لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور انجمن مزارعین پنجاب کی پریس کانفرنس میں مزارعین، بے زمین ھاریوں اور چھوٹے کسانوں نے کہا کہ ہم کوئی بھی زمین خالی نہیں کریں گے اور ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ہم کارپوریٹ فارمنگ کو رد کرتے ہیں، یہ مزارعین، زرعی مزدوروں اور چھوٹے کسانوں کے لیے زہر قاتل ہے اور ہماری زندگیوں کو تباہ کرنے کامنصوبہ ہے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور انجمن مزارعین پنجاب نے مطالبہ کیا ہے کہ پورے پاکستان میں زرعی اصلاحات کی جائیں۔ زمین مزارعین، بے زمین کسانوں، زرعی مزدوروں اور چھوٹے کسانوں کو دی جائے۔ یہ ان کا قانونی حق ہے اور ان کو وہ حق دیا جائے، ورنہ ہم اپنا حق لینا جانتے ہیں۔ ہم لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ان ناانصافیوں کے خلاف قانونی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ہم سندھ اور پورے پاکستان کے مزارعین، ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ ہیں۔
پاکستان بھر میں گرین پاکستان منصوبہ (Green Pakistan Initiative) اور کارپوریٹ فارمنگ (Corporate Farming) کے نام پر وہ تمام سرکاری زمینیں،جن پر مزارعین سو سال سے زائد عرصہ سے آباد ہیں، پرائیویٹ کمپنیوں کے نام کی جا رہی ہیں۔ ابھی تک 4.8 ملین ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اب تک 0.9 ملین (تقریباً 10 لاکھ ایکڑ) ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے جس میں پنجاب میں 811,619 ایکڑ، سندھ میں 52,713 ایکڑ، بلوچستان میں 47,606 اور خیبرپختونخوا میں 74,140 ایکڑ اراضی شامل ہے۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع ہو چکی ہے اور اب تک دو لاکھ ایکڑ اراضی کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اور اس سب میں مزارعین، ہاریوں اور چھوٹے کسانوں کی زمینوں کو چھینا جا رہا ہے۔
پنجاب میں اوکاڑہ کے علاوہ عارف والا میں محمد نگر سیڈ فارم کی 27 ہزار ایکٹر زمین اس وقت پرائیویٹ کمپنیوں کے نام کر دی گئی ہے۔ اور یہ سلسلہ باقی فارمز میں بھی شروع کیا جارہا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور ریاستی اداروں کی جانب سے مختلف فارمز کی زمینوں کو خالی کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ مزارعین کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ جلد سے جلد زمینیں خالی کرو ورنہ پولیس کاروائیاں اور آپریشنز کیے جائیں گے۔ اس کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ دو ہفتے پہلے عارف والا کے قریب محمد نگر سیڈ فارم پر ہوا۔ جب اس زمین کا قبضہ لینے پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی اور 700 سے زائد مزارعین نے پولیس کا راستہ روک دیا اور انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بلا آخر پولیس قبضہ لیے بغیر واپس جانے پر مجبور ہوئی مگرمزارعین پیچھے نہیں ہٹے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ حکومت زمینی اصلاحات متعارف کرانے کی بجائے کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے اس پالیسی کو چھوٹے کسانوں اور مزارعین اور بے زمین کسانوں کے خلاف قرار دیا۔
انکا کہنا تھا کہ یہ وہی کارپوریٹ فارمنگ اقدام ہے جسے حکومت جنرل پرویز مشرف کے دور سے متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن نئی اصطلاحات کے ساتھ جیسے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور لاکھوں ملازمتیں پیدا کرنا، جو کہ سب دکھاوا ہے۔
فاروق طارق نے مزید کہاکہ ایوب دور کے سبز انقلاب نے کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار ادویات متعارف کروا کر طویل مدت تک زمینوں اور ان کی پیداواری صلاحیت کو نقصان پہنچایاہے اور اب اس کارپوریٹ فارمنگ کو دوسرا سبز انقلاب بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کسان رابطہ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ قومی غذائی تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے یہ زمینیں بے زمین کسانوں کو دی جائیں، یہ ان کا حق ہے۔
فاروق طارق نے سندھ دریا پر نہروں کی تعمیر کو فوری روکنے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ کیا کہ دریائے سندھ پر کوئی نئی نہر نہ کھودی جائے۔ انہوں نے سندھ میں جاری عوامی تحریک سے یک جہتی کا اظہار کیا۔
انجمن مزارعین پنجاب کے صدر مہر غلام عباس نے کہا کہصرف سرمایہ دار طبقہ کو خوش کرنے کے لیے ناجائز طور پر ہم سے ہمارا حق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 100 سال سے زائد عرصہ سے ہمارے بزرگ یہاں پر آباد ہیں اور تب یہ زمینیں بنجر، غیر آباد اور ویران تھیں،جن کو ہمارے بزرگوں نے خون پسینہ ایک کر کے جانوروں کے ذریعے ہل جوت کر کاشت کے قابل بنایا اور آج بنی ہوئی زمینوں پر ظالمانہ طریقے سے قبضہ کرنے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ ظالم لوگ ہیں جو ہم پر بے جا ظلم کر رہے ہیں اور آج ہم اس ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔جو ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے وہ بھی در حقیقت ظالم کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔
کسانوں کی تحریکوں نے ہمیشہ ان نوآبادیاتی قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جو زمین، لوگوں اور کسانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ریاست اور فوج اب بھی انہیں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زمینوں پر قبضہ کرنے اور لوگوں اور کسانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور منافع کمانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کسان ان ہتھکنڈوں کو چیلنج کر رہے ہیں اور زمینوں پر قبضے اور اپنی زمینوں سے ان کی نقل مکانی کے خلاف زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جن پر وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کاشت کر رہے ہیں۔