فاروق سلہریا
پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مریم نواز شریف نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے وہی گھسے پٹے طریقے آزمانے شروع کئے ہیں جو اکثر حکمران،بالخصوص شریف فیملی والے، اقتدار سنبھالتے ہی کچھ دن آزماتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کچھ سکولوں کے دورے کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ سوال جواب کرتی ہیں۔
یہ دورے کئی لحاظ سے غلط ہیں:
۱۔ سب سے پہلے تو یہ اس لئے غلط ہے کہ اس میں دورہ کرنے والے کے پاس تمام طاقت ہے۔جن کی انسپکشن کی جا رہی ہے، ان کے پاس نہ تو یہ طاقت ہے کہ وہ مریم نواز سے کہہ سکیں کہ میڈم ہمیں آپ کے دورے میں کوئی دلچسپی نہیں، نہ ہی وہ مریم نوازکی کاکردگی پر وزیر اعلیٰ صاحبہ سے ان کی کارکردگی پر سوال کر سکتے ہیں۔ پھر اکثر ماضی میں یہ ہوا کہ نواز شریف یا شہباز شریف نے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کھڑے کھڑے کسی سرکاری ملازم کو کسی فرضی یا اصلی غلطی پر ملازمت سے معطل کر دیا۔ مریم نواز کسی بھی استاد یا پرنسپل کو معطل کر سکتی ہیں،ان کا تبادلہ کرا سکتی ہیں مگر سکول کے عملے کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ مریم نواز سے سوال کر سکیں کہ محترمہ تعلیم کا بجٹ اتنا کم کیوں ہے؟ آپ کے ابا جی اور چچا جی نے سکولوں کی نج کاری کیوں شروع کر رکھی ہے؟ نہ ہی سرکاری سکولوں کا عملہ مریم نواز کو یہ بتا سکتا ہے کہ سکولوں کی انسپکشن آپ کا کام نہیں۔
۲۔ سکولوں کے دورے کرنا وزیر تعلیم یا محکمہ تعلیم کے متعلقہ عملے کا کام ہونا چاہئے۔ پھر یہ کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد، ایک آدھ سکول کا دورہ ہی کیوں؟ پنجاب کے سارے سکولوں کے دورے کیوں نہ کئے جائیں۔ان دوروں کا مقصد فوٹیج بنانا تھا۔ ویڈیوز بن گئی ہیں۔ اب شائد ہی اگلے پانچ سال مریم نواز کو کسی سکول کا دورہ کرنے کی سوجھے۔
۳۔اسی طرح کے سارے دورے پہلے سے طے شدہ ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ طلبہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ سکول کی عمارت میں رنگ روغن کر دیا جاتا ہے۔ سوال طے ہوتے ہیں۔ جواب رٹا دئیے جاتے ہیں۔ مقصد میڈیا کے لئے فوٹیج ہوتا ہے نہ کہ تعلیم کی بہتری۔
۴۔اگر مریم نواز کو واقعی تعلیم سے دلچسپی ہے تو زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ ماہرین تعلیم،سکالرز اور اکیڈیمکس کے ساتھ مکالمہ کریں۔وہ ایسا نہیں کریں گی۔ایک تو اس لئے کہ اس موضوع سے اپنی لا علمی کی وجہ سے وہ (بلکہ پورا شریف خاندان) مکالمے سے کیا، پریس کانفریس سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ دوم، انہیں تعلیم سے کوئی دلچسپی ہے ہی نہیں۔
۵۔مریم نواز صرف سرکاری سکولوں کے دورے کیوں کر رہی ہیں؟ بہتر نہ ہو گا کہ پرائیویٹ سکولوں کے دورے بھی کئے جائیں اور دیکھا جائے کہ وہاں فیس کتنی ہے اور سہولتیں کون سی دی جا رہی ہیں؟ کیا اکثریت کے بچے یہاں پڑھ سکتے ہیں؟پھر یہ بحث بھی تو ہونی چاہئے کہ نجی سکولوں کو قومی ملکیت میں لے کر یکساں نظام تعلیم کیوں لاگو نہیں کیا جاتا۔اسی طرح مدرسے میں پڑھنے والے غریب بچے بھی اس حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ان کے ساتھ مدرسوں میں جو سلوک کیا جاتا ہے اس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ مدرسے فوری طور پر قومی ملکیت میں لئے جائیں۔۔۔لیکن لیکن لیکن یہ سب مریم نواز کی امیج بلڈنگ سے میل نہیں کھاتا سو طبقاتی نظام پر مبنی یہ مکروہ طبقاتی نظام تعلیم محض امیج بلڈنگ کے کام آتا ہے۔حالت یہ ہے کہ 2014 سے پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ بھرتی نہیں ہوئے۔ لگ بھگ ایک لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے۔
۶۔ان دوروں کے دوران، ان کی میڈیا کوریج کے دوران،بچوں کی شناخت نہیں چھپائی جاتی۔ یہ ان بچوں کی integrity پر حملہ ہے۔ مہذب معاشروں میں آپ بچوں کی تصویر ان کے خاندان کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا پر نہیں ڈال سکتے۔ یہاں انہیں مین اسٹریم میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بچے غریب اور سفید پوش گھروں کے بچے ہیں سو مین اسٹریم میڈیا کی نظر میں بھی ان کی شناخت کوئی معنی نہیں رکھتی۔کیا مریم نواز مجھے اجازت دیں گی کہ میڈیا کیمروں کے سامنے ان کے بچوں کا امتحان لیا جائے؟
۷۔ دیگر حکمران خاندانوں کی طرح،مریم نواز یا شریف خاندان کی اولاد ان سکولوں میں نہیں جاتی۔ ان سکولوں کے دورے منافقت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ نہ صرف اپنے بچوں کو یہاں نہیں بھیجتے بلکہ ان سکولوں کا تعلیمی بجٹ مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ کم از کم چالیس ارب روپے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن طرز کے اداروں کو دیا جا رہا ہے تا کہ سر کاری سکولوں کی نج کاری کے نام پر لوٹ مار مچائی جا سکے۔
سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں کو ایسی شرمناک حرکتوں پر شدید احتجاج کرنا چاہئے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔