(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023ء کو کی جانے والی مسلح کاروائی اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس نے صیہونی ریاست اور اس کی طاقتور اور جدید مسلح افواج کے ناقابل تسخیرہونے کے تاثر کو اڑا کے رکھ دیا۔ لیکن اسرائیلی ردعمل غزہ کی شہری آبادی کے خلاف ایک وحشیانہ اجتماعی سزا پر مبنی ہے۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک نیا سلسلہ ہے۔ بے پناہ بمباری، سفید فاسفورس جیسے انتہائی مہلک مواد کا استعمال اور خوراک، پانی، بجلی اور ادویات کی مکمل ناکہ بندی اب بھی جاری ہے۔ اسرائیلی حملوں کو صرف 100 دن گزرے ہیں لیکن 30,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں جن میں 12,000 بچے بھی شامل ہیں۔
سامراجی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔ امریکہ اس حمایت میں پیش پیش ہے اور ساتھ ہی اس فسطائی نیتن یاہو پر کنٹرول ر کھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس نے غزہ پر بمباری جاری رکھتے ہوئے جنوبی لبنان پر بھی حملہ کیا ہے اور بحران کو باقی ماندہ مشرق وسطیٰ تک پھیلاتا جا رہا ہے۔حالیہ تنازعے سے قبل ہی اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کے سوال پر ایک گہری تقسیم پائی جا رہی تھی اور مسلح تصادم ختم ہونے پر نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کا امکان کم ہی ہے۔
فلسطینی کاز آج عالمی پولرائزیشن کا مرکز ہے۔ یکجہتی کی ایک طاقتور بین الاقوامی تحریک ابھری ہے جس کے سب سے بڑے مظاہرے سامراج کے گڑھ امریکہ اور یورپ میں ہوئے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے منسلک ہے کہ ان ممالک میں محنت کشوں کی جاندار جدوجہد جاری ہے اور نوجوانوں میں ریڈکلائزیشن بڑھ رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں یہ تحریک عرب ممالک کی نسبت زیادہ متحرک ہے۔ عرب ممالک میں بورژوا آمریتوں نے اسے روک رکھا ہے۔ لیکن اس سارے عمل کے نتیجے میں اسرائیلی ریاست کے نسل کش اور دہشت گردانہ کردار کا بے نقاب ہونا صیہونیت کی سیاسی شکست ہے۔ چند ممالک نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔
بلاشبہ ہمیں تمام عام شہریوں کی جان جانے پر افسوس ہے۔ لیکن ہم ان لوگوں کو مسترد کرتے ہیں جو اسرائیلی ہلاکتوں اور نازیوں کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے قتل عام کے انکاری ہیں۔ حماس سے ہمارے بنیادی اختلافات ہیں کیونکہ اس کا مقصدایک سرمایہ دارانہ اور مذہبی ریاست کا قیام ہے۔ لیکن اس تنازعے کا کلیدی اور بنیادی مجرم صیہونیت ہے جس نے 75 سال قبل فلسطین پر استعماری اور سامراج نواز ریاست مسلط کی، وہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا، ان کی زمینیں چرائیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا، اسرائیلی عربوں سے امتیازی سلوک روا رکھا اور آج تک فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ غزہ کے لیے اس کا منصوبہ کبھی فوجی کنٹرول کو برقرار رکھنے او ر کبھی صیہونی آباد کاروں کے لیے فلسطینیوں کو نکالنے پر مشتمل رہا ہے۔
حماس ایک اسلامی بنیاد پرست تنظیم ہے جو 2006ء میں غزہ کی پٹی کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ ابتدا میں اسے اسرائیل فنڈ فراہم کرتا تھا جس کا مقصد فلسطینیوں کی روایتی قیادت یاسر عرفات کی پی ایل او کو کمزور کرنا تھا۔ پی ایل او نے 1993ء میں اوسلو معاہدے پر دستخط کیے اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اس غداری کا فائدہ حماس نے اٹھایا اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوا۔
اسرائیل کے قیام کے 75 سالوں میں دو ریاستی حل کی پالیسی کی مکمل ناکامی واضح ہے۔ایک سیریل کلر (عاد ی قاتل) کے ساتھ کون رہ سکتا ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے ایک یکجا یا دو قومی ریاست بھی کوئی حل نہیں ہے۔ انصاف پر مبنی امن کا واحد راستہ اسرائیل کی ریاست کو ختم کرکے ایک واحد، سیکولر، نسل پرستی سے پاک، جمہوری اور سوشلسٹ فلسطین کی تعمیر ہی ہے۔ اس منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق اور مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ انقلاب کے فریم ورک کے اندر صیہونیت سے تعلق توڑنے والے اسرائیلی محنت کش طبقے کے لیے ایک جامع حل بھی شامل ہونا چاہیے۔
اس حکمت عملی کی بنیاد پر ہم خطے میں انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کیونکہ عرب محنت کشوں کو اپنی سرمایہ دارانہ حکومتوں کا مقابلہ کرناہو گا۔ ہم فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی فلسطینی نسل کشی کے خلاف تحریک جاری کھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ایسی تمام کوششوں کے خلاف ہیں جو ظالم کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہیں اور صیہونیت کے خلاف ہر تنقید کو یہود مخالف قرار دے کر خاموش کرا دیتی ہیں۔ ہم تمام حکومتوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔