فاروق سلہریا
غربت کو گلوریفائی کرنے کے لئے، طبقاتی نظام کا جواز فراہم کرنے کے لئے،مظلوموں مزدوروں اور غریبوں کی بغاوت روکنے کے لئے کئی جھوٹے فسانے اور کلیشے (cliche)گھڑے گئے ہیں۔ ایک ڈھکوسلایہ ہے کہ غریب چین کی نیند سوتا ہے جبکہ امیر نیند کی گولیاں لے کر سوتے ہیں۔
حقیقیت اس کے الٹ ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ محنت کش طبقے کو نوکری کے چکر میں روز صبح نیند خراب کرنی پڑتی ہے۔ نیند پوری کرنے کے لئے انہیں چھٹی کے دن کا انتظار رہتا ہے۔ پھر یہ کہ بے شمار ایسی ملازمتیں ہیں جن میں نائٹ شفٹ لگانا ہوتی ہے۔
میں جب ڈاکئے کا کا م کرتا تھا تو صبح تین بجے اٹھنا پڑتا تھا۔ سردیوں کی صبح تین بجے سٹاک ہولم کی برفیلی گلیوں میں نکلنا،ٹرین کا انتظار کرنا دن بھر کی مزدوری کا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ صبح جلدی جاگنے کی پریشانی میں رات بھر سو نہیں پایا۔ پھر اکثر ہر مہینے ایک بار ایسا ہوتا کہ جلدی اٹھنے کی ٹنشن میں رات بھر نیند نہیں آئی۔ میں نے ٹریڈ یونین کے ایک ساتھی سے اس مسئلے پر بات کی۔ پتہ چلا کہ اوسطاََ ہر ڈاکیہ مہینے میں اس طرح رات کی نیند بربادکرتا ہے۔ کچھ عرصہ اخبار کے ہاکر کے طور پر بھی کام کیا۔ یہ کام رات بارہ بجے شروع ہوتا تھا۔ صبح چھ بجے ختم ہوتا تھا۔ اخبار کی نوکری کے دوران بھی بطور سب ایڈیٹر رات کی شفٹ کرنی پڑتی تھی جو شام چھ بجے شروع ہوتی اور صبح دو تین بجے دفتر سے جان چھوٹتی۔
(مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کہ خط یا اخبارصبح صبح پہنچانا کیوں ضروری ہے؟ ہسپتال کی ایمرجنسی میں نرسوں ڈاکٹروں کی موجودگی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ٹرانسپورٹ ورکرز کا رات رات بھر کام کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا اس کی وجہ مقابلہ تو نہیں؟ کم سے کم اخبار کی تاریخ مجھے معلوم ہے۔ اخبار دوپہر سے شام تک مارکیٹ میں آتے تھے۔پھر مقابلے کے چکر میں،قارئین تک جلدی پہنچنے کے چکر میں صبح صبح اخبار چھاپنے کی دوڑ شروع ہوئی۔خیر)
نرس،ڈاکٹر، ڈرائیور، ٹرانسپورٹ مزدور، سیکیورٹی ملازم،میڈیا کارکن۔۔۔نہ جانے کتنے ہی شعبے ہیں جہاں دنیا بھر میں کروڑوں مزدور رات کو یا جاگ رہے ہوتے ہیں یا رات کی نیند خراب کر کے کام پر جانے کے لئے بستر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں صاحب لوگ مزے سے خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔
پھر کتنے ہی محنت کش لوگ ہیں جو رات بھر بے چین اور بے خوابی کا شکاررہتے ہیں کہ اگلے مہینے مکان کا کرایہ کیسے دیں گے؟ ماں باپ کی دوا دارو کا کیا ہو گا؟ یہ نوکری بھی ہاتھ سے گئی تو کیا بنے گا؟بچوں کی فیس کا کیا بنے گا؟ کتنی ہی فکریں ہیں جو غریب کی نیند پر روز حملے کرتی ہیں۔
انسومنیا یا نیند نہ آنا ایک ایسی بیماری ہے جس کا شکار بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کا ظلم یہ ہے کہ سرکاری طور پر اس بیماری کو بیماری ہی نہیں مانا جاتا۔۔۔تا کہ مزدور بیماری کی چھٹی نہ لے سکیں۔
اس بیماری میں ایسا نہیں ہوتا کہ بے خوابی کا شکار شخص سو ہی نہیں پاتا۔ نیند بھوک کی طرح ہے۔ جس طرح بھوک لگنا ہوتی ہے، اسی طرح نیند آنا ہوتی ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ نیند بے وقت آتی ہے،یا اس بیماری کا شکار انسان بہت کم دیر کے لئے سو پاتا ہے۔ نیند کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ اصل بیماری لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ نیند کی کمی کا شکار رہتا ہے یا نیند کا سائیکل خراب ہو جاتا ہے۔
انسومنیا اصل میں اس خوف کا نام ہے جو رات بھر سونے کے بعد بھی صبح آنکھ کھلتے ہی کسی خوف کی طرح حملہ آور ہوتا ہے کہ اگلی رات کو کیسے سوئیں گے؟ کیا سو بھی پائیں گے یا نہیں؟
انسومنیا اس بیماری کا نام ہے کہ شام ڈھلتے ہی نیند نہ آنے کا خوف انسان کو گھیر لے اور دل ڈوبنے لگے۔ بے چینی چیونٹیوں کی طرح کندھوں میں سر سرانے لگے۔
بعینیہ ہی بھوک محض بھوکے رہنے کا نام نہیں۔ بھوک اس خوف کا نام ہے کہ آج تو پیٹ بھر کر کھا لیا، کل روٹی نصیب ہو گی کہ نہیں۔بھوک کا احساس روزہ رکھ لینے سے نہیں ہو جاتا۔روزہ رکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ افطاری پر پیٹ بھر کھانا میسر ہو گا۔بھوک روٹی بارے بے یقینی کا نام ہے۔
میری نظر میں سوشلزم اس نظام کا نام ہے جو انسان سے ان کی نیند نہیں چھینتا اور انسان کو بھوک نامی خوف سے نجات دلا دیتا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔