پاکستان

کشمیر میں تحریک کی فتح: بڑی پیش رفت لیکن حتمی لڑائی ابھی باقی ہے!

حارث قدیر
 
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک سال تک جاری رہنے والی عوامی حقوق تحریک نے تمام تر سامراجی جبر اور بربریت کا سامنا کرتے ہوئے بالآخر ریاست کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی گئی تاہم عوامی طاقت کے سامنے مسلسل 5 روز تک ریاست مکمل طور پر مفلوج رہی۔ وزیراعظم اور وزرا سمیت ممبران اسمبلی جموں کشمیر سے فرار ہو چکے تھے۔ افسران نے اپنی سرکاری گاڑیاں چھوڑ کر نجی گاڑیوں میں سفر شروع کر دیا تھا۔ پولیس کو مسلسل ہونے والی شکست اور بڑے عوامی ریلے کی دارالحکومت مظفرآباد کی جانب پیش قدمی کے چلن دیکھ کر لانگ مارچ کو پہلے پہل غیر ملکی ایجنڈا اور سازش قرار دینے والے حکمران اشرافیہ کے نمائندوں نے حکومت سے لاتعلقی اختیار کرنے اور عوامی تحریک کے حق میں بیانات دینے شروع کر دیئے تھے۔ پورا معاشرہ یکلخت ایک بلند تر سیاسی شعور، نئی اخلاقیات، بدلی ہوئی نفسیاتی کیفیت اور اجتماعی و اشتراکی ثقافت کے رنگ میں رنگتا جا رہا تھا۔
 
گزشتہ سال 9 مئی کو آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی دھرنے سے شروع ہونے والا احتجاج ماضی قریب میں چلنے والی ’عوامی حقوق تحریک‘ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو لے کر تحریک کے نئے مرحلے میں ڈھل گیا تھا۔ ایک سال تک مسلسل درجنوں مقامات پر دیئے جانے والے احتجاجی دھرنوں، شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتالوں، خواتین اور طلبہ سمیت بڑے عوامی اجتماعات کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کے ذریعے اس تحریک نے جموں کشمیر کے طول و عرض کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ لیکن اس دوران ریاستی جبر، گرفتاریوں، کنکشن منقطع کرنے کی مہم، غیر ملکی ایجنڈے اور سازش جیسے سرکاری پروپیگنڈہ اور فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی)، پنجاب کانسٹیبلری(پی سی) کے دستے طلب کر کے خوف و ہراس پیدا کرنے جیسا ہر ریاستی ہتھکنڈا تحریک کو مزید وسعت ہی دیتا چلا گیا۔
 
مذاکراتی عمل کے ذریعے جہاں حکمرانوں نے تاخیری حربے استعمال کر کے تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی وہیں تاجروں کی اکثریت اور چند ایک قوم پرست و ترقی پسند کارکنوں پر مشتمل قیادت کی کمزور حکمت عملی کے باوجود تحریک بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے کمزور ہونے کی بجائے مضبوط تر ہی ہوتی گئی۔ مصالحت کی کوششیں اور مطالبات کی ان کی روح کے مطابق عدم منظوری بھی عوامی تحرک کو پیچھے نہ ہٹا سکی۔ تحریک کو کمزور کرنے کی ہر کوشش کو عوامی طاقت اور حوصلے نے رد کر دیا۔
فیصلہ کن مرحلہ کے طور پر 11 مئی کو دارالحکومت مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ ابتدا میں شاید قیادت نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا عوامی ابھار اس لانگ مارچ میں نظر آئے گا۔ ریاست نے بھی اس اعلان کو بہت ہی ہلکے میں لیا اور طاقت کے ذریعے مارچ کو ناکام بنانے کی حکمت عملی بنانے کے علاوہ عوام الناس کو ڈرانے، دھمکانے اور قیادت کو بھارتی ایجنڈے پر کاربند قرار دے کر بدنام اور تنہاکرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم عوام نے ہر سازش اور ہتھکنڈے کو ناکام بناتے ہوئے لانگ مارچ میں شرکت کیلئے زور و شور سے تیاریاں جاری رکھیں۔
 
مارچ کو ناکام بنانے کیلئے 9 مئی کی صبح 70 سے زائد رہنماؤں کی گرفتاری نے وہ ماحول پیدا کر دیا کہ پورا ایک سال انتہائی پر امن رہنے کے بعد تحریک نے پرتشدد راستہ اختیار کیا۔ اس تشدد کی شروعات بھی تحریک کی بجائے ریاست کی جانب سے ہی کی گئی۔ گرفتار قیادت کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے پر امن مظاہرین پرلاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ عوام نے البتہ اس بار ریاستی جبر کے سامنے اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین پر تشدد کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی جلانے سمیت سیدھی فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاران کے سامنے سینکڑوں مظاہرین ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور بالآخر ان اہلکاروں سے بندوقیں چھین لی گئیں۔
 
ڈڈیال میں ریاستی جبر کے خلاف شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ لانگ مارچ منسوخ کیا گیا۔ تاہم عوامی طاقت نے لانگ مارچ کی کال کی منسوخی کا فیصلہ واپس کروا لیا۔ ہڑتال پر عملدرآمد روکنے کیلئے دفعہ 144 کا نفاذ عمل میں آیا تو مظفرآباد میں نوجوانوں نے پولیس تشدد کے خلاف گوریلا انداز میں منظم ہو کر پتھروں سے مقابلہ کیا اور دو روز تک لڑائی کے دوران درجنوں زخمی اور گرفتار ہوئے۔ بالآخر دو روزہ تصادم کے بعد پولیس کو شہر خالی کرنا پڑا۔
 
ریاستی جبر نے جموں کشمیر کے ہر شہر، ہر دیہات اور گلی محلے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس لانگ مارچ کا حصہ بننے کیلئے نہ صرف تیار کیا بلکہ طویل سفر کے انتظامات بھی شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہی کیے۔ 10 مئی سے 14 مئی تک جموں کشمیر کے 10 اضلاع اور 32 تحصیل صدر مقامات کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے بازاروں میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال رہی۔ 11 مئی سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں شریک گاڑیوں کے علاوہ کوئی پبلک ٹرانسپورٹ یا پرائیویٹ گاڑی سڑکوں پر نظر نہیں آرہی تھی۔ جس ڈویژن سے مارچ شروع ہونا تھا اس کی 90 فیصد سے زائد قیادت کو گرفتار کیے جانے کے باوجود لوگوں نے از خود منظم ہونے اور لانگ مارچ کا حصہ بنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی گئی وہاں لوگوں نے سخت جدوجہد و مزاحمت کے ذریعے پیش قدمی جاری رکھی اور جہاں راستے بند تھے وہاں نوجوانوں نے خود ہاتھوں سے پتھر اور درخت ہٹانے کا فریضہ سرانجام دیا۔
 
پہاڑیوں پر مورچہ زن پولیس اہلکاروں نے جب شرکا مارچ کا استقبال آنسو گیس کی شیلنگ، پتھراؤ اور فائرنگ سے کیا تو مظاہرین کئی گھنٹے تک پولیس کے سامنے سینہ سپر رہے۔ درجنوں زخمی ہوئے لیکن منتشر ہونے کی بجائے ریاستی جبر کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے یہ قافلے آگے بڑھتے چلے گئے۔ کوٹلی رہیاں کے مقام پر نہتے مظاہرین کے ہاتھوں پولیس کی شکست کے بعد ریاست نے ہتھیار پھینک دیئے تھے۔
 
پونچھ میں داخل ہونے تک سینکڑوں گاڑیوں کا یہ قافلہ ہزاروں گاڑیوں کے قافلے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ لانگ مارچ کے شرکا کیلئے اجتماعی لنگر، پانی اور آرام کے انتظامات مختلف مقامات پر کیے گئے۔ جگہ جگہ، شہر شہر لانگ مارچ کے شرکا کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ ’ڈیم ہمارے قبضہ تمہارا، نامنظور‘ اور ’آٹا مہنگا، ہائے ہائے‘ کے نعروں سے شروع ہونے والی اس تحریک میں اب ’خون رنگ لائے گا، انقلاب آئے‘، ’جوانیاں لٹائیں گے، انقلاب لائیں گے‘ ایک مقبول نعرہ بن چکا تھا۔
 
یہ غیرمعمولی واقعات تھے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی، ٹیکسوں کے خاتمے، آٹے پر سبسڈی کی فراہمی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے مطالبات پر چلنے والی تحریک میں اب وہ تمام ابتدائی عناصر ترکیبی موجود تھے جو کسی انقلاب کیلئے درکار ہوتے ہیں۔ تاہم قیادت کے مسائل، جغرافیائی علیحدگی و محدودیت اور وسیع تر خطے میں عوامی عدم تحریک جیسے بے شمار عوامل ایسے بھی تھے جو تحریک کو فی الوقت فوری مطالبات تک محدود رکھنے کا باعث تھے۔ اگرچہ پورا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اس تحریک میں متحرک تھا اور بچوں سے لے کر بزرگوں اور خواتین تک معاشرے کی ہر محکوم پرت اس میں شامل تھی۔
 
قربانیوں کی غیر معمولی مثالیں دیکھنے کو مل رہی تھیں۔ جہاں ایک ریڑھی بان نے 80 ہزار روپے کا خریدا گیا اپنا سارا فروٹ لانگ مارچ کے شرکا کو مفت میں تقسیم کر دیا۔ ہوٹل مالکان نے مفت رہائشی انتظامات کیے۔ شہریوں اور تاجرو ں نے کھانے کا بندوبست کیا۔ مختلف چھوٹے شہروں میں پانی اور شربت کے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کے شرکا میں ڈرائی فروٹ، بسکٹ اور دیگر خشک راشن تقسیم کرنے کا عمل بھی خود رو انداز میں جاری تھا۔ مظفرآباد پہنچنے پر شہریوں نے جہاں پرتپاک نعروں سے لانگ مارچ کا استقبال کیا وہیں لانگ مارچ کو روکے جانے کے ممکنہ خدشے کو دیکھتے ہوئے مظفرآباد میں داخل ہونے والی رینجرز کی گاڑیوں کا نہتے نوجوانوں نے مقابلہ کیا۔ رینجرز کی فائرنگ سے 3 نوجوان جان کی بازی ہار گئے اور 2 شدید زخمی ہوئے۔ تاہم نوجوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے رینجرز کو مظفرآباد شہرمیں لانگ مارچ کے راستے تک نہیں پہنچنے دیا۔
 
ان بے قابو ہوتے حالات میں حکومت نے لانگ مارچ کے قافلے مظفرآباد داخل ہونے سے قبل ہی مطالبات منظور کر لیے۔ تاہم اس عمل کے دوران بھی ایک مرتبہ پھر یہ واضح ہوا کہ اس خطے کی حکومت کٹھ پتلی ہی نہیں بلکہ اپنے وسائل کو خرچ کرنے کا فیصلہ کرنے میں بھی ہر طرح کے اختیارات سے محروم ہے۔ مطالبات کی منظوری کا فیصلہ پاکستان کی وفاقی حکومت اور اس کے جموں کشمیر میں نمائندے چیف سیکرٹری کے ذریعے کروایا گیا۔ جبکہ مذاکرات عسکری حکام نے خود ہی کر کے اس سیاسی ڈھانچے کی حقیقت بھی عوام کے سامنے واضح کر دی۔
 
بجلی کے نرخ گھریلو صارفین کیلئے 3 سے 6 روپے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کیلئے 10 سے 15 روپے فی یونٹ مقرر کرنے اور آٹے کی قیمتوں میں 1100 روپے فی 40 کلو کمی کا فیصلہ کیا گیا۔ بجلی کے بلوں سے ہر طرح کے ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 10 ماہ سے بائیکاٹ شدہ بلوں کو از سر نو جاری کرنے اور ریلیف کے ساتھ آسان اقساط میں وصول کرنے کا فیصلہ ہوا اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔
 
تحریک میں وسیع عوامی پرتوں کی شمولیت، سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت، جذبے اور جوش و خروش کے ساتھ جو کامیابی حاصل کی گئی ہے وہ جزوی ہونے کے باوجود ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس کی گزشتہ لمبے عرصے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس عرصے میں بھارتی پنجاب سے لے کے گلگت بلتستان تک شہریوں نے چھینی گئی سہولیات اور حقوق کو واپس لینے کی کامیاب جدوجہدیں کی ہیں۔ تاہم جموں کشمیر میں تحریک کی جیت نیولبرل، سامراجی و نوآبادیاتی سرمایہ داری کے خلاف بہت اہم پیش رفت ہے۔ عوامی طاقت کے سامنے ریاست گزشتہ 20 سال سے جاری لوٹ مار کے سلسلے کو ختم کر کے بجلی کی ترسیل کے پورے نظام کو ری اسٹرکچر کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
 
یہ صرف جموں کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی کامیابی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور دنیا میں آزادی، انقلاب اور طبقاتی و قومی نجات کی جدوجہد کیلئے حوصلے اور طاقت کا باعث ہے اور مستقل کی لڑائیوں کیلئے بہت سے اسباق بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ایسے میں حکمران طبقات نے اس کامیابی کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے پنجاب اور جموں کشمیر کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے اور قومی و لسانی تعصب کے ذریعے تقسیم کے بیج بونے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ لیکن یہ واردات زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی اور پورے خطے بشمول پنجاب کے عام اور استحصال زدہ عوام کی وسیع اکثریت جموں کشمیر کی تحریک کی کامیابی کے انتہائی مثبت اثرات قبول کر رہی ہے۔
 
ان واقعات سے طویل عرصہ کا سیاسی و سماجی جمود ٹوٹنے کی طرف گیا ہے اور قومی بنیادوں پر کی جانے والی قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی خطوط پر استوار کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔ تاہم کامیابی اور جشن کی فضا میں یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ حکمران اور سامراجی ریاست موقع ملتے ہی پلٹ کر وار کرنے کی روش کبھی ترک نہیں کریں گے۔ تحریک سے جو حاصلات ملی ہیں ان کے دفاع اور مزید حقوق کے حصول کیلئے عوام کو مسلسل چوکنا رہنا ہوگا، جدوجہد جاری رکھنی ہوگی اور اپنے مطالبات و لائحہ عمل کو پورے استحصالی ڈھانچے اور سامراجی نظام کے خلاف منظم کرنا ہو گا۔ بہرحال اس جیت سے ملنے والا حوصلہ اور عوامی کی انقلابی طاقت و صلاحیت پر یقین پورے خطے کے محنت کشوں اور طلبہ کو جدوجہد کے نئے سیاسی میدان سجانے اور نئے محاذ کھولنے کی طرف راغب کر ے گا۔
Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔