حارث قدیر
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ روکنے کے مطالبات کے گرد احتجاجی دھرنا دو عشرے مکمل کرنے کو ہے۔ اس احتجاجی دھرنا میں 60سے زائد خواتین اور 100سے زائد مرد حضرات تقریباً 24گھنٹے موجود رہتے ہیں، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین روزانہ کی بنیاد پر اس احتجاجی دھرنا میں یکجہتی کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔
جہاں اس احتجاجی تحریک نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں اور دنیا بھر میں موجودبلوچ شہریوں کو منظم اور متحرک کیا ہے، وہیں پختونخوا، جموں کشمیر، گلگت بلتستان سمیت سندھ، پنجاب اور سرائیکی وسیب سے مظلوموں اور محکوموں کی نجات کیلئے برسرپیکار سیاسی و سماجی قوتوں کی جانب سے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنے کو چاروں اطراف خاردار تاریں لگا کر پولیس اور انتظامیہ نے تقریباً سیل کر رکھا ہے۔ ریاست کے پراکسی کرداروں کی جانب سے منفی پروپیگنڈہ کیلئے مواد جمع کرنے کی کوششوں سے لیکر ریاستی ایماء پر سوالات کی پوچھاڑ کرنے والے صحافیوں تک بلوچ مظاہرین کو اشتعال دلانے کی کوششیں ہوں، یا پھر پولیس اور نامعلوم افراد کی جانب سے مظاہرین کو ہراساں کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے، دھرنا کے منتظمین نے ہر ایک حربے سے نمٹنے کیلئے خود کو تیار کر رکھا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ سمیت دیگر خواتین رہنماؤں نے جہاں خواتین کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں وہ اس احتجاجی تحریک کی قیادت ترقی پسند خیالات اور قومی و نسلی تعصب سے بلند ہو کر مظلوموں کے اتحاد پر مبنی سوچ و فکر کی بنیاد پر کر رہی ہیں۔ بلوچ خواتین کے ہر اول کردار اور ترقی پسندانہ موقف نے ریاستی پروپیگنڈہ کو بری طرح سے بے نقاب کیا ہے اور پاکستان بھر کی مظلوم و محکوم پرتوں سے بھرپور حمایت اور یکجہتی حاصل کی ہے۔
احتجاجی دھرنا کو منظم کرنے کیلئے جس رضاکارانہ نظم و ضبط، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پولیس کی لگائی گئی خاردار تاروں کے اندر موجود احاطہ کو رسیوں کی مدد سے بلوچ رضاکاروں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ خواتین کیلئے ایک خیمہ لگایا گیا ہے، جہاں کمبل اور خود کو گرم رکھنے کیلئے دریاں اور چٹائیاں بچھائی گئی ہیں۔ خواتین کے خیمہ کو ہی دھرنے کے مرکزی پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور قیادت بھی اسی خیمہ میں موجود رہتی ہے۔سامنے کی جگہ چھوڑ کر خیمہ کے تین اطراف رسیاں لگا کر راستے بند کئے گئے ہیں اور ہر طرف بلوچ رضاکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ خیمہ کی جانب داخل ہونے کیلئے ایک جگہ رسیوں کا ہی گیٹ نما بنایا گیا ہے، جہاں ہر وقت دو بلوچ رضاکار نوجوان موجود رہتے ہیں۔ ہر کچھ گھنٹے بعد وہ نوجوان تبدیل ہوتے ہیں، لیکن خیمہ کی طرف جانے والے ہر شخص کا مکمل تعارف اور تفصیل ان رضاکار نوجوانوں کے پاس نوٹ بک پر درج ہوتی ہے۔ میڈیا کے علاوہ اہم شخصیات، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور خواتین کو اس راستے سے خیمہ کی طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
خیمہ میں خواتین اپنے رشتہ دار لاپتہ افراد کی تصاویر سامنے رکھے بیٹھی رہتی ہیں اور ہر کچھ گھنٹے بعد وہ اپنی جگہ تبدیل کرتی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں آرام کرنے کا موقع بھی میسر آجاتا ہے۔
مرد حضرات کیلئے ان رسیوں سے باہر کھلے میدان میں دریاں بچھائی گئی ہیں۔ دو سے تین قطاروں میں لاپتہ افراد کے مرد لواحقین بھی اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے خیمہ کی جانب رخ کر کے رسیوں کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور مختلف اوقات میں اسی طرح وہ بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پہلی دو سے تین قطاروں کے پیچھے درجنوں بلوچ مرد اور نوجوان مختلف ٹولیوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔یہ اپنی اپنی باری پر سکیورٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں اور فرنٹ لائن کے لوگوں کی جگہ بھی لیتے ہیں۔ اس طرح ایک نظم کے ساتھ یہ احتجاجی دھرنا دن کے تقریباً 16گھنٹے نظم و ضبط اور اتحاد کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔
دھرنے کے شرکاء کو کھانے مہیا کرنے کا عمل بھی اسی نظم کے ساتھ پورا کیا جاتا ہے۔ اسی نظم و ضبط کو دیکھ کر وہاں جانے والا کوئی بھی شہری دھرنے کے شرکاء کو چندہ دیئے یا شدید سردی سے محفوظ رکھنے کیلئے انہیں کمبل، بستر، لکڑی وغیرہ فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے آنے والے افراد نے شرکاء دھرنا کی ہرممکن مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔
جہاں ریاست دھرنے کے شرکاء کو دہشت گرد قرار دینے اور ہراساں کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے، وہیں شرکاء دھرنا کا پرامن اور منظم جواب شہریوں کی بھرپور حمایت حاصل کر رہا ہے۔ صبح 6بجے سے رات 11بجے تک دھرنانہ صرف لائیو رہتا ہے بلکہ منظم انداز میں ایک ہی حالت میں رہتا ہے۔ رات گئے خواتین خیمہ میں اور مرد حضرات کھلے آسمان تلے نیند پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرد حضرات کھلے آسمان تلے شدید سردی کا مقابلہ کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں آگ جلا کر خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ خواتین کمبل اور رضائیاں اس مقصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام آباد کی اس شدید ترین سردی میں اس احتجاجی دھرنے کا حصہ ہے۔
اس رضاکارانہ نظم و ضبط کی وجہ سے بظاہر دھرنے کا دورہ کرنے والے کسی بھی فرد کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ شرکاء دھرنا کس طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ درحقیقت وہ مشکلات ہی ہیں جنہوں نے بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو اس قدر منظم ہونے پر مجبور کیا ہے۔ ریاست کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے اقدامات کے علاوہ واش روم اور پانی جیسی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ شرپسند عناصر کے داخلے کا خدشہ ہے، سب سے بڑھ کر خواتین کی سکیورٹی کے خدشات لاحق ہیں۔ دھرنا کے شرکاء کو دھرنا سے اغواء کئے جانے جیسے خدشات بھی موجود ہیں۔ ان تمام مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ نوجوان رضاکارانہ طور پر اس نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور پر امن احتجاجی تحریک کو ایک مشن، ایک مقصد کے تحت آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا قائم ہونے سے اب تک متعدد نئے ایسے خاندان بھی دھرنا میں شریک ہوئے ہیں، جن کے اپنوں کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے سے موجود خاندانوں کے افراد بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ انتظامات اور حکمت عملی یہ اشارہ دے رہی ہے کہ بلوچ متاثرین نے لمبے عرصہ تک احتجاجی دھرنے کو جاری رکھنے کی تیاری کر رکھی ہے اور انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ ریاست کا رویہ ان کی طرف اتنی جلدی تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے لمبی لڑائی کی تیاری کر رکھی ہے۔
دوسری طرف ریاست نے بھی تمام تر حربے ناکام ہونے کے بعد اب بلوچستان سے ہی حکمران اشرافیہ کا حصہ نوابوں،سرداروں اور ان کے وظیفہ خواروں کے ذریعے مقابلے میں ایک اور دھرنا قائم کروا دیا ہے۔ ایک طرف سینکڑوں مردو خواتین کھلے آسمان تلے کمبل اور بستر لیکر سردی کا مقابلہ کرنے کیلئے دن رات ایک نظم و ضبط کے تحت دھرنا میں موجود ہیں، تو دوسری طرف بلوچ نواب جمال خان رئیسانی کی قیادت میں ریاستی دھرنا کے چند شرکاء نصف درجن بھر گیس ہیٹروں کے ہمراہ ایک خیمہ میں دھرنا لگائے بیٹھے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنا میں موجود ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی ہزاروں لاپتہ بلوچ نوجوانوں کو بازیاب کرنے اور ماورائے عدالت قتل عام کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ نواب جمال خان رئیسانی بلوچ مسلح تنظیموں کے خلاف آواز اٹھانے کا ڈھونگ رچاتے نظر آرہے ہیں۔دوسرے لفظوں میں جمال خان رئیسانی اپنے اور دیگر بلوچ سرداروں اور نوابوں کے ڈیتھ سکواڈز کے حق میں احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔
تاہم بلوچ عوام نے ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی ہر آواز پر لبیک کہا ہے۔ پاکستان اور اس کے زیر انتظام علاقوں سے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ہے۔ مظلوم اور محکوم قومیتوں کے درمیان رابطوں میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنا اور لانگ مارچ نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان رابطوں کو اتحاد اور مشترکہ لڑائی میں تبدیل کئے جانے کی کوئی بھی سنجیدہ کاوش اس خطے سے قومی جبر، سرمایہ دارانہ استحصال اور محرومیوں کے خاتمے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔