پاکستان

”ہمت تھی تو مجھے پکڑتے“

فاروق طارق

جولائی 2007ء میں وکلا تحریک کے باعث معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو چکے تھے اور اب وکلا تحریک ایک مخمصے کا شکار تھی۔

وکلا میں ایک بار پھر تحریک جاری رکھنے کا شعور ابھرنے لگا۔ اب دو قسم کی سوچیں تھیں، ایک وہ جو سمجھتے تھے کہ چیف جسٹس کی بحالی سے ہمارا کام ہو گیا ہے اور اب بس۔ دوسرا رحجان وہ تھا جو درست طور پر سمجھتا تھا کہ وکلا تحریک آمریت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے، عاصمہ جہانگیر اس رحجان کی قیادت کر رہی تھیں۔

ہم تو آغاز سے ہی اس تحریک کو مشرف آمریت کے خاتمے سے منسلک کر رہے تھے۔ اس وقت میں لیبر پارٹی پاکستان کا جنرل سیکرٹری تھا۔ 9 مارچ 2007ء کے ایک روز بعد ہی ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ لیں گے۔

ایبٹ روڈ لاہور کے دفتر میں ہم نے 12 مارچ کو ایک اجلاس بلایا جس میں ہمدرد ساتھیوں سے شرکت کی اپیل کی۔ ایک پوسٹر شائع کرنے کا فیصلہ کیاگیااور اب بحث اس کے نعرے پر ہو رہی تھی۔ اسی اجلاس میں فرخ سہیل گوئیندی اور رضوان عطا نے تجویز دی کہ اسے آمریت کے خاتمے سے منسلک کیا جائے، ”چیف جسٹس کی بحالی سے آمریت کے خاتمے تک“ کا نعرہ طے ہو گیا۔

لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی اپنی ایک پرنٹنگ پریس تھی ”شناخت پریس“ کے نام سے۔ کوئی دس ہزار پوسٹرز شائع کئے اور ملک بھر کی بار ہ ایسوسی ایشنز کو یہ پوسٹر پوسٹ کر دیاگیا۔ شاید یہ وکلا تحریک کا پہلا پرنٹڈ پوسٹر تھا۔

عاصمہ جہانگیر تو اس تحریک کی راہنما تھیں اور ہر جمعرات کے جلوس میں شریک ہوتی تھیں اور ہم بھی۔

جب چیف جسٹس کی سپریم کورٹ کے فل بینچ کے ذریعے بحالی ہو گئی تو عاصمہ جی نے فون کر کے اپنے دفتر گلبرگ مین بلیوارڈ میں بلایا۔ سوال تھا اب کیا کیا جائے؟ عاصمہ جی نے ایک اور پوسٹر نکالنے کی تجویز دی۔ ایک کرسپی سا نعرہ بھی انہوں نے بتا دیا۔ یہ پوسٹر ہم نے کسی تنظیم کی جانب سے نہیں نکالا بلکہ ایک نامعلوم ٹائپ پوسٹر تھا۔ عاصمہ جی میں انارکسٹوں کے کچھ اچھے ٹرینڈز موجود تھے۔ کبھی کبھی یہ رحجان عاصمہ جی میں جاگ جاتا تھا۔ وہ اس تحریک کو آمریت خاتمے سے جوڑنے پر تلی ہوئی تھیں اور ہم بھی انکے اس ایشو پر قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ پوسٹر عاصمہ جی نے خفیہ طور پر شائع کرایا اور ملک بھر میں یہ مقبول ہو گیا۔

ہم جیسے بائیں بازو کے ساتھی اسی رحجان کے ساتھ تھے۔ میں تو شاید ان میں شمار ہوتا تھا جو وکیل تو نہ تھا مگر سب سے زیادہ بار گرفتار ہوا۔

لاہور کا ایک جوان ایس پی احسن یونس میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اس نے سول لائنز میں بلا کر کوئی دو گھنٹے مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ محنت کشوں کا اس تحریک سے کیا تعلق، لہٰذا اس میں شرکت نہ کرو۔ جب میں نے ماننے سے انکار کیا تو اس نے ایک سچی دھمکی دی ”تم نے میری بات نہیں مانی، تمہیں تمھارے دفتر، سڑک اور گھر سے گرفتار کروں گا“، اور یہ اس نے کئی دفعہ کیا۔

عاصمہ جی نے ایک روز بلا کر کہا۔ ”وکلا تحریک کے دوسرے مرحلے کا پہلا جلوس 27 ستمبر 2007ء کو نکالنے کا فیصلہ ہوا ہے تم کوئی دو سو سیاسی کارکنوں اور محنت کشوں کو موبلائز کرو“، میں نے ہاں کر دی۔

دوسرے دن ہی میرے گھر پر پھر چھاپے پڑنے شروع ہو گئے۔ میری بیٹی مشعل جو اس وقت 14 سال کی تھی، اب پولیس کو ڈاج کرانے میں ماہر ہو چکی تھی۔ وہ باہر دروازے پر ہی ان کو میرے گھر پر نہ ہونے بارے ایسے قصے بتاتی تھی کہ پولیس اس پر یقین کرتے ہوئے گھر کے اندر زبردستی آنے کی بجائے واپس چلی جاتی تھی۔ اس روز بھی میں گھر میں تھا اور مشعل کا جادو چل گیا۔

میں انڈر گراؤنڈ ہو گیا۔ میں نے اعلان کر دیا تھا کہ 27 ستمبر کے جلوس میں شریک ہوں گا۔ محمود بٹ مرحوم کو خاص طور پر بھٹہ مزدوروں کو موبلائز کرنے کا ٹاسک دیا۔ نازلی، عذرا اور بشریٰ خالق کو عورتوں کو موبلائز کرنے کی درخواست کی۔ سرخ جھنڈے بھی بنوا لئے گئے۔

ستائیس ستمبر کو عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں لاہور ہائی کورٹ سے جلوس نکلا تو وکلا سے زیادہ محنت کش سرخ جھنڈے لئے شریک تھے۔ یہ مشرف آمریت کے خاتمے کی تحریک کے دوسرے مرحلے کا ایک شاندار آغاز تھا۔

ہم نعرے لگاتے چیئرنگ کراس جارہے تھے پولیس پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں نظر آ رہی تھی۔ میرا پروگرام تھا کہ واپسی پر ریگل چوک پر کلاسیک کے سامنے سے جلوس سے علیحدہ ہو جاؤں گا۔ ایک ساتھی جاوید بھٹی وہاں پر موٹر سائیکل لے کر کھڑا ہو گا اور مجھے لے جائے گا۔ واپسی پر جب وہاں پہنچے تو مشکوک افراد وہاں بھٹی کے ارد گرد کھڑے نظر آئے۔ وہاں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ بعد میں پولیس والوں نے بتایا کہ وہ ہمارے آدمی تھے۔

ہائی کورٹ واپسی کے بعد جب میں وہاں سے نکلا تو معلوم تھا کہ گرفتار ہوں گا لیکن اب گرفتاری دینی ہی تھی۔ میں نے کار اے جی آفس کی طرف بھگائی تو پولیس نے چوک میں گھیر لیا اور گرفتار کر کے مجھے پرانی انارکلی تھانے میں لے گئے۔ کوئی دو گھنٹے بعد نعروں کی آواز آئی میری رہائی کا مطالبہ کرتے ہماری بہادر عورتیں تھانے کے باہر نعرے لگا رہی تھیں۔ مزا آگیا۔

شام کو معلوم ہوا کہ میرے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جب مجھے ایک کمرے سے نکال کر دوسروں کے ساتھ بند کیا گیا تو معلوم ہوا ہمارے دس اور ساتھی بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ یہ سارے بھٹہ مزدور تھے جو جلوس سے واپسی پر ایک گروپ کی صورت میں واپس جا رہے تھے۔ رات انکے ساتھ گپیں لگاتے اور گانے گاتے گزر گئی۔

شام کو ہی بشریٰ خالق نے تھانے آکر بتا دیا کہ عاصمہ جہانگیر کو اطلاع کر دی گئی ہے وہ صبح انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوں گی۔ بشریٰ نے کہا وہ بہت غصے میں ہیں کہ وکلا کو تو نہیں پکڑا، سیاسی کارکنوں کو پکڑ لیا ہے۔

صبح ہم اب اس انتظار میں تھے کہ دھرم پورہ پل پر واقع عدالت میں لے جایا جائے گا۔ کچھ ساتھی بھی آگئے تھے۔ عاصمہ جی صبح آٹھ بجے ہی عدالت پہنچی ہوئی تھیں۔ اب پولیس چکروں میں تھی کہ ہمیں عدالت کا وقت ختم ہونے سے چند لمحے پہلے ہی عدالت پہنچایا جائے تا کہ جلدی جلدی ان کو جیل بجھوایا جا سکے اور وکیل کوئی شور نہ مچا سکیں۔

عاصمہ جہانگیر نے دس بجے تک تو عدالت میں انتظار کیا۔ وہ بھانپ گئی تھیں کہ اب پولیس کیا چکر چلا رہی ہے۔ ہمیں اچانک تھانے کے اندر عاصمہ جی نظر آئیں سیدھا ہمارے پاس۔ خیریت دریافت کی اور پولیس والے سے پوچھا کہ انہیں عدالت کیوں نہیں لے جا رہے؟ اس نے کہیں یہ کہہ دیا ”ابھی حکم نہیں ہے“۔

بس پھر کیا تھا۔ عاصمہ جی کا پارا چڑھ گیا۔ سیدھی ننگی گالیاں لاہوری سٹائل میں ایس پی کو سنانے لگیں۔ کہنے لگیں بلاؤ اس حرامزادے کو، جلوس میں نے نکالا، پکڑا فاروق اور اسکے ساتھیوں کو، ہمت تھی مجھے پکڑتے، پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔ دس ہی منٹوں میں ایک اے ایس پی آگیا۔ اب وہ عاصمہ جی سے معذرت در معذرت کر رہا تھا۔

”اچھا ٹھیک ہے ان کو ابھی عدالت لے کر چلو، میری گاڑی انکے ساتھ چلے گی“ پولیس اب ہمیں عدالت لے کر جا رہی تھی اور عاصمہ جی ساتھ ساتھ۔ عدالت میں اب عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ربیعہ باجوہ، نثار صفدر اور درجنوں اور وکیل بھی موجود تھے۔

جب دلائل شروع ہوئے تو عاصمہ جی بتا رہی تھیں، چٹھہ نامی انسداد دہشت گردی کے جج کو کہ جلوس نکالنا کوئی دہشت گردی نہیں۔ یہ جلوس میں نے نکالا لیکن معاشرہ کے کمزور ترین افراد بھٹہ مزدوروں کو اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ تو میرے خلاف بنتا ہے ان کے خلاف نہیں۔ کوئی پندرہ منٹ دلائل دیتی رہیں۔ جج صاحب سر ہلاتے رہے، میں اس خوش فہمی میں ہو گیا کہ ابھی ہماری ہتھکڑیاں کھلیں گی۔ پولیس نے جسمانی ریمانڈ مانگا ہوا تھا۔ جج صاحب نے جیسے ہی ہمیں ایک ہفتہ کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا اعلان کیا، عاصمہ جی کا پارہ پھر ہائی ہو گیا۔

جج صاحب کو انہوں نے خوب سنائیں، تم آمریت کے پروردہ ہو ابھی تک تمہیں عقل نہیں آئی۔ تمہیں میں دیکھ لوں گی کیسے اس سیٹ پر رہتے ہو، تم جیسے ججوں نے عدلیہ کا بیڑا ناس کیا ہوا ہے، جج اب خاموش تھا اور عاصمہ جی کی جلی تلی سن رہا تھا۔

ایک نوجوان وکیل اٹھا اور کہنے لگا جج صاحب آپ کو معلوم نہیں دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟ میں آپ کو بتاؤں گا یہ کیا ہوتی ہے۔ جب آپ باھر نکلو گے تو میں آپ پر حملہ کروں گا۔ یہ ہوتی ہے دہشت گردی۔

ہم نے اسی عدالت کے اندر ”گو مشرف گو“ کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ ایک عجیب تماشہ لگ گیا۔ پولیس نے ہمیں خاموش ہونے کو کہا، ہم نے اور زور سے نعرے لگائے۔ عاصمہ جی نے ہمیں خاموش کرایا۔

عدالت سے باھر نکلتے ہی میں نے انہیں کہا۔ آج مزا آگیا۔ آپ نے جو کیا اور کہا، وہ تاریخی ہے۔ بکاؤ ججوں اور پولیس کی اس سے زیادہ بے عزتی ہوتے میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اس نشے میں اب ایک سال تک جیل اور بھگت سکتا ہوں۔ کوئی پرواہ نہیں۔

عاصمہ جی نے کچھ کاغذات پر ہم سے دستخط کراتے کہا، ”فکر نہ کرو، میں تمہیں لے آؤں گی، زیادہ دیر اندر نہیں رہو گے“۔ پولیس ہمیں کیمپ جیل لے گئی۔ ہمیں اڑتی گنتی میں ڈال دیا، اس کا مطلب تھا ہم سب ایک جگہ نہیں ہوں گے۔

اگلے روز مجھے کہا گیا کہ ابھی آپ کو جیل سپریٹنڈنٹ کے سامنے پیش کریں گے سر جھکا کر رکھنا ہے اور کوئی بات نہیں کرنی۔ جب میری حاضری کی باری آئی تو میں نے ہدایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا آپ سے بات کرنی ہے، کہنے لگے کرو۔ میں نے کہا ”ہم سیاسی قیدی ہیں ہمیں علیحدہ علیحدہ کیوں رکھا ہے ایک جگہ رکھیں اور ہمیں اخبار بھی روزانہ چاہئے اور آج بھی چاہئے۔“ جیل سپریٹنڈنٹ نے مجھے غور سے دیکھا، میں نے بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی تھیں اور پھر حکم دیا کہ انہیں اکٹھا کرو ایک بیرک میں اور اخبار بھی دو۔

عجیب اتفاق تھا کہ اس واقعے کے دس سال بعد 2017ء میں اسی جیل سپریٹنڈنٹ سے ساہیوال ہائی سکیورٹی جیل میں اس وقت ملاقات ہوئی جب میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مہر ستار سے ملاقات کے لئے گیا تو باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ 2007ء میں کیمپ جیل کے سپریٹنڈنٹ تھے۔ جب میں نے انہیں یہ واقعہ یاد کرایا تو اسے بھی یہ یادآیا اور کہنے لگا کہ دیکھو اس وقت بھی میں نے آپ لوگوں کی قدر کی تھی اور آج بھی کرتا ہوں۔

جیسے ہی ہماری بیرک میں جنگ اخبار دیا گیا اسکے بیک والے صفحے پر خبر تھی کہ ہماری ضمانتیں منظور کر لی گئی ہیں۔ ہم تو یہ خبر پڑھ کر اچھلے، اس روز جمعہ تھا۔ اب سوموار کو ہی ہم باہر آسکیں گے ضمانت کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اورمچلکے دیتے ہوئے۔

جیل سے باہر آ کر معلوم ہوا کہ ہمارے جانے کے بعد عاصمہ جہانگیر اسی جج کے پاس ہماری ضمانت کی درخواست لے کر گئیں تو اس جج نے کہا، آپ نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ میں تو اب یہ نہیں سنوں گااسے دوسرے جج کو مارک کر دیتا ہوں۔

عاصمہ دوسرے جج کے پاس گئیں تو وہ جج تھا جو ابھی ابھی دوبارہ بحال ہو کر آیا تھا۔ وہ جج بھی چیف جسٹس کی بحالی مہم میں استعفیٰ دے گیا تھا اور افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد اسے بھی بحال کر دیا تھا۔

وہ تو عاصمہ جی کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس نے کوئی دلیل سنے بغیر ہماری ضمانتیں لینے کا اگلے روز کا نوٹس کیا اور عاصمہ جی کو کہا کہ ”آپ کے آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے جونئیر کو بھیج دیں“۔

عاصمہ جی نے شکریہ کے ساتھ کہا”یہ لیبر پارٹی والے ہیں۔ ضمانتوں میں لاکھ روپے نہ رکھ دینا اور 20,000 روپے کے مچلکوں سے ہماری ضمانتیں منظور کی گئیں۔

سوموار کو ہم جیل سے باہر، صرف تین بعد ہی اور پھر ہر جمعرات کو وکلا کے ساتھ جلوسوں میں شریک ہونے لگے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔