مظفرآباد (نامہ نگار) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حال ہی میں نافذ کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے خلاف آزادی پسند اور ترقی پسند جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ مختلف اضلاع اور تحصیل صدر مقامات پر پولیس نے آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے پر ایک درجن سے زائد مقدمات قائم کر لیے ہیں۔ کوٹلی، راولاکوٹ اور ہجیرہ میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مزید گرفتاریوں کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب احتجاج کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔
26نومبر کو کنٹرول لائن کے نزدیک تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ 27نومبر کو ضلع سدھنوتی کے صدر مقام پلندری میں احتجاجی مظاہرہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ 28نومبر کو ضلع باغ میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور آرڈیننس کو کالا قانون قرار دیا۔
آج 29نومبر کو راولاکوٹ، مظفرآباد، بلوچ، دھیرکوٹ سمیت دیگر مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا بھی اعلان کیا جائے گا۔
صدارتی آرڈیننس کے خلاف دنیا بھرمیں بھی کشمیری سراپا احتجاج ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں احتجاج کیا جا چکا ہے۔ 10دسمبر کو انسانی حقوق کے عالم دن کے موقع پر ایک بار پھر امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
سیاسی قیادتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء کے بعد سرکاری ملازمین کی تنظیموں نے اس صدارتی آرڈیننس کو کالا قانون قرار دے کر فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایپکا ضلع پونچھ کے بعد 26ملازم تنظیموں کے اتحاد پبلک سیکٹر ایمپلائز فیڈریشن پونچھ کے عہدیداروں نے بھی تحریری بیان میں ایکٹ2016، صدارتی آرڈیننس 2023اور صدارتی آرڈیننس 2024کو بنیادی جمہوری حقوق کے خلاف قرار دے کر واپس نہ لینے کی صورت احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ کالا قانون ہے، جس کے ذریعے محنت کش عوام کی زبان بندی اور پر امن احتجاج جیسے جمہوری حق پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
صدر پبلک سیکٹر ایمپلائز فیڈریشن پونچھ خورشید اقبال، سینئر نائب صدر جاوید عزیز اور جنرل سیکرٹری داؤد رفیق کی جانب سے جاری اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکمران ملازمین کے مسائل حل کرنے کی بجائے ملازمین کی آواز دبانے کے لیے آئے روز آمرانہ قوانین کا نفاذ کر رہے ہیں۔ملازمین پہلے ہی ایکٹ 2016 جیسے کالے قانون کے ذریعے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم تھے،اس کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کر کے ملازمین کا گلا گھونٹے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکمران طبقہ ایسے قوانین کو اس لیے نافز کر رہا ہے تاکہ حکمران طبقے کے حملوں کے خلاف محنت کش منظم نہ ہو سکیں۔ حکمران پنشن قوانین میں تبدیلی،مستقل روزگار کے خاتمے اور رائٹ سائزنگ کے ذریعے جبری برطرفیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔مہنگائی کے تناسب سے ہر سال حقیقی اجرتوں میں کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔