خبریں/تبصرے

لاہور: ’کلائمیٹ جسٹس مارچ‘ میں سینکڑوں مظاہرین کی شرکت

لاہور(پ ر) لاہور میں سیکڑوں افراد نے ماحولیاتی انصاف اور صاف ہوا کے مطالبے پر مارچ کیا۔ ریلی میں مختلف ٹریڈ یونینز، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور تحریکوں نے شرکت کی۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی کال پر مظاہرین نے پریس کلب سے چیرنگ کراس تک مارچ کیا۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل فاروق طارق نے کہاکہ ’اگرچہ پاکستان کے عوام اس بحران کے بدترین اثرات کا سامنا کر رہے ہیں جو انہوں نے پیدا نہیں کیا، لیکن موسمیاتی تباہی کے ذمہ دار امیر ممالک ذمہ داری سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔

ہم سیلاب سے متاثرہ لوگوں اور کسانوں کے لئے فوری معاوضے، صاف ہوا کا حق اور سب کے لئے ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی قیادت میں چلنے والی تحریک ماحولیاتی بحران پیدا کرنے والوں کا احتساب کرے اور ایک پائیدار اور منصفانہ مستقبل کی تعمیر کرے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں 2022 کا سیلاب ملک کی تاریخ میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی بدترین آفات میں سے ایک تھا۔ مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور برفانی تودوں کے پگھلنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے تقریبا 33 ملین افراد متاثر ہوئے، 1700 سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔

لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر خالد محمود نے کہا کہ’توانائی کی پیداوار کے لئے فوسل ایندھن پر پاکستان کا زیادہ انحصار ماحولیاتی تباہی اور معاشی عدم استحکام دونوں کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت ملک کی 60 فیصد سے زیادہ بجلی کوئلے، تیل اور گیس جیسے فوسل ایندھن سے آتی ہے، جبکہ قابل تجدید توانائی کا حصہ 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ انحصار نہ صرف گرمی اور سیلاب جیسی صورت حال پیدا کرتا ہے بلکہ ایندھن کی درآمد کے بڑھتے ہوئے بلوں کے ذریعے معیشت پر بھی بوجھ ڈالتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ’نہ صرف اخراج کو روکنے کے لئے بلکہ پائیدار ملازمتیں پیدا کرنے اور ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود لوگوں کی حفاظت کے لیے قابل تجدید توانائی کی طرف منصفانہ منتقلی بہت ضروری ہے۔ اب عوام پر مرکوز توانائی کی منتقلی کا وقت آگیا ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’2022ء تک پاکستان نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اپنی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا ہے، کوئلے کے پلانٹس سے مجموعی طور پر تقریبا 5,000 میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی ہے، جو ملک کی کل نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا تقریبا 30 فیصد ہے۔‘

انہوں نے آخر میں کہا کہ ’ماحولیاتی بحران اب ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ پہلے ہی گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے، جہاں گلیشیئر خطرناک شرح سے پگھل رہے ہیں۔ نواحی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ کارپوریٹ مفادات ماحولیاتی تباہی کی پرواہ کیے بغیر لاپرواہی سے وسائل نکالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی انصاف کا مطلب ہے لوگوں اور سیارے کو منافع سے پہلے رکھنا۔‘

عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر بابا جان نے کہا کہ ’ہمیں استحصال کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے اور اپنی زمینوں، معاش اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts