پاکستان

امریکہ، اسرائیل اور غریدہ فاروقی کا سانجھا دکھ

فاروق سلہریا

گیارہ ستمبر کو القاعدہ نے چار ہزار معصوم امریکی شہریوں کی جان لے لی؎۔ پرل ہاربر کے بعد، بھولے بھالے بے گناہ ملک امریکہ پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔

اس حملے کا بدلہ لینے کے لئے واشنگٹن نے پہلے افغانستان پر حملہ کیا۔ بیس سال تک، طالبان اور امریکہ نے مل کر افغان شہریوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی۔ اگر امریکی جنگی طیارے افغان دیہاتوں پر مدر آف آل بامبز برسا کر اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کی صلاحیتیں چیک کرتے رہے تو طالبان کے بھیجے ہوئے مجاہدین ہسپتالوں اور جنازوں پر خود کش حملے کرتے رہے۔ ستر ہزار عام شہری ہلاک ہوئے۔ لگ بھگ پچاس ہزار افغان فوجی یا سپاہی ہلاک ہوئے۔ بیس سال بعد بائیڈن نے یہ کہہ کر کابل دوبارہ طالبان کے حوالے کر دیا کہ افغان تو دو سو سال سے لڑ رہے ہیں، انہیں لڑنے مرنے دو۔

افغانستان پر قبضے کے دو سال بعد امریکہ نے یہ کہہ کر عراق پر چڑھائی کر دی کہ القاعدہ کا ٹھکانہ بھلے افغانستان میں تھا، القاعدہ کا سر پرست صدام حسین ہے۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔ پندرہ سال بعد اوبامہ نے امریکی فوجیں نکا ل لیں لیکن جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی فرقہ واریت اور جنگ کے دوران جنم لینے والی داعش کے ہاتھوں روز بے گناہ عراقی شہری جان سے جاتے ہیں۔ عراق ایک مسلسل رستا ہوا زخم ہے۔

عراق اور افغانستان کو جہنم کا نمونہ بنا دینے والا امریکہ آج کل نیتن یاہو کو تھپکیاں دے رہا ہے جس نے غزہ کو اوپن ائر جیل سے ایک زمینی جہنم میں بدل دیا ہے۔ تین ماہ کے اندر اندر اسرائیل نے بیس ارب ڈالر کے بم غزہ پر برسا دئے ہیں۔ جی ہاں، بیس ارب ڈالر۔ اگر یہ بیس ارب ڈالر جنگ کی بجائے امن پر خرچ کئے جاتے تو اسرائیل اور فلسطین بیس سال تک امن اور خوشحالی کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن جب امریکہ کو افغانستان یا عراق کے اندر بیس سال سے جاری بربریت کی یاد دلائی جائے تو انکل سام کی آنکھیں گیارہ ستمبر کے شہیدوں کی یاد سے بھیگ جاتی ہیں۔

اسی طرح اسرائیل سے کہا جائے کہ مائی لارڈ! بس کیجئے۔ سیز فائر کا اعلان کر دیں۔ پچیس ہزار بچے بوڑھے اور عورتیں غزہ کے ملبے تلے دب کر سسک سسک کرمر گئے ہیں، باقی کے تیس لاکھ بے گھر تو تھے ہی، خیموں سے بھی محروم ہو گئے۔ سیز فائر کا سنتے ہی نیتن یاہو کی آنکھوں میں آنسوں کا سمندر امڈ آتا ہے اور وہ سیز فائر کی بھیک مانگنے والے بے رحم امن پسندوں کو حماس کے ان مظالم کی یاد دلاتے ہیں جو پچھلے سال سات اکتوبر کو ڈھائے گئے تھے۔ ہٹلر کے بعد، دوسری بار کسی نے اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کو ہلاک کیا۔ نیتن یاہو جیسے صیہونی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہودی انسان نہیں؟

بے گناہ، بے چارے انکل سام اورمعصوم صیہونی نازیوں کی طرح بھولی بھالی غریدہ فاروقی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم پنجابی مزدورں کی یاد میں اسلام آباد پریس کلب میں کیمپ لگانے کی بجائے را سے ساز باز کرنے والے نام نہاد لاپتہ افراد کا ماتم کیوں کر رہی ہے۔

وہ تو شکر ہے بلوچ دھرنے کی کوریج کے لئے بھیجنے والوں نے غریدہ فاروقی کو کبھی ڈھاکہ نہیں بھیجا ورنہ وہ حسینہ واجد سے ضرور پوچھتیں کہ آپ نے ریپ ہونے والی بے شرم بنگالی عورتوں کے فحش مجسمے تو چوکوں میں لگا رکھے ہیں مگر کیا آپ مکتی باہنی کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے پاکستانی سپاہیوں کو شہید کیا؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔