فاروق سلہریا
مریم نواز نے جب وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو امیج بلڈنگ کے لئے سرکاری سکولوں کے دورے شروع کر دئیے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس پر شدید تنقید کی۔ ’جدوجہد‘ کے ان صفحات پر بھی مریم نواز کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ گوہماری تنقید کی وجوہات تحریک انصاف سے مختلف تھیں۔
’جدوجہد‘کا مضمون یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل رہی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور واپڈا کے ایک گرڈ سٹیشن پہنچتے ہیں جہاں وہ ملازمین کو حکم دے رہے ہیں کہ واپڈا سولہ کی بجائے بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرے۔
خوف کے مارے واپڈا ملازم علی امین گنڈا پور سے مسلسل اتفاق کر رہا ہے۔
وائے ستم! تحریک انصاف سب سے زیادہ شور مچاتی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ گنڈا پو رکا یہ اقدام بھلے سیاسی لحاظ سے لوگوں میں مقبولیت کا باعث بنا ہو مگر یہ حق انہیں کس قانون نے دیا ہے کہ وہ واپڈا کے گرڈ اسٹیشن پر دھاوا بولیں اور واپڈا ملازمین کو حکم جاری کریں؟
بدقسمتی سے مزدوروں کے اس ملک میں حالات بہت پتلے ہیں۔ اگر واپڈا میں ایک جفاکش ٹریڈ یونین ہوتی تو ملازم جراتمندانہ انداز میں وزیر اعلیٰ گنڈا پور سے کہتا کہ حضور آپ گرڈ اسٹیشن پر بدمعاشی کی بجائے کور کمانڈر کے دفتر پر دھاوا بولیں اور کورکمانڈر صاحب سے پوچھیں کہ کینٹ کے لئے زیادہ بجلی کیوں حاصل کی جا رہی ہے؟
علی امین گنڈا پور کا یہ اقدام اخلاقی لحاظ سے بھی شرمناک ہے۔ وہ ایک سرکاری ملازم پر،جو بے اختیار ہے، رعب جما رہے ہیں۔ اگر ان میں واقعی اخلاقی جرات ہے تو کسی دن اسلام آباد میں وزارت پانی بجلی میں متعلقہ وزیر کے دفتر میں گھس بیٹھ کر کے دکھائیں اور اسی رعب دبدبے کا مظاہرہ کریں۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر مریم نواز کے امیج بلڈنگ کے لئے سرکاری سکولوں کے دورے افسوسناک تھے تو گرڈ اسٹیشن پر علی امین گنڈا پور کے دھاوے شرمناک ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔