ساجد نعیم
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے اندر چلنے والی عوامی حقوق تحریک کو ریاستی سطح پر منظم ہوئے ایک برس ہوا چاہتا ہے۔ تحریک کے آغاز پر حکمران اشرافیہ نے پہلے تو اس کا بھرپور تمسخر اڑایا، لیکن یہ بھانپتے ہی کہ تحریک کہیں ان کے نام نہاد اقتدار کے لیے خطرہ نہ بن جائے پہلے انھوں نے اس کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔ 29 ستمبر 2023 کو احتجاجی دھرنے اکھاڑے اور سرگرم کارکنان کی گرفتاریاں کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ غداری و وفاداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹے گئے۔ حکمران اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ عوام ریاستی طاقت کے خوف کو پہلے ہی فتح کر چکے ہیں۔ لوگوں نے گرفتاریوں سے فرار کی بجائے رضا کارانہ گرفتاریاں دینا شروع کیں تو سرکار نے دونوں ہاتھ کھڑے کر دیے۔ بعض جگہوں پر عوام نے تھانوں کا گھیراؤ کر کے مقید لوگوں کو رہا کروا لیا۔ جب یہ تمام حربے نا کام ہوئے تو سرکار نے 180 درجے کا یو ٹرن لیا اور تحریک کے مطالبات کو خود حکومت کے مطالبات قرار دیا۔ مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی شاید اپنے کم سیاسی تجربے کی وجہ سے اس بہکاوے کو حقیقت سمجھ بیٹھی اور شاید اسی وجہ سے وہ کافی مہلک غلطیوں کا بھی شکار ہوئی۔
بہر حال اس کے بعد مذاکرات پر مذاکرات جاری رہے۔ جب ایک بار حکومت نے مطالبات کو درست تسلیم کر لیا تو مذاکرات کی گنجائش ہی باقی نہ بچی تھی۔ لیکن چونکہ حکومت نے کسی مطالبے کو عملاً پورا ہی نہیں کرنا تھا تو مذاکرات کی طوالت ایک طرف حکومت کے لیے وقت کے حصول کا کار گر اوزار تھا تو دوسری طرف تحریک کو ٹھنڈا کرنے کا حربہ۔ بالآخر اس سال 4 اور 5 فروری کو ہونے والے آخری مذاکراتی دور کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو کاغذ کا ایک ٹکڑا تھمایا گیا اور انھیں یہ باور کروایا گیا کہ 10 میں سے 9 مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ جوئنٹ ایکشن کمیٹی تو شاید مطمئن ہی تھی،لیکن 5 فروری کو عوام نے قیادت کی طرف سے پھیلائے گئے تمام تر ابہام کے باوجود بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ کر اس کھلواڑ کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس کے بعد عوامی دباؤ کے باعث کمیٹی کی قیادت کو بھی اس پورے معاہدے سے انحراف کرنا پڑا۔ ساتھ ہی 11 مئی کو ایکشن کمیٹی نے مظفر آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے دی۔
ماضی سے کچھ بھی سیکھے بغیر حکومت ایک بار پھر وہی پرانے حربے آزمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہی ستمبر،اکتوبر 2023 والی ایف سی،پی سی کی آمد کی بازگشت ایک بار پھر ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عوام کو دھمکی دے رہے ہیں کہ 11 مئی کو حرکت میں آنے والوں کاچوکوں اور چوراہوں میں پولیس سواگت کرے گی۔ وزیر اعظم ذرا بصیرت سے کام لیتے ہوئے اتنا تو تجزیہ کریں کہ جو حربے ابھی چند ماہ پہلے ہی ناکام ہوئے،وہ اب کی بار کیوں کر کامیاب ہوں گے۔ جبر کا آلہ معمول کے ادوار میں کار گر ہو سکتا ہے، لیکن جب عوام کی وسیع تر پرتیں کسی بڑے مقصد کے لیے متحرک ہو جائیں توجبر ایک عمل انگیز کا کام کر کے تحریک کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے
یہ جما ہوا خون پھر کیا شکلیں اختیار کرتا ہے کوئی نہیں جانتا، لیکن جناب وزیراعظم روٹیاں مانگنے والوں کو گولیوں کی سوغات دے کر آپ کون سا اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے ہیں؟ عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والا اگر کسی ریاستی گولی کا شکار ہو گیا تو یہ تو ظے شدہ ہے کہ وہ امر ہو جائے گا،لیکن تاریخ آپ کو کس نام سے پکارے گی؟
حضور والا اگر صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے کچھ سیکھنے پر تیار ہیں تو سب سے پہلے یہ جانکاری ضروری ہے کہ وقت اور حالات بہت بدل چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال نے عوام کے لیے وہ حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ انہوں نے اب مرنا ہی ہے۔ یا تو وہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مریں یا پھر اپنے حق کی خاطر لڑتے ہوئے مریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے حالات میں عوام ہمیشہ دوسرے آپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سربکف ہو چکے ہیں۔ مسئلہ آپ کا اور آپ کی حکومت کا ہے کہ آپ نے انھیں روٹیاں دینی ہیں یا گولیاں۔ آپ نے عوام کو دہائیوں سے غصب بنیادی حقوق دینے ہیں یا ریاستی تشدد۔ دونوں آپشن آپ کے لیے کھلے ہیں،لیکن یہ طے شدہ ہے کہ آخری تجزیے میں ماضی کے اوزار عصر حاضر سے ہم آہنگ نہ ہیں۔لہٰذا ناکامی ان کا مقدر ہے۔