے)۔

 

 

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔