خبریں/تبصرے

امریکہ آئی ایم ایف کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ بلاکنگ اقلیت کے طور پر

فاروق سلہریا

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ میں بریٹن ووڈ کے مقام پر ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی گئی تو مقصد جنگ سے تباہ حال یورپی ممالک کی بحالی تھی۔ ان اداروں کو، جو اب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیں، بنانے کے لئے لگ بھگ چالیس سے زائد ریاستیں جمع ہوئیں کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو ابھی آزادی ہی نہ ملی تھی۔ اب آئی ایم ایف کے 190 رکن ممالک ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ساری دنیا اس کی رکن ہے تو امریکہ اسے کنٹرول کیسے کرتا ہے؟ جواب ہے: دو طریقوں سے۔

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ امریکہ اپنے حواریوں کی مدد سے ووٹ کی صورت میں اکثریت حاصل کر لیتا ہے۔ دوم، ووٹنگ کا نظام ایسا ہے کہ امریکہ کے پاس کل ووٹ کا محض 16.5 حصہ ہونے کے باوجود ایک طرح کی ویٹو پاور ہے۔

آئی ایم ایف کی رکنیت کے لئے ہر رکن ملک کو ایک طرح کی داخلہ فیس جمع کرانا ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کا کوٹہ (کہ وہ کتنا قرضہ وغیرہ لے سکتا ہے) اور اس کا ووٹ شئیر طے ہوتا ہے۔ کس ملک کی کتنی آبادی ہے،اس کی معشیت کا حجم کتنا ہے۔۔۔اس طرح کے عشاریوں کی مدد سے کوٹہ اور ووٹنگ شئیر طے ہوتا ہے۔

ہر ملک کے پاس 250 ووٹ تو ہوتے ہیں مگر اس کا آئی ایم ایف کی کل مالیت میں کتنا حصہ ہے (یعنی داخلہ فیس کتنی دی تھی)،اس کا ووٹنگ شئیر طے کرتے ہیں۔ گویا آسانی کے لئے یہ سمجھ لیں کہ ایک ڈالر = ایک ووٹ۔

اب ووٹنگ کے نظام کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل بات سمجھنے کی ضرورت ہے:

8 ممالک انفرادی ریاست کے طور پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی آٹھ بڑی طاقتیں ہیں۔ مندرجہ ذیل جدول میں ان ممالک کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے (گو روس نے اپنے ساتھ شام کو بھی شامل کر رکھا ہے)۔ باقی ساری دنیا کے ممالک 16 گروپوں میں تقسیم ہیں۔ یہ ممالک انفرادی کی بجائے،گروپ کی شکل میں ووٹ کرتے ہیں۔ نیچے کے جدول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس گروپ میں شامل ہے یا انڈیا کس گروپ میں شامل ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سکینڈے نیویا اور بالٹک ریاستوں پر مبنی گروپ کا ووٹ انڈیا،بنگلہ دیش،بھوٹان اور سر لنکا پر مبنی جنوب ایشائی گروپ سے زیادہ ہے حالانکہ جنوب ایشیائی گروپ کی آبادی پونے دو ارب جبکہ سکینڈے نیویا پلس بالٹک گروپ کی آبادی بمشکل دو کروڑ بنے گی۔ گویا یہ نظام بالکل غیر جمہوری ہے۔

اس نظام میں امریکہ اور اس کے حامی یوپی ممالک،یا ان ممالک پر مبنی گروپ ووٹنگ شئیر کی اکثریت کے حامل ہیں مگر امریکہ کی اصل ویٹو پاور ہے اس کے پاس بلاکنگ اقلیت کا کردار۔ آئی ایم ایف میں کوئی بھی بات ووٹنگ کے ذریعے منوانے کے لئے (اور ہر اہم بات کا فیصلہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ہوتا ہے)ضروری ہے کہ متعلقہ قراردار یا فیصلے کو کم از کم 85 فیصد ووٹ ملے۔ اگر پوری دنیا بھی ایک فیصلہ لینا چاہئے،امریکہ اپنے16.50 فیصد ووٹ شئیر کی مدد سے یہ فیصلہ رد کر سکتا ہے۔ یہ بلاکنگ اقلیت والا کارڈ ہے وہ جادو جس کی مدد سے امریکہ آئی ایم ایف کو کنٹرول کر تا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔