التمش تصدق
سرمایہ دارانہ نظام میں کامیابی کا واحد معیار دولت کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں جنم لینے والی خواہشات میں سب سے بڑی خواہش امیر بننے کی خواہش ہے۔اس خواہش کی تکمیل کے لیے طرح طرح کے خواب دیکھے جاتے ہیں، معجزات کی دعائیں کی جاتی ہیں اورامیر لوگوں کی کامیابی کے راز جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔اکثر یہ خواب محنت کشوں اور نوجوانوں کی آنکھوں میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔ نظام زر میں غریب سے امیر بننے کے امکانات بہت محدود ہیں۔دولت کی دیوی دولت مندوں پر ہی مہربان ہوتی ہیں۔سرمایہ دانہ نظام کا اصول ہے کہ سرمایہ مزید سرمایہ پیدا کرتا ہے اور غربت مزید غربت پیدا کرتی ہے۔امیر امارت کے مینار بناتے ہیں اور غریب غربت کی دلدل میں دھنسے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس کی واضح مثال عالمی سطح پر امارت اور غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔محض 7 افراد دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔ دوسری طرف آدھی آبادی خوارک کی کمی سمیت بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔
طبقاتی شعور کی عدم موجودگی کی وجہ سے جب محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان جب طبقاتی نظام کے خاتمے کی بجائے اپنا طبقہ بدلنے کی جدوجہد میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے ہیں،تو ناکامی کی صورت میں شدید مایوسی اور بیگانگی کا شکار ہو کر نشے یا مذہبی انتہا پسندی میں پناہ لیتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے نوجوان خودکشی کر لیتے ہیں۔امیر ہونے کے قانونی راستے محدود اور مشکل ہونے کی وجہ سے اکثر نوجوان جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔اکثر نوجوان ناکامی کی وجوہات اپنی ذات میں تلاش کرتے ہیں۔خاندان اور رشتے دار بھی انہی کو دوش دیتے ہیں۔ہزاروں ناکام نوجوانوں کی بجائے رشتے داروں میں کسی ایک کامیاب رشتے دار کی دولت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔یوں بیروزگاری کی ذلت اور کم اجرت کی اذیت کے ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنے ہی خونی رشتوں کی حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کے لیے آزادنہ طور پر امیر بننے کے لیے مواقع اور بھی زیادہ کم ہوتے ہیں۔محنت کش خواتین کے لیے بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں روزگار کے مواقع بھی بہت محدود ہوتے ہیں۔اس لیے نوجوان لڑکیوں میں لڑکوں کی نسبت امیر بننے کی مختلف نفسیات پروان چڑھتی ہے۔ان کے لیے اپنی غربت اور محرومیوں کے خاتمے کی واحد امید شادی ہے۔وہ ساری عمر شادی کے ذریعے امیر بننے کا خواب دیکھتی ہیں۔ڈراموں اور فلموں کی کہانیاں بھی اسی سوچ کو پروان چڑھاتی ہیں،جہاں غریب لڑکی سے کسی امیر زادے کو عشق ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ساری دولت کو محبوبہ کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔یہاں بھی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ طبقاتی معاشرے میں زیادہ تر رشتے داریاں اور تعلقات طبقاتی حیثیت کو دیکھ کر قائم کیے جاتے ہیں۔بعض صورتوں میں اگر امیر گھرانے کا لڑکا غریب لڑکی سے شادی کر بھی لے تو تا حیات وہ لڑکی اس کے اور اس کے خاندان کے احسان تلے دب کر احساس کمتری میں زندگی بسر کرتی ہے۔
اکثر ان لڑکیوں کے خوابوں کا شہزادہ، شہزادہ نہیں بلکہ ان کے باپ کی طرح محنت کش طبقے سے ہی تعلق رکھنے والا انسان ہوتا ہے۔ وہ خواب جو انہوں نے عمر بھر دیکھے ہوتے ہیں،وہ شادی کے چند ماہ بعد ہی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔وہی گھریلو مشقت بھری زندگی ملتی ہے،جس سے نجات کے تاعمر خواب دیکھے ہوتے ہیں۔خاوند کی خدمت،گھر کی صفائی،برتن اور کپڑے دھونا، بچوں کو پالنا ہی مقدر ہوتا ہے۔وہ لڑکیاں یکسانیت اور اکتاہٹ بھری زندگی کا سارا ذمہ دار اپنے شوہر کو قرار دیتی ہیں۔اگر والدین مرضی سے شادی ہوئی ہو تو شوہر کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔اس اذیت اور مشقت بھری زندگی کو اکثر خواتین قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں اورجو نہیں قبول کرتیں، ان کے پاس بھی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ان کے پاس واحد ممکنہ حل شادی کے رشتے کا خاتمہ ہے۔
طلاق کے بعد والدین اور بھائی بھی ان خواتین کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔طلاق یافتہ عورت کے پاس تو امیر نوجوان سے رشتہ قائم کرنے کا خواب بھی نہیں رہتا ہے۔اب ان خوتین کو نہ صرف معاشرے کی حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بلکہ بہت کم اجرت پر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کی منڈی میں اپنی محنت کو یا اپنے آپ کو بیچنا پڑھتا ہے۔ زندگی کی تلخیاں کم ہونے کی بجائے اور بڑھ جاتی ہیں۔پسماندہ معاشروں میں بہت کم نوجوان طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔اب ان خواتین کے لیے امیر طبقے میں جانے کا واحد امکان کسی بوڑھے امیر کا رشتہ مل جائے،جس کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔
محنت کش مرد و زن کے لیے زندگی کی ذلتوں اور اذیتوں سے نجات اس وقت تک ممکن نہیں،جب تک وہ امیر بننے کی بجائے امارت اور غربت کی طبقاتی تفریق کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہوئے ایسے نظام کی بنیاد نہیں رکھتے ہیں،جہاں کوئی امیر اورکوئی غریب نہ ہو، جہاں رشتے مفادات کی بنیاد پر قائم نہ ہوں۔سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی مرد محنت کش محنت کی اذیت اور خواتین محنت کش گھریلو مشقت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔